وزیراعظم عمران کی ماضی کو بھلانے کی تلقین


سوشل میڈیا پر پتھروں کی طرح برستے پیغامات کو ذرا غور سے دیکھیں تو آپ کو احساس ہوگا کہ عمران خان صاحب کے انٹرنیٹ فدائی ان دنوں ہمارے ان ’’لبرلز‘‘ کی ’’پریشانی‘‘ سے بہت حظ اُٹھا رہے ہیں جنہوں نے کبھی تحریک انصاف کے بانی کو ’’طالبان خان‘‘ قرار دیا تھا۔ عمران خان نے ایسے مخالفین کو پہلے ایران کے ڈاکٹر علی شریعتی کی جانب سے دریافت کئے ’’مغرب زادے‘‘ قرار دیا۔ ہمارے ماحول میں یہ ترکیب چل نہ پائی تو خان صاحب نے انہیں ’’خونی لبرلز‘‘ پکارنا شروع کردیا۔

سپریم کورٹ سے اکتوبر میں ایک فیصلہ آنے کے بعد ایک مخصوص جماعت نے جو واویلا مچایا ہمارے وزیراعظم اس پر بہت چراغ پا ہوئے۔ چین کے دورے پر روانہ ہونے سے قبل قوم سے مختصر الفاظ میں خطاب کیا اور بہت شدت سے ریاستی رٹ کو ہر صورت بحال کرنے کا عہد کیا۔

وطنِ عزیز سے ان کی عدم موجودگی کے دوران لیکن ان کے وزراء نے فساد برپا کرنے والے عناصر سے ایک تحریری معاہدہ پر دستخط کراتے ہوئے قومی شاہراہوں پر ٹریفک کو رواں کیا۔ ’’خونی لبرلز‘‘ اس معاہدے کو برداشت نہ کر پائے۔ خان صاحب اور ان کی جماعت پر طعنہ زنی شروع کردی۔

سوشل میڈیا پر چھائے تحریک انصاف کے فدائین نے مگر ان لبرلز کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ پوری استقامت سے اپنے ان وزراء کی فراست کو سراہا جنہوں نے مذکورہ تحریری معاہدے کے ذریعے ایک حساس معاملے پر فساد کی آگ بھڑکنے نہیں دی۔

راولپنڈی کو اسلام آباد سے ملانے والے فیض آباد چوک پر 22دنوں تک پھیلے دھرنے کی بدولت پھیلی ابتری جیسی صورت حال پیدا نہ ہوئی۔ان فدائین کا یہ اصرار بھی تھا کہ مذکورہ معاہدے کو طعنوں کا نشانہ بناتے ہوئے ہمارے لبرلز درحقیقت اپنی ’’خونی‘‘ جبلت کو آشکار کررہے ہیں۔

مبینہ طورپر مغربی ممالک کے چندوں پرپلنے والے یہ لبرلز درحقیقت یہ چاہتے ہیں کہ ریاستِ پاکستان مذہب کے نام پر مشتعل ہوئے افراد سے ٹکراکر کمزور ہوجائے۔تحریک انصاف کی فراست نے لیکن ان کے ارادوں کو ناکام بنادیا۔’’طالبان خان‘‘ کے مخالفین اپنے دفاع میں مؤثر دلائل ڈھونڈہی رہے تھے کہ تحریک انصاف نے اچانک اس جماعت کے رہ نمائوں اور سرکردہ کارکنوں کو تحفظِ امنِ عامہ کی دفعات کے تحت گرفتار کرلیا۔

ان گرفتاریوں کے خلاف احتجاج کے نام پر پورے ملک میں قابلِ ذکر شور بھی سننے کو نہیں ملا۔ فساد تو بہت دور کی بات ہے۔ریاستی رٹ کو مؤثر انداز میں بحال کرنے کے سبب ہمارے لبرلز دل وجان سے ’’طالبان خان‘‘ اور ان کی حکومت سے شکوے شکایات بھلاکر دادوتحسین میں مصروف ہوگئے۔

ریاستی رٹ کی مؤثر بحالی کے بعد اب وزیر اعظم عمران خان صاحب نے کرتارپور راہداری کی سڑک کا افتتاح کرتے ہوئے تاریخ بنادی ہے۔ افتتاحی تقریب کے دوران انہوں نے جنوبی ایشیاء میں دائمی امن کے قیام کی خواہش کے اظہار کے لئے جو تقریر کی اس نے ہمارے لبرلز کے دل موہ لئے ہیں۔ مبارک سلامت کے ڈونگرے برسائے جارہے ہیں۔

تحریک انصاف کے انٹرنیٹ فدائی اس کے بارے میں فاتحانہ لذت محسوس کررہے ہیں۔ ان کی لذت ہر حوالے سے جائز اور مناسب ہے۔اپنے دفاع میں ہمارے لبرلز اگرچہ یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ کرتارپور کی راہداری کا افتتاح کرتے ہوئے عمران خان صاحب درحقیقت اس راہ کی جانب چل پڑے ہیں جو ’’پیپلز ٹو پیپلز‘‘ روابط کے نام پر ’’مغرب زدہ‘‘ این جی اوزوالے کئی برسوں سے اس خطے میں متعارف کروانے کی کوشش کررہے تھے۔

کرتارپور راہداری کے علاوہ اب مزید راہداریاں کھلنے کی توقع باندھی جارہی ہے۔اُمید یہ بھی ہے کہ شاید عمران خان صاحب ہی جنوبی ایشیاء میں دائمی امن کو اپنی پرخلوص کوششوں سے ممکن بناسکتے ہیں۔چونکہ وہ ’’مودی کے یار‘‘ نہیں۔ بھارت میں ان کے کاروباری مفادات بھی نہیں۔اس لئے ہمارے اداروں کو ان کی نیت پر شبہ نہیں۔

غیرملکی جارحیت کے امکانات کو یہ ادارے کئی حوالوں سے تقریباََ ناممکن بناچکے ہیں۔ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ممالک کے درمیان روایتی جنگ بھی دیوانگی تصور ہوتی ہے۔ پاکستان اور بھارت کو بالآخر اپنے دیرینہ مسائل اور خاص کر کشمیر کے مسئلے کو بات چیت کے ذریعے ہی حل کرنا ہوگا۔ٹھوس حقائق نے عمران خان صاحب کو تاریخی کردار ادا کرنے کے قابل بنادیا ہے۔

تالی مگر دو ہاتھوں سے بجتی ہے۔ پاکستان کو عمران خان صاحب کی صورت ایک تاریخ ساز رہ نما مل گیا ہے۔بھارت مگر اب بھی ہندو انتہاء پسندی کے جنون میں مبتلا نظر آرہا ہے۔کرتارپور راہداری کے ضمن میں پاکستان کی جانب سے ہوئی پیش قدمی نے دلی کے حکمرانوں کو بوکھلادیا ہے۔

سکھوں کے مذہبی جذبات کو ذہن میں رکھتے ہوئے مودی سرکار کے پاس اس کے علاوہ کوئی آپشن ہی موجود نہیں تھا کہ پاکستان میں منعقد ہوئی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لئے دو وزراء کو نامزد کرتی۔ ان وزراء کی نامزدگی کے بعد بھی ہندوانتہا پسند Baseکی تسلی کے لئے بھارتی وزیر خارجہ کو یہ مضحکہ خیز بیان دینا پڑا کہ مذکورہ وزراء بھارتی سرکار کے نمائندوں کے طورپر نہیں بلکہ ’’ذاتی‘‘ حیثیت میں 28نومبر والی تقریب میں شریک ہوئے ہیں۔

معاملہ فقط ’’ذاتی‘‘ ہوتا تو مذکورہ تقریب میں شرکت بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ امریندرسنگھ کا مذہبی ہی نہیں وراثتی حق بھی تھا۔اس سے قبل لکھے ایک کالم میں ذکر کرچکا ہوں کہ کرتارپور بہت عرصے تک سیلاب کے پانی میں گم رہا۔ وہ بازیاب ہوا تو خطیر رقم سے اس کی بحالی کا سلسلہ کئی برسوں تک جاری رہا۔

امریندر سنگھ کے دادا اور پٹیالہ کے مہاراجہ بھوپندرسنگھ نے تن تنہا اس خرچ کو برداشت کیا تھا۔امریندرسنگھ مگر اپنے مذہبی اور وراثتی حق کو ’’ذاتی‘‘ حوالوں سے استعمال نہ کرپایا۔ کرتارپور راہداری کی افتتاحی تقریب میں اس کی شرکت سے معذرت بہت ہی واضح انداز میں اس دبائو کا مظہر ہے جو بھارتی پنجاب کا وزیر اعلیٰ دلی کے حکمرانوں میں موجود بوکھلاہٹ کی وجہ سے محسوس کررہا ہے۔

پٹیالہ کا ذکر ہوا تو احتیاطاََ یہ بات بھی یاد دلاتا چلوں کہ ہمارے ہاں کرتار پور راہداری کی وجہ سے بہت مشہور ہوئے سدھو کا تعلق بھی پٹیالہ سے ہے اگرچہ وہ بھارتی پنجاب کی اسمبلی کارکن امرتسر کے اس حلقے سے منتخب ہوا ہے جو پاکستانی سرحد کے بہت قریب ہے۔ کانگریس میں آنے سے قبل سدھو بہت عرصے تک مودی کی BJPکارُکن رہا ہے۔

مودی امرتسر کو اپنے ایک چہیتے ارون جیتلی کے حوالے کرنا چاہ رہا تھا۔امریندرسنگھ اور سدھو نے یکجاہوکر یہ شہراندراگاندھی کی کانگریس کے لئے بچالیا۔ اندراگاندھی کا ذکر ہو تو ہمیں یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ سکھوں کے لئے انتہائی مقدس ٹھہرے امرتسر کے گولڈن ٹمپل پر فوجی کارروائی کا حکم اسی نے دیا تھا۔

اس حکم کا بدلہ بھارتی وزیر اعظم کے دو سکھ باڈی گارڈز نے اسے 1984میں قتل کرکے لیا۔ اس قتل کے بعد تین دنوں تک دلی میں سکھوں کا قتل عام ہوا۔ میں اس قتل عام کے صرف دس دن بعد 1984میں زندگی میں پہلی بار بھارت گیا تھا۔ سکھوں نے اس قتل عام سے بہت کچھ سیکھا ہے۔

کرتارپور راہداری کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے ماضی کو بھلانے کی تلقین کی ہے۔

میں ان کے حکم کے احترام میں 2018میں بھی سکھوں کی اجتماعی نفسیات میں موجود خیالات کو کریدنے سے لہذا گریز اختیار کررہا ہوں۔

بشکریہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).