حکومت کے 100روز۔۔ میاں کبوتراڑائیے


تحریک انصاف نے حکومت میں آنے کیلئے عملی اقدام کے بجائے مفروضوں، وعدوں اور بلند بانگ دعووں کی جو پالیسی اپنائی وہ اب ثمرآورہونے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ پہلے 100روز مکمل ہونے پرپہلے سے بولے گئے جھوٹ چھپانے کیلئے مزید سیکڑوں جھوٹ بولنے پڑ رہے ہیں جس حکومتی رہنما کو سنیں اس کے پاس باتیں کرنے کو بہت کچھ ہے لیکن عملی اقدام ایک بھی نہیں ۔ ہروزیر مشیرعوام کو انہی خوش گمانیوں کے کنویں میں گول گول گھما رہا ہے ۔

وزارت خارجہ نے تو اپنی 100روزہ کارکردگی پر باضابطہ رپورٹ بھی جاری کی ہے جس میں سعودی عرب سے معاشی پیکیج کے حصول، وزیراعظم کے پہلے 100روزمیں 6 غیرملکی دوروں،بھارت کیساتھ کرتار پور راہداری کھولنے اورمختلف ملکوں کیساتھ مفاہمت کی یادداشتوں پردستخط کو وزارت خارجہ کی شاندارکارکردگی کے زمرے میں پیش کیا گیا ہے ۔ صرف یہی نہیں 100 روزہ تقریب سے خطاب میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے تو یہ تک کہہ دیا کہ عمران خان نے کرتارپورراہداری کھول کر بھارتی وزیراعظم کو گُگلی کرائی ہے البتہ یہ نہیں بتایا کہ اس گُگلی پر کلین بولڈ ہوا ہے یا چھکا لگا ہے ؟ اسی طرح وزارت خارجہ نے اپنی رپورٹ میں یہ نہیں بتایا کہ دوسروں سے امداد لینا،قرض مانگنا جو پہلے کبھی پی ٹی آئی کے بقول غیرت کا سودہ کرنے کے مترادف ہوا کرتا تھا نئے پاکستان میں شاندارکارکردگی کیسے بن گیا؟ وزیراعظم کے بیرون ملک دورے جو عوام کے پیسے کا ضیاع اورعیاشی گردانے جاتے تھے اب حکومتی کارکردگی کا ذریعہ کیسے بن گئے؟؟ بھارت کیساتھ بات چیت ، ان کے کسی وفد کی پاکستان آمد ، حتیٰ کہ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی یا اٹل بہاری واجپائی کی آپ کے گھرآمد جو آپ کے بقول غداری کے زمرے میں آتی تھی اب حب الوطنی ،علاقائی تعاون ،دوستانہ مراسم اوراچھی ہمسائیگی کا اصول کیونکرہوگئی جبکہ آپ کی ہردعوت انہی بھارتی رہنماؤں سے ٹھکرائی جارہی ہے جو خود چل کریہاں آتے تھے۔

ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل اور آئی جی اسلام آباد جان محمد کا تبادلہ پولیس اصلاحات کے حکومتی دعووں کی قلعی اور عوام کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے

سیالکو ٹ میں گزشتہ حکومت کے شروع کردہ منصوبے جی سی ویمن یونیورسٹی نیو کیمپس کا ازسرنو اپنے نام سے افتتاح تعلیم دوستی کے حوالے سے کیے گئے وعدوں کی تکمیل کی جانب قدم سمجھا جائے؟

دیا مربھاشاڈیم کیلئے فنڈ کے قیام اوراندرون و بیرون ملک عطیات جمع کرنے کی مہمات لاحاصل مہم جوئی سے بڑھ کرکچھ نہیں کرسکیں۔ اس ایڈونچرمیں جمع کیے گئے آٹھ دس ارب روپے گزشتہ حکومت کی جانب سے دیامربھاشا ڈیم پرخرچ کیے گئے 126ارب روپے کی تختی ہٹا کراپنی لگانے میں ہی معاون ہوسکیں گے اس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔

پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کو خودمختار اورمالی لحاظ سے منافع بخش ادارے بنانے کا وعدہ ایفاء کرنے کی جانب بڑھایا گیا پہلا قدم پہلے ہی مہینے ”یوٹرن” یا آپ کے بقول آپ کے لیڈرانہ وژن کی نذر ہو چکا۔

جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کے فلک شگاف نعرے لگاتے ہوئے پی ٹی آئی کیساتھ اٹھ کھڑے ہونے والوں کا گلہ بیٹھ گیا ہے پسماندہ علاقوں کی ترقی کے نام لیوا پنجاب میں جنہیں کرتا دھرتا بنائے بیٹھے ہیں وہ ابھی تک لاہورکو دیکھنے کے بعد شروع ہونے والے اپنے جنم دن کے جشن سے نہیں نکلے ۔ تعلیم سے ایسا شغف رکھتے ہیں کہ علامہ اقبال ؒ کے مزارپرمہمانوں کی کتاب میں لکھتے ہیں ”یہاں آ کر بہت خوشی ہوئی ”۔

ہرسال بیس نئے سیاحتی مقامات کھولنے کا بھی ایک وعدہ کیا گیا تھا ایک تقریرمیں اگرنئے پاکستان کے بانی بیس ایسے مقامات کے نام ہی گن دیں تودل کو تسلی رہے گی

تحریک انصاف کا وعدہ تھا کہ وہ ملک گیرخواندگی مہم چلائیں گے اس مقصد کیلئے آغاز گورنرہاؤس پشاورسے کیا گیا جہاں گورنرشاہ فرمان خواتین وزیٹرزکو ماؤتھ ٹو ماؤتھ کمیونی کیشن کے ذریعے خواندہ بنانے میں مصروف عمل رہے ۔

کہا جاتا تھا کہ نئے پاکستان میں وزیراعظم ہرہفتے میں ایک بار پارلیمنٹ آئے گا اورارکان پارلیمنٹ کے سوالوں کے جواب خود دیا کرے گا ۔ وزیراعظم ہاؤس کے جس کمپاؤنڈ میں عمران خان رہائش پذیر ہیں پارلیمنٹ اس سے متصل ہے اوردونوں عمارتوں کے درمیان گیٹ اورسڑک بھی ہے لیکن نہ جانے اس راستے میں اب کون سی کہکشاں آن پڑی ہے؟

مدارس کی رجسٹریشن اوران کے نصاب کی ریگولرائزیشن ، بین الاقوامی معاہدوں کی پارلیمنٹ سے توثیق کیلئے قانون سازی ،کراچی سے ٹینکرمافیا کےخاتمے ،عدالتوں میں زیرالتو بیس لاکھ مقدمات نمٹانے کیلئے عدالتی اصلاحات ، خواتین کے حقوق کے تحفظ کیلئے اقدامات بھی دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں

مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اقدامات بھی تحریک انصاف کے قبل ازالیکشن ایجنڈے کا حصہ تھے تاہم بعد ازالیکشن یہ ایجنڈا تبدیلی کی نظرہوگیا تحریک انصاف کی حکومت اورقیادت نے کشمیریوں کو اتنا بھی درخوراعتنا نہیں سمجھا جتنا بھارتی وزیراعظم اوران کی کابینہ کے ارکان کو بادل نخواستہ سمجھا ۔

مہنگائی کی چکی میں پستے عوام کا درد ہی ہے کہ حکومت میں آتے ہی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ شروع ہوا اوردن بہ دن جاری ہے بجلی گیس کے بلوں سے شروع ہوکراشیائے خورنی تک ہرشے کے نرخ آسمان کو چھو رہے ہیں تیل کی قیمتیں جو 46 روپے فی لٹرتک لائی جانی تھیں آج 100روپے فی لٹرسے تجاوزکرچکی ہیں ۔ مہنگائی میں اضافے کی شرح یعنی افراط زرجو پی ٹی آئی کے حکومت میں آنے سے قبل 5.8 فیصد پرتھی اب 6.8 فیصد سے بڑھ گئی ہے سٹاک مارکیٹ جواس حکومت سے قبل 43 ہزارکی سطح کوچھو رہی تھی مسلسل گراوٹ کے باعث 3ہزارپوائنٹس کم ہوچکی ہے ۔ ڈالرجو تحریک انصاف کے حکومت سنبھالنے سے قبل 100روپے کے لگ بھگ تھا اب 137روپے پرہے ۔

1857کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد بہادرشاہ ظفرکو معزول کرکے گرفتارکرلیا گیا مرزااسداللہ غالب بڑے غمگین گھرکی جانب جا رہے تھے ۔ ایک نوجوان دونوں ہاتھوں میں کبوترتھامے پاس سے گزرتے ہوئے بولا کہ حضرت آپ کیوں اداس ہیں؟ آپ کو تووظیفہ بھی ملتا رہے گا اور مراعات بھی ۔ اسد اللہ غالب نےتاسف سے اس نوجوان کو دیکھا اورپھرگویا ہوئے ”میاں کبوتراڑائیے ۔ کبوتراڑائیے”۔

صاحب مضمون : روزنامہ جنگ سے 2003میں کریئرکا آغاز کیا اور2008تک صحافت کے طالب علم کی حیثیت سے اس ادارے سے بہت کچھ سیکھا۔ 2008میں سماء ٹی وی کے آغاز کے ساتھ ادارے کو جوائن کیا جہاں براڈکاسٹنگ کی الف ب سیکھنے کے مواقع ملے ۔ آج بھی صحافت کا طالبعلم ہوں اور مزید سیکھنے کاخواہاں ہوں.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).