اسلام میں عورت کا مقام


عورتوں کے حقوق کی دنیا آج بات کر رہی ہے ”حقوق نسواں“ کی دنیا آج آواز بلند کر رہی ہے، عورت کے ساتھ ہونے والے ظلم اور زیادتی پر بات کرتے ہے۔ اور کہتے ہیں کہ اسلام عورتوں کے حقوق نہیں دیتا، حالانکہ اسلام نے عورت کی انسانی حیثیت کو واضح کیا کہ عورت اپنی آدمیت اور انسانیت میں ناقص نہیں کامل اور مکمل ہے۔ کہتے ہیں، اسلام عورتوں پر بے جا پابندیاں لگاتا ہے۔ درحقیقت اسلام نے تو عورتوں کے حقوق کی آواز اس وقت اٹھائیں جب دور جاہلیت میں عورت کے لیے کوئی حقوق سرے سے تھے ہی نہیں، عورت کی حیثیت ماننا درکنار اس کو معاشرے میں زندہ رہنے کا بھی حق نہ تھا۔ جب ماؤں کو بازار میں بیچ دیا جاتا تھا، عورتوں کو کمتر اور حقیر سمجھا جاتا تھا، لوگ لڑکی کے پیدا ہونے پر غصے میں ہوتے اور انہیں زندہ دفن کر دیا کرتے تھے۔ قرآن کریم میں اس طرز عمل کو یوں بیان کیا گیا ہے۔

”اور جب ان میں سے کسی کی بیٹی کی خوشخبری دی جائے تو اس کا منہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غمگین ہوتا ہے“

”اس خوشخبری کی برائی کے باعث لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے، آیا اسے ذلت قبول کر کے رہنے دے یا اس کو مٹی میں دفن کر دے، دیکھو کیا ہی برا فیصلہ کرتے ہیں“ (سورہ النحل، 16 آیت 58، 59 )

اس آیت میں اللہ تعالی نے جاہلیت کے دور کی غلط رسم کو بیان فرمایا اور اس کی مذمت کی ہے۔ اسلام سے قبل مختلف تہذیبوں کا جائزہ لیا جائے تو اس بات کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا، کہ عورتیں بے توقیر اور قابل رحم تھی اسے تمام برائیوں کا سبب اور قابل نفرت تصور کیا جاتا تھا۔ عورتوں کی صحیح حیثیت کا واضح تصور اسلام کے علاوہ کہیں نہیں ملتا۔ وہ معاشرہ جو ماں کو بازاروں میں بیچ دیا کرتا تھا، وہی معاشرہ جو عورتوں کو زندہ درگور کر دیا کرتا تھا۔ وہی معاشرہ آپﷺ کے آنے اور دین اسلام کو رائج کرنے کے بعد عورتوں کی حیثیت کو تسلیم کرنے لگا،

آپﷺ نے اہل ایمان کی جنت ”ماں“ کے قدموں تلے قرار دے کر ماں کو معاشرے کا سب سے زیادہ عزت و احترام والا مقام دیا۔ دین محمدیﷺ کی ترقی اور تدریس کے ساتھ جہاں پسے ہوئے طبقوں کو احترام کا مقام ملا، وہاں عورتوں کو بھی ارفع و اعلئی مقام ملا، ماں کے درجے کو مردوں سے تین گنا زیادہ مرتبہ دیا۔ اسلام ہمیں اس امر کی تعلیم دیتا ہے، کہ بیٹی زحمت نہیں اللہ کی رحمت ہے۔ اسلام نے ناصرف معاشرتی و سماجی سطح پر بیٹی کا مقام بلند کیا بلکہ اسے وراثت میں بھی حقدار ٹھہرایا۔ آپ ﷺ نے خود مثال عطا فرمائی کے آپﷺ ہمیشہ حضرت فاطمہ علیہ السلام کے احترام میں کھڑے ہوجاتے۔

بیوی کو صرف ایک نوکرانی اورلونڈی کی حیثیت سے رکھا جاتا آپﷺ نے فرمایا ”تم میں سے سب سے بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہے“

اسلام نے عورت کو مرد کے برابر درجہ دیا ہے۔ اللہ کے ہاں نیک عمل کا اجر دونوں کے لئے برابر قرار پایا، جو کوئی بھی نیک عمل کرے گا تو ثواب وجزا کا برابر حق دار ٹھہرایا جائے گا قرآن حکیم میں عورت کے لئے اشاد ربانی ہیں۔

”عورتوں کے ایسے ہی حقوق ہیں مردوں پر جیسے مردوں کے حقوق عورتوں پر ہیں۔ “

اسلام ہی کا کارنامہ ہے کہ حواء کی بیٹی کو عزت احترام کے قابل تسلیم کیا گیا ہے۔ اور اس کو مرد کے برابر حقوق دیے گئے ہیں حقیقت تو یہ ہے کہ اسلامی تاریخ کی ابتدا ہی عورت کے عظیم الشان کردار سے ہوتی ہے۔ عورت ماں، بیوی، بیٹی، بہن ہر کردار میں عزت و تکریم کی قابل ہے۔ اور اس کو یہ مقام اسلام نے دیا ہے، اسلام کے علاوہ باقی تمام تہذیبوں نے خصوصا مغرب جو آج عورت کو معاشرے میں مقام دلوانے کا سہرا اپنے سر باندھنا چاہتا ہے۔

اس معاشرے نے ہمیشہ عورت کے حقوق سبوتاژکیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی مختلف تہذیبوں اور اقوام نے عورت کے لئے سیکڑوں قانون بنائیں لیکن اسلام کے سوا عورت کے حقوق کو کہیں بھی پذیرائی نہیں ملی، اسلامی تہذیب نے عورت کو عظیم مقام دیا بلکہ کائنات کا اہم ترین جز قرار دیا۔ اسلام عورت کو ہر قسم کی آزادی دیتا ہے اس کی صلاحیت کی قدر کرتا ہے مگر حجاب و احساس عفت کی شرط کے ساتھ، اسلام ہی وہ واحد مذہب جس میں ماں کی خدمت کو جہاد پر ترجیح دی گئی ہے۔

اسلام نے بہن، بیوی، بیٹی کا معزز مقام دے کر نہ صرف اس کا تقدس بحال کیا بلکہ معاشرے کی سب سے معزز ترین مخلوق قرار دیا۔ ہماری یہ صنفِ نازک مغربی ثقافت کی یلغار میں جس طرح سے کھو چکی ہے، فحاشی، عریانی، بے حیائی کا سبب بن رہی ہے، ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی اولادوں کی تربیت ایسے خطوط پر کریں کہ ہماری بیٹیاں، بہنیں اور مائیں جن مغربی ضابطوں پر فخر کر رہی ہیں وہ فلاح کا راستہ نہیں بلکہ سیدھا جہنم کی طرف لے جانے والا ہے۔ اور اس راستے سے ہم نے قرآنی تعلیمات اور سنت نبویﷺ سے آگاہی دے کر اور راہنمائی لے کر اپنے خوبصورت رشتوں کے تقدس کو پامال ہونے سے بچانا ہے۔

سدرہ  حنیف انصاری
Latest posts by سدرہ  حنیف انصاری (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).