دیسی انڈے


سو دن کی کارکردگی۔۔۔ خادمِ اعلیٰ سے لے کر خادم رضوی تک سب اندر اور دیسی انڈے باہر ۔۔۔

ہمارے ہاں یہ ایک عام رویہ ہے کہ جب عورت اپنے مرد کی کوئى خراب عادت یا کوئى اخلاقی رخنہ (اخلاقی رخنہ کی تفصیل موضوع کے اعتبار سے غیر ضروری ہے) دور کرنے میں ناکام رهتی هے تو کہتی هے
“مرد ایسے هی هوتے هیں”-
ماں کا جب بچے کی شرارت یا بدتمیزی پر بس نہیں چلتا تو وہ اپنی ناکام تربیت پر پردہ ڈالنے کے لیے بلاجھجک کہتی هے
“بچے اسی طرح کرتے هیں”-
مرد جب عورت کی بدزبانی ،بداخلاقی یا بری عادات اور سازشی طبع کے آگے هار جاتا هے تو اپنی شرمندگی چھپانے کے لیے جھٹ سے کہتا هے
“عورتیں ایسی هی هوتی هیں”-
اسی طرح اب جبکہ تبدیلی کی دعویدار حکومت سو دن پورے ہو جانے کے بعد کسی قسم کی مثبت تبدیلی کی بجائے عوام کے لیے صرف اور صرف دیسی مرغیوں اور انڈوں سے بھرپور مستقبل کے خواب سامنے لائی ہے تو اس پر بھی وہی بات کر کے جان چھڑائی جا رہی ہے کہ پھر کیا ہوا پچھلی ساری حکومتیں بھی تو ایسی ہی تھیں۔ انہوں نے کون سے عوام کے مسائل حل کر دیے (یہ حکومت کم از کم انڈے دینے کی بات تو کر ہی رہی ہے نا) پچھلی حکومتوں کو تو کئی برس اور کئی کئی باریاں ملی لیکن ان کی کارکردگی کون سی شاندار ہے؟ ایسا کہہ کر اپنے گرتے ہوئے مورال کو سنبھالا دینے کی کوشش کرنے والے حکومتی حمایتیوں کو کوئی یہ سمجھائے کہ وہ جو پرانی کہاوت ہے کہ “پوت کے پاؤں پالنے میں ہی نظر آ جاتے ہیں” تو وہ کچھ غلط بھی نہیں۔
کسی بھی حکومت کی سمت کا تعین کرنے کے لیے سو دن کافی بلکہ کافی سے زیادہ ہوتے ہیں۔ اتنے دنوں میں بخوبی یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ اگلے چار سال گیارہ ماہ اس حکومت نے کن راستوں پر سفر کرنا ہے اور اس کی منزل کیا ہو گی۔ سو دنوں میں یہ بات بہت اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اس تازہ دم سپہ نے بھی بحرِ ظلمات میں ہی “انّے واہ” گھوڑے دوڑاتے رہنا ہے یا سوچ سمجھ کر منصوبہ بندی سے بھی ملکی خوشحالی کے لیے کچھ کرنا ہے!
لیکن خان صاحب ہیں کہ کبھی بھینسیں بیچنے لگتے ہیں اور کبھی مرغیاں بانٹنے لگتے ہیں۔
سچ پوچھیں تو میرے مطابق مسئلہ دراصل حکومت کے بگاڑ کا ہے ہی نہیں۔ اصل بگاڑ ہم عوام میں ہے۔
ہم جب یہ کہتے ہیں کہ فلاں ایسا ہی ہوتا ہے، اور فلاں ویسا ہی ہوتا ہے تو ہم خود کو اس “فلاں” میں موجود خرابی کا حصہ دار ہونے سے بچانے کی کوشش میں غیر ارادی طور پر اس خرابی کو ذہنی طور پر قبول بھی کر رہے ہوتے ہیں۔
اور اگر مان بھی لیا جائے کہ يہ سب فلاں ابنِ فلاں ایسے هی هوتے هیں تو بھی اگلا سوال یہ اٹھتا هے کہ
کیا انہیں “ایسا” ہونا چاہیے؟
کیا ان کا “ایسا” ہونا مناسب ہے؟
اگر نہیں، تو پھر یہ ایسے کیوں ہیں؟
ان کے ایسا ہونے میں آپ کا کتنا ہاتھ ہے ؟
ان سب سوالوں کا جواب یقیناً ایسا نہیں ہو گا کہ آپ اپنے تئیں مطمئین ہو جائیں اور مظلومیت کا رونا رو کر اپنے ضمائر کو آسودہ کر لیں۔
چنانچہ اطمینان اپنی غلطی مان لینے میں اور اس کو سدھارنے کی هر ممکن کوشش کرتے رهنے میں هى هے-
اور جب آپ نے غلطی تسلیم کر لی اور اس كو درست کرنے کا بیڑه اٹھا لیا تو پھر سب سے پہلے آپ خود اپنے آپ کو درست کریں گے-
جب آپ نے خود کو درست کر لیا تو سمجھیں باقی سب کچھ اپنے آپ درست هوتا چلا جائے گا-
وہ دن حقیقت میں تبدیلی کا دن ہو گا جس دن ہمارے اندر اس چیز کا شعور اجاگر ہو جائے گا کہ حق طلب کرنے کے لیے دیانت داری سے فرائض کی انجام دہی ضروری ہے۔
کیونکہ اپنی ذمے عائد فرائض پورے کیے بغیر ہمارے اندر وہ اعتماد ہی پیدا نہیں ہو سکتا جس کی بنیاد پر اپنا حق طلب کرنے کی بات کی جاتی ہے۔
لیکن کیا کِیا جائے کہ ہم ایک ہٹ دھرم قوم ہیں جو تسلیم کی خُو سے نا آشنا ہے اور بات جب اپنی غلطی تسلیم کرنے کی ہو تب تو ہماری یہ ہٹ دھرمی اپنے عروج پر ہوتی ہے۔
یوں ﺩﻳﻜﮭﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺛﺎﺑﺖ ﻗﺪﻣﻰ ﺍﻭﺭ ﮬﭧ ﺩﮬﺮﻣﻰ ﺍﻳﮏ ﮬﻰ جذﺑﮯ ﻛﮯ ﻣﺜﺒﺖ ﺍﻭﺭ ﻣﻨﻔﻰ ﭘﮩﻠﻮ ﮬﻴﮟ –
ﺍﻛﺜﺮ ہم ﻟﻮﮒ ﺍﻳﺴﮯ ﺍﻳﺴﮯ ﺣﺎﻻﺕ ﻣﻴﮟ ﺑﮭﻰ ﺍﭘﻨﻰ ﮬﭧ ﭘﺮ ﻳﻮﮞ ﻗﺎﺋﻢ ﺭﮬﺘﮯ ﮬﻴﮟ ﻛﮧ ﺟﻦ ﺣﺎﻻﺕ ﻣﻴﮟ ﻋﺎﻡ ﺩﻝ ﮔﺮﺩﮮ ﻛﺎ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺳﭻ ﺳﮯ ﺑﮭﻰ ﭘِﮭﺮ ﺟﺎﺋﮯ –
ﺍﻳﺴﮯ ارادے کے پکے ﻟﻮﮒ ﺍﮔﺮ ﺣﻖ ﻛﮯ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﭘﺮ ﮬﻮﮞ ﺗﻮ ﺗﺎﺭﻳﺦ ﺭﻗﻢ ﻛﺮ ﺳﻜﺘﮯ ﮬﻴﮟ –
ﻟﻴﻜﻦ ﺑﺪﻗﺴﻤﺘﻰ کہیے ﻛﮧ ہماری سمت ہی درست نہیں ہے اس لیے ہماری ذہانتوں اور جذبوں کا زیاں ہمارا مقدر ہے۔
اور جب تک ہماری سمت درست نہیں ہوتی تب تک یونہی ہمیں انڈوں اور مرغیوں میں الجھایا جاتا رہے گا۔

نیلم ملک
Latest posts by نیلم ملک (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).