کیا غزالی نے مسلم دنیا میں عقل پسندی اور سائنس کا خاتمہ کیا تھا؟


ظفر سید صاحب اور ہم سخن فورم کے تحت ماہانہ ایک پروگرام اکادمی ادبیات میں منعقد ہوتا ہے جس میں پہلے سے منتخب کسی کتاب پر حاضرین اپنی رائے دیتے ہیں۔ کل اس سلسلے کا سترہواں اجلاس تھا اور غزالی کی مشہور کتاب تہافتہ الفلاسفہ زیربحث تھی۔ بھائی عدنان بشیر نے مجھے مدعو کیا تھا۔ پس ہم بھی وہاں موجود ہوئے اور احباب نے چند نکات ہم سے بھی پوچھا کیے۔ ہم ہنس دیے پر چپ نہ رہے۔ غزالی کا پردہ نہ رکھا۔ ہرچند کہ محفل مذکور اور لمحہ حال کے درمیان ایک پرواقعہ شب گزر چکی ہے پر کچھ باتیں جو ذہن میں آتی ہیں اور کچھ جو اس وقت ذہن میں نہ آئی تھیں اب یہاں لکھے دیتا ہوں کہ سند رہیں اور بے وقت ضرورت کام آئیں۔

ظفر سید صاحب کا مجھ سے سوال یہ تھا کہ کیا یہ کہنا درست ہے کہ غزالی کی تہافتہ الفلاسفہ سے مسلمانوں میں تعقل کا سلسلہ منقطع ہوگیا اور غزالی کے بعض نظریات مثلا تصور تعلیل (علت و معلول کا اصول) کے انکار کے نتیجے میں اسلامی تہذیب میں سائنسی انقلاب کا امکان ناپید ہوگیا۔ اس ضمن میں انہوں نے چند مغربی مصنفین سمیت ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کا حوالہ بھی دیا جو اسی رائے کے حامل ہیں۔

اس پر میری رائے کچھ یوں تھی۔

غزالی مسلمانوں کے فلسفیانہ کلام میں شاید سب سے اوریجنل اور اہم شخص ہے۔ اس کی فکر ایک طرف جہاں مسلم تہذیب کی اساسی کیفیات کا اظہارہے وہیں یہ طرزفکر اپنے متاخرین کے لیے معیار کی حیثیت سے آج تک ایک زندہ حقیقت ہے۔ تہافتہ الفلاسفہ کے بارے میں یہ تاثر درست نہیں کہ وہ فلسفے کا جلی و حتمی رد ہے جس سے مسلم فکر جانبر نہ ہوسکی۔

تہافتہ دراصل تین حصوں میں تقسیم ہے۔ ایک حصہ اس کے تین اہم دیباچے ہیں جن میں غزالی نے تعقلی علوم اور مذہب کے رشتے کا جائزہ لیا ہے۔ غزالی نے ان علوم کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ اول ؛ منطق، دوم؛ ہندسہ و جیومٹری اور سوم؛ مابعدالطبیعات۔ یہاں غزالی نے صراحت سے بیان کیا ہے کہ اولین علوم یعنی منطق اور ہندسہ جیومٹری وغیرہ سے مذہبی عقائد اور شریعت کو کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ یہ علوم دنیائے ظاہر سے تعلق رکھتے ہیں اور ٹھوس عقلی بنیادوں پر قائم ہیں۔

ان عقلی بنیادوں کا انکار درست رویہ نہیں ہے کیونکہ ان کا علاقہ مذہبی اعتقاد سے بھی پرے ہے اور مضبوط عقلی دلائل سے لیس ہے۔ چنانچہ چاند و سورج گرہن، سیاروں کی گردش اور زمین کی چپٹی یا کروی ہونے جیسے مسائل پر عقلی رائے کو مان لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ نیز ریاضیاتی صداقتیں جیسا کہ دو جمع دو چار کے اصول کو مان لینے سے بھی مذہب کی روح پر حرف نہیں آتا۔ دراصل یہ علوم ان مسائل سے متعلق ہی نہیں ہیں جو مذہب کا مرکزی موضوع ہیں۔

غزالی کے نزدیک صرف تیسری قسم کا علم یعنی مابعدالطبیعات بعض ایسے مسائل میں عقلی دخل اندازی کی کوشش کرتا ہے جس سے مذہب کو براہ راست نقصان پہنچتا ہے اور اس کے عقائد ہنسی مذاق اور مغالطہ آرائی ثابت ہوتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں کہ مابعد الطبیعات کلی طور پر ہی مذہب مخالف علم ہو۔ اس کے اکثر مسائل بھی مذہب کے علاقے سے دور رہتے ہیں تاہم تین مسائل ایسے ہیں جن میں مابعدالطبیعات اور مذہب ایک دوسرے کے مخالف جانے لگتے ہیں۔ یہ مسائل مندرجہ ذیل ہیں ؛

1۔ کائنات قدیم ہے یعنی ہمیشہ سے موجود ہے اور ایسا نہیں کہ خدا نے کسی مخصوص لمحہ میں اس کو پیدا کیا ہو۔ جب سے خدا کا وجود ہے تب سے کائنات بھی ہے۔

2۔ خدا محض کلیات کا علم رکھتا ہے اور جزئیات کو نہیں جانتا۔ یعنی خدا کا علم محض اسماء پر مبنی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ درخت کیا ہیں لیکن نہیں جانتا کہ میرے صحن میں لگا مخصوص درخت اپنی انفرادیت میں کیسا ہے۔

3۔ معاد جسمانی کا انکار یعنی یہ ماننا کہ روحیں واپس جسم میں نہیں لوٹائی جائیں گی۔

غزالی کے نزدیک صرف ان تین معاملات میں عقلی غوروفکر سے مذہبی عقائد کو زک پہنچتی ہے۔ دراصل ان معاملات میں عقلی ثبوت یا برہان کی مدد سے سچائی تک پہنچا ہی نہیں جا سکتا۔ ہمیں ان معاملات کو اسی طرح ماننا چائیے جیسا کہ مذہبی کتب میں بیان کیا گیا ہے کیونکہ وحی اور نازل شدہ علم ان معاملات میں عقلی علوم سے فوقیت رکھتا ہے۔ پس مسلمانوں کو چائیے کہ صرف ان مسائل میں فلسفیوں کا رد کریں لیکن منطق و ہندسہ کے معاملات میں عقلی رائے اپنائیں۔ اگر منطق یا جیومٹری و طبعی علوم کی کوئی بات مذہبی عقیدے کے خلاف محسوس ہو تو عقیدہ کی ایسی تاویل کی جائے جو اس اختلاف کو حل کرسکے۔ لیکن مابعدالطبیعات کے مذکورہ بالا تین مسائل میں کسی قسم کی تاویل کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ یہ مسائل براہ راست مذہب سے متصادم ہیں۔

کتاب کا پہلا حصہ دیباچہ جات پر مشتمل ہے جن میں ناصرف اس کتاب بلکہ علم الکلام کا ایک میتھڈ تشکیل دیا گیا ہے۔ کتاب کا دوسرا حصہ فلسفے کے ان بیس مسائل کا جائزہ ہے جو غزالی کے نزدیک فلسفہ کا اہم ترین حصہ ہیں۔ اس حصے میں غزالی نے ہر مسئلہ پر مختلف فلسفیوں کی خود متصادم اور متضاد آرا کو اکٹھا کرنے کے بعد یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ فلسفی کبھی درست اور ٹھوس نتیجے تک نہیں پہنچتے۔ ہر ایک کی فکر دوسرے سے مختلف و متضاد ہے۔

کتاب کا طرز تحریر دلچسپ ہے۔ مجھے اس کا انگریزی ترجمہ پڑھنے کا اتفاق ہوا جو پاکستان فلسفہ کانگریس نے ساٹھ کی دہائی میں شائع کیا تھا۔ کاٹ دار طنزیہ جملوں کی بہتات ہے۔ بعض مقامات پر نطشے کی یاد آتی ہے جو سقراط اور افلاطون سمیت عہد حاضر کے نمائندہ فلسفیوں کا اسی طرح مذاق اڑاتا ہے۔

تاہم تہافتہ میں فلسفہ اور حکمائے یونان کے بارے میں بین السطور ایک حسن ظن بھی ملتا ہے۔ غزالی کے خیال میں دراصل افلاطون اور ارسطو بھی وہی باتیں کرتے تھے جو ابراہیم اور موسیٰ کو وحی سے بتائی گئی تھیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے فلسفوں میں تحریف ہوتی گئی اور نئی آرا داخل ہوگئیں۔ غزالی کے نزدیک مسلمانوں میں اس فلسفیانہ فکر کے بڑے نمائندے فارابی اور ابن سینا تھے چنانچہ فلسفہ کا جائزہ لیتے ہوئے انہی دو حضرات کی فکر کا تجزیہ کیا گیا ہے۔

کتاب کا یہ حصہ غزالی نے ایک سوفسطائی کی روح سے لکھا ہے۔ دیباچہ میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ اس کتاب کو لکھتے ہوئے مجھے اپنے کسی موقف کا دفاع نہیں کرنا بلکہ صرف فلسفیوں کی آپسی تکرار دکھاتے ہوئے ان کی لاعلمی دکھانا ہے۔ چنانچہ غزالی ایک فلسفی کا رد کرنے کے لیے دوسرے فلسفی کی رائے لکھتے گئے۔ اس حصہ سے متعلق اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا غزالی نے مشائیت یعنی ارسطو کے فکری نظام کا بحیثیت کل انکار کیا یا نہیں؟ اس سوال کی طرف کچھ دیر میں واپس آتے ہیں۔

کتاب کا آخری اور تیسرا حصہ اس کا اختتامیہ ہے جس میں ایک فتویٰ نما بھی شامل ہے۔ بیس مسائل کے جائزے اور تین مسائل کو مذہب مخالف قرار دینے کے بعد غزالی ان تین مسائل میں مذہب مخالف عقلی رائے رکھنے والے فلسفیوں کی تکفیر کرتے ہیں۔ یعنی فارابی اور ابن سینا کو کافر قرار دیتے ہیں اور ان کے واجب القتل ہونے کا سوال مسلم قاری کی غیرت پر چھوڑتے ہوئے یہ بتاتے ہیں کہ فلسفہ جائز تو ہے لیکن اس کے لیے لازم ہے کہ کائنات کی تخلیق اور حیات اخروی کے بارے وہی رائے رکھے جو خدا نے قرآن نے بیان کی ہے۔

یہ پہلو نہایت اہم ہے کہ غزالی تک ارسطو کی فکر فارابی اور ابن سینا کی معرفت پہنچی تھی۔ خود فارابی اور ابن سینا جن نظریات کو ارسطو کی فکر سمجھتے تھے ان میں بڑی حد نوفلاطونیت اور مصری افکار کی آمیزش ہوچکی تھی۔ نوفلاطونیت کا مزاج ارسطو کی فکر کا درست عکاس نہیں تھا اور اس میں تصوف کی آمیزش بہت زیادہ تھی۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ نوفلاطونیت کے نزدیک بھی کائنات ہمیشہ سے موجود ہے۔ ارسطو کا موقف بھی یہی تھا۔ اگرچہ ابن رشد نے بعد میں یہ بتایا کہ یہ لوگ دراصل ارسطو کی اپنی کتب تک پہنچے ہی نہیں تھے تاہم قدم عالم کے اہم ترین مسئلہ پر ارسطو اور نوفلاطونیت کی رائے اصولی طور پر ایک ہے۔

دوسرے دو مسائل علم خدا اور روح انسانی کی حقیقت قدم عالم کے مسئلہ پر ہی منحصر ہیں۔ جب یہ مان لیا جاتا ہے کہ کائنات کسی مخصوص وقت میں نہیں بنی بلکہ ہمیشہ سے ہے تو باقی دو مسائل پر رائے بھی اسی طرف جھک جاتی ہے۔ ارسطو کا خیال تھا کہ محرک اول کائنات کی علت ہے لیکن علت اپنے معلول سے صرف منطقی طور پر مقدم ہے۔ زمان کا اس میں دخل نہیں ہے۔ ( ارسطو زمان کو وجودی اعتبار سے حقیقی نہیں مانتا تھا) ۔ جب تک علت موجود ہے تب سے معلول بھی ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2