بے غیرت خاموشی پر ایک تبصرہ


ایک ہفتہ تو ہو گیا ہو گا اس تحریر کو شائع ہوئے۔ میں پتہ نہیں کیوں اسے بار بار پڑھے ہی جا  رہا ہوں۔ اس ایک ہفتے میں شاید سینکڑوں بار میں نے اس پر کمنٹ کرنے کی کوشش کی مگر ہر بار کالم میں مذکور’’بے غیرت خاموش ہیں‘‘ کا ٹیپ کا فقرہ مجھے خاموش کرا دیتا ہے اور میں اس احساس کو جینے لگ جاتا ہوں کہ میں خاموش ہوں۔ میں خود سے یہ سوال پوچھنے کی جسارت نہیں کر پا رہا کہ کیا میری خاموشی بے غیرت کی خاموشی ہے۔

بعض تحریریں اور اعادہ شدہ فقرے کتنا گہرا اثر رکھ سکتے ہیں اس کا اندازہ مجھے ایک بار پھر ہو رہا ہے۔ ظفراللہ خان شکریہ! کہ میں ایک گم گشتہ احساس کو پھر جی رہا ہوں۔ یہ میرا لکھا بھی ویسے تو خاموشی ہی ہے مگر کیا کیجئے کہ یہاں عافیت جاں کی ایک ہی صورت باقی ہے اور وہ ہے خاموشی، بے غیرت خاموشی۔

اور آج یہ کمنٹ سرزد ہو ہی گیا، گو میں لکھ نہیں پا رہا، گو میں سوچ نہیں پا رہا۔ اور گو میں غیرت سے عاری ہوں۔ خان صاحب! اضافہ فرمائیے ناں۔۔۔ امجد صابری مر گیا اور بے غیرت خاموش ہیں۔ ساز و صدا مر گئی، اور بے غیرت خاموش ہیں۔ ۔۔۔ ہاں جو شور ہے، جو مذمتیں ہیں، جو کمیشن بنیں گے، جو ایکشن ہوں گے، جو فیصلے ہوں گے، جو بیانات داغے جائیں گے، وہ بھی خاموشی کی گھنائونی قسم ہی ہیں۔ اور خود یہ لکھا بھی کچھ نیا نہیں، اسے بھی بے غیرت خاموشیوں کا حصہ جانیے۔

یہ وہ موسم نہیں کہ قتل و غارت کے واقعات پر قانون کی زبان میں بات کی جائے، سکیورٹی منصوبوں کے پیاز چھیلے جائیں، کہ اس سے اپنی ہی آنکھیں لہو ہوتی ہیں۔ یہ مشورے بھی خالی از مغز ہیں کہ ہمارے شہروں میں موت کے سائے دراز ہوئے تو سایہ نما دھوپ انگیز درختوں کے بیج کس پرامن یونیورسٹی ، کس روح پرور خانقاہ، کس علم آمیز درسگاہ، میں کس کے پیسوں سے لگے۔

اس پر شور شہر میں آواز کی فریکوئنسی اور رفتار اتنی یکساں ہے کہ تکلم خاموشی لگتا ہے، گورستان کی خاموشی شور نما ہے۔ آواز بے آواز ہے۔ اور ہاں امجد صابری قتل ہوگیا مگر بے غیرت خاموش ہیں۔ ظفراللہ خان ہر علاقے کا دینو آج بانسری حرام قرار دیے جانے پر بے غیرت خاموشی کا نوحہ گا رہا ہے، پنگھٹ ویران ہونے کا نوحہ ہر شہر کے دینو پر فرض ہو چکا ہے، ڈھول کے امتناع اور بندوق کی معروفیت پر آج نوحہ خوانی کا منصب دینوئوں کو ملا ہوا ہے۔ اور یہ دینو شاید اسی لیے قاتل کے شکنجے سے آزاد ہیں کہ دیوانے کی بڑ پر کون کان دھرے۔

آپ کی چادر غم کے تار مختلف رنگ و نسل کے ہوں گے مگر یہ درد مشترک ہے، وطن عزیز کے ہر گوشے میں یہ المیہ کھیلا گیا ہے، کھیلا جا رہا ہے اور بے غیرت خاموش ہیں۔ اور غیرت مندوں کی آوازیں اتنی یک رنگ اور کم عدد ہیں کہ ان پر بھی خاموشی کا گماں ہوتا ہے۔ جیسے وہ سپر سونک آوازیں ہوں جو انسانی کانوں کے لیے تخلیق ہی نہ کی گئی ہوں۔ اسی کالم پر کسی عزیز نے یوں پر تبصرہ زنی کی کہ کوئی ان تیس لاکھ کو واپس لے جائے اور ہمارا سب کچھ لوٹا دے۔۔۔۔۔ ہائے یہ تیری سادہ دلی، کہیں مار نہ ڈالے مجھ کو۔

ان تیس لاکھ لوگوں کے بھی المیے ہیں جو ہمارے کسی شیکسپئیر کے ہاتھوں سرزد ہوئے ہیں۔

آپ کا سب گیا صرف یوں لوٹ سکتا ہے کہ غیرت مندوں کے اکتاہٹ آمیز شور کو چپ کرا دو۔ بے غیرتوں کو بھی کچھ بولنے دو۔ نامیاتی انسانوں کو غیرنامیاتی مشینوں میں بدلنے کی خواہش میں جو مشورے خفیہ ایوانوں میں ہوئے ان پر نظر ثانی کرائو تو شاید سب گیا لوٹ آئے۔ ہر احساس مار کر ایک بے جان احساس کو زندہ رکھنے والے ان نابغوں کو چپ کرا دو کہ جو انسان کے امکان کے دشمن ہیں۔ جنہوں نے ہمارے شہر کے سب رنگ مار دیے ہیں۔ ایک سرائیکی دوست کی فراموش شدہ نظم کے کچھ ٹوٹے پھوٹے مصرعے یاد آرہے تھے

اِتھاں چٹا وی چٹا ہے( یہاں سفید بھی سفید ہے)

اتھاں کالا وی چٹا ہے (یہاں سیاہ بھی سفید ہے)

اتھاں ہر رنگ چٹا ہے (یہاں ہر رنگ سفید ہے)

ست رنگی اے دنیا دے سبھے رنگ مر گئے ہن (ست رنگی اس دنیا کے سب رنگ مرگئے ہیں)

بس ہکو رنگ چھا گیا ہے (بس ایک رنگ چھا گیا ہے)

اور یادداشت کا ستم کہ یہ بے غیرتی کی خاموشی کا رنگ ہے۔۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments