مادرِ علمی ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی کا نوحہ


\"khurramپاکستانی اخبارات میں صفحۂ اول پر وزیرِ اعظم کی صحت، ایان علی کی ضمانت، چین سے قربت، افغانستان سے مخاصمت اور بھارت سے رقابت کے علاوہ گئی شام رمضان کی نشریات جیسی خبریں دیکھنے کے بعد اگر اندر کسی گوشے میں جھانکنے کی فرصت ہو تو ہر دو چار روز بعد مختلف عنوان سے آتی ایک مختصر سی خبر سے مژدہ ملتا ہے کہ تاریخی علم گاہ ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز (سابقہ ڈاؤ میڈیکل کالج) کے وائس چانسلر کی تقرری کافی عرصے سے قیاس آرائیوں کی زد میں اور تعطل کی شکار ہے۔ آخری اطلاعات آنے تک وائس چانسلر سلیکشن کمیٹی کے سفارش کردہ تین ناموں کو قطعاََ نظر انداز کر چکے ہیں حتیٰ کہ سندھ ہائیکورٹ کے احکامات کو بھی خاطر میں نہ لاتے ہوئے ایک صاحب کو ڈاؤ جیسی تاریخی درسگاہ کے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز کیا جارہا ہے جو ابھی پچھلے سال ہی پروفیسر بنائے گئے ہیں۔

اس سے قبل چونکہ 2004ء سے متمکن پروفیسر مسعود حمید کا کوئی متبادل نہیں مل سکا تھا چنانچہ انہیں بار بار توسیع دے کر اپنی نشست پر برقرار رکھا گیا۔ ایسے ہی جیسے این ای ڈی یونیورسٹی پر 90 سالہ عبدالکلام صاحب کو نافذ کرکے گنس بک آف ورلڈ ریکارڈ میں جگہ بنوائی گئی تھی۔ سندھ میں اعلیٰ تعلیم کے کسی بھی ادارے کی طرف دیکھا جائے، دل بس ماتم کرنے کا چاہتا ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ اکثر ان بے بدل شخصیات کو برقرار رکھا گیا جن کی پوشیدہ صلاحیتیں مشرف دور میں دریافت ہوئی تھیں۔ آپ کی مرضی اسے جمہوریت کا حسن یا جمہوریت کا انتقام کچھ بھی نام دے سکتے ہیں۔

ڈاؤ سے فارغ التحصیل ہوکر اس سے منسلک سول اسپتال کراچی میں پانچ سال تک بلا معاوضہ کام کرنے کے باعث میری اس ادارے سے بڑی جذباتی وابستگی ہے۔ اور ایک میں ہی کیا دنیا کے طول وعرض میں پھیلے ڈاؤ گریجویٹس اپنے نام کے آگے ڈاؤ لکھنے میں ایک عجیب سا فخر اور سرشاری محسوس کرتے ہیں۔ کوئی خبر جس سے مادرِ علمی کے تقدس کی پامالی کا تاثر ملتا ہو خون کے آنسو رلا دیتا ہے۔

ڈاؤ میڈیکل کالج سے پہلا تعارف تین دہائی قبل انٹرمیڈیٹ بیالوجی کے رزلٹ کے اگلے دن ہوا جب ہم نے اس شبستانِ علم و دانش میں قدم رکھا۔ ہمارا استقبال دائیں بازو کی جمعیت اور بائیں بازو کی این ایس ایف کے کارکنان نے انتہائی خوش خلقی اور خندہ پیشانی سے کیا۔ 1984ء میں طلباء تنظیموں پر پابندی لگ چکی تھی لیکن اس کے باوجود یہاں یہ تنظیمیں ابھی تک فعال تھیں۔ دوسرے تعلیمی اداروں کے برخلاف ڈاؤ میں جمہوری روایات بہت مستحکم تھیں۔ سالہاسال باقاعدگی سے یونین کے الیکشن بغیر کسی دھاندلی یا غنڈہ گردی کے ہوتے آئے تھے۔ گو دونوں تنظیمیں روایتی حریف تھیں اور سال میں دو ایک بار ہاتھا پائی اور گالم گلوچ کی نوبت آیا کرتی لیکن دیگر جمہوری روایات کی طرح داخلہ مہم میں ایک غیر تحریر شدہ معاہدے کے تحت مثالی اور غیر معاندانہ رویہ اپنایا جاتا نوواردوں کے ناز نخرے اٹھائے جاتے ان کے پتے لے کر شام کو ان سے ملاقات کے لئے جایا جاتا، ہفتے دو ہفتے بعد ان کو ٹی پارٹی میں بلا کر جہاں ان تنظیموں سے منسلک ڈاکٹر بھی موجود ہوتے اپنے منشور، سیاسی نظریات اور کارناموں اور مخالف کی برائیوں پر روشنی اس تصور کے تحت ڈالی جاتی کہ اس مرحلے پر جسے ہم خیال بنا لیا وہ تاعمر اسی فکر سے وابستہ رہے گا۔

\"DOW\"ڈاؤ میڈیکل کالج نے پاکستان کی طلباء تحریک کی ہمیشہ قیادت کی۔ پاکستان کی تمام انقلابی اور آمریت مخالف تحریکوں کا ڈول یہیں ڈالا گیا۔ ہم جو واجبی فیسیں دے کر اور کالج پوائنٹس میں سفر کرکے ڈاکٹر بنے اس کا سارا کریڈٹ کسی سیاسی یا غیر سیاسی شخصیت سے زیادہ طلباء کی اپنی فعالیت کو جاتا ہے۔ بس یہی گستاخی آمروں کی نگاہوں میں کھٹکنے لگی۔ اعلیٰ سطح پر یہ تو طے تھا ہی کہ طلباء کو کچل دیا جائے گا لیکن ساتھ ہی سندھ کی سیاست کو لسانی خطوط پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تقسیم کرنے کی بنیادیں بھی ڈالی جارہی تھیں۔ اس سلسلے میں جہاں وزیر اعلیٰ سندھ غوث علی شاہ کا کردار زیرِ بحث آتا ہے وہیں پروفیسر عالمانی بھی انتہائی اہم تھے جو فوج میں غالباََ بریگیڈیر رہ چکے تھے اور اندرونِ سندھ سے بالخصوص ڈاؤ کے طلباء کو سبق دینے کے لئے بھیجے گئے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی صلاحیتوں سے بعد میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے بھی استفادہ کیا اور انہیں صوبائی ہیلتھ سیکریٹری فائز کیا گیا۔

ڈاؤ سے طلباء کی جمہوری سیاست کیا رخصت ہوئی یونین دور کی تمام اچھی روایات کا جنازہ نکال دیا گیا۔ تشدد اپنے عروج کو پہنچا۔ طالبِ علم کا قتل بھی ہوا۔ بھتہ خور گروہ فعال ہوگئے جو خصوصی طور پر نئے آنے والوں کو نشانہ بناتے۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ طالبات کو جنسی ہراساں کرنے کی خبر سنی جائے گی۔ ایک پروفیسر کی گاڑی داخلے کی خواہاں ان طالبات کے والدین نے نذرِ آتش کی جن سے \’کچھ اور\’ کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔

چند سال قبل ایک عزیزہ کے ساتھ اپنی درسگاہ جانے کا اتفاق ہوا تو ڈاؤ میڈیکل کالج کا نام ڈاؤ یونیورسٹی رکھا جاچکا تھا۔ ایک بلند و بالا عالیشان مدخل پر لگے بیرئر دیکھ کر سخت حیرانی ہوئی۔ خود ہمیں کوئی ایک گھنٹے بعد داخل ہونے کی اجازت ملی۔ جدید سہولیات سے آراستہ ایک ایئر کنڈیشنڈ آڈیٹوریم میں ایک سو کے قریب انتہائی پریشان بچے اپنے فکرمند والدین کے ہمراہ ملے جو گھنٹوں سے منتظر تھے کہ کوئی انہیں جواب دے گا کہ آخر اگلے دن ہونے والے \’انٹری ٹیسٹ\’ کے ایڈمٹ کارڈ انہیں کیوں نہیں ملے ہیں۔ ہماری آنکھوں کے سامنے وہ مناظر لہرا گئے جب طلباء تنظیموں کی بنائی ہوئی میرٹ لسٹوں اور سرکاری میرٹ لسٹ میں سرِ مو تفاوت نہ ہوتا تھا اور ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ آنے والوں کی آؤ بھگت کی جاتی، ان کے سامنے دیدہ و دل فرشِ راہ کئے جاتے۔

آج میڈیکل کالجوں میں کس کس مد کی کتنی سیٹیں ہیں؟ ان پر کن بنیادوں پر داخلے ہوتے ہیں؟ سیلف فنانس پر کون سیٹ خرید کر ڈاکٹر بن سکتا ہے؟ کون لوگ اوورسیز کے کوٹے پر ڈالر دے کر داخل کئے جاتے ہیں؟ یہ پیسہ کہاں جاتا ہے؟ یہ سوالات صرف سوچے جا سکتے ہیں کیونکہ کوئی اتھارٹی ایسی نہیں جو یہ سوال متعلقہ افراد سے پوچھ سکے۔

\"Dow2\"کسی تعلیمی ادارے کو عظیم بنانے کے لئے اینٹ اور گارے کی عمارت کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی یقیناََ معقول بجٹ ضروری ہے لیکن عظمت حاصل کرنے کے لئے لازمی ہے کہ اس کی قیادت اپنے ادارے کے معیار اور سربلندی کی خاطر حکومت اور طاقتور حلقوں کی مداخلت کے بغیر فیصلہ کرنے میں کس قدر آزاد اور خود مختار ہے۔ ادارے کا ڈھانچہ جمہوری اور اقدامات شفاف ہوں۔ اساتذہ قابل، باکردار اور مخلص ہوں ان کے سروں پر ٹرانسفر، تنزلی اور تشدد کی تلوار نہ لٹک رہی ہو۔ طلباء منظم ہوں اور آزادئ اظہار اور آزادئ افکار کا حق رکھتے ہوں۔ کیا میڈیکل کی تعلیم سے میرٹ رخصت نہیں ہو چکا؟ کیا ذاتی، مالی اور گروہی مفادات غالب نہیں آچکے؟ آزادیء فکر سے سرشار طالب علم اپنے استاد کی ڈھال ہوا کرتا تھا۔ دیانت دار اور باصلاحیت استاد حکومتی مداخلت اور فیصلوں کے سامنے تن کر کھڑا ہوتا تھا۔ ادارے کے سرپرست کی ذات کھلی کتاب اور اہلیت شکوک و شبہات سے بالاتر ہوتی، تعلیم کی وقعت تھی اور تعلیمی ادارے کی حرمت بھی۔ یہ زنجیر کب کی توڑی جا چکی ہے اب بس اس کی کڑیوں کو پرزہ پرزہ کرنا باقی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments