ہم مصروف تھے!



کیا سچی بات کردی صاحب، ہم مصروف تھے کا اشتہار لگا کر۔ نئی نئی حکومت ملی ہے اسے سجانے، سنوارنے، سنبھالنے میں، ایک ہم عوام ہیں جو ویلے ہیں، جو کبھی مصروف ہو ہی نہیں سکتے، ہم فارغ کہاں ہیں، ہم جانتے ہی نہیں مصروفیت کیا ہوتی ہے، کس چڑیا کا نام ہے، لوگوں کو کیا پتہ اس دنیا میں کرنے کے ہزار کام ہیں بندہ کام کرنے والا ہونا چاہیے۔ آپ نے اس فارغ قوم کو کام پر لگانے کے لیے بہت اچھی مصروفیت ڈھونڈی ہے دیسی انڈے، مرغیاں دے کر چوزے نکالنے کا کام کم از کم بائیس دن تو مصروف رہیں گے فارغ اور بیکار لوگ، لیکن یہ نہیں بتایا کہ دیسی انڈوں سے مرغی نکالیں یا مرغا، چلو جانے دیں کام تو ملا فارغ لوگوں کو، بائیس دنوں میں روز دڑبے میں جھانک کر پوچھیں گے سب خیریت ہے۔

جب چوزے نکل آئیں گے تو ان کو پالنے میں مصروف ہوجائیں گے کہیں بلی، کتا نہ کھا جائے، کوئی چیل چھپٹا نہ مار لے، لے بھئی اب تو کام اور بڑھ جائے گا رات کی فراغت بھی گئی مرغی چوزوں کی چوکیداری میں، راتوں کو جاگ جاگ کر چوزوں کو پال پوس کر بڑا کریں گے، مرغا مرغی بنتے دیکھیں گے، پھر یہ دوبارہ انڈے دیں گے کچھ انڈے بیچ کر قرضہ اتاریں گے، اب عوام کو بے خبر نہ سمجھیں انھیں پتہ ہے کہ پاکستان کا بال بال قرضے میں جکڑا ہوا ہے، قرضہ کے سود کی قسط ہی ادا کردیں گے، قرضہ تو جوں کا توں ہی رہے گا۔

اس مرغی انڈے کے اہم ترین کام میں عوام خاندانی منصوبہ بندی بھی سیکھ جائیں گے۔ سوچیں مرغی انڈے کی مصروفیت میں اپنے لیے وقت ہی نہیں نکال پائیں گے، نا عشق ہوگا، نا معشوق، نا شادی نا بال بچہ اور اگر شادی شدہ نے مرغی انڈے والی مصروفیت پالی تو اور بھی اچھا ہوگا اس کا دھیان ہی ازدواجی تعلق پر نہیں جائے گا اور نہ ہی آبادی بڑھے گی کیونکہ بے چاری عوام انڈے چوزے کے چکر میں پھنسی ہوگی اس طرح ایک پنتھ دو کاج والا معاملہ ہو گا، چیف صاحب کا کام بھی ہوجائے گا۔ خان صاحب آپ بڑے چالاک ہو ویلی قوم سے بھی کام کروانا جانتے ہو جیو۔

ایک اور نیا کٹا کھول دیا خان صاحب نے تقریر میں، بڑے ظالم لوگ ہیں پاکستان میں بھینس کی بچی کو تو وہ دودھ پینے دیتے ہیں بڑا کرتے ہیں کیونکہ وہ دودھ دیتی ہے جبکہ کٹے کو دودھ بھی پینے نہیں دیتے بلکہ اسے کاٹ کر کھا جاتے ہیں ظالم لوگ آئندہ سے کٹے کو کاٹنا نہیں ہے ان کو پالنے کے لیے حکومت پیسے دے گی، کٹوں کو بڑا کرکے بھینسا بنانا ہے تاکہ اسپین کی طرح ”بل فائٹنگ“ جیسا کوئی کھیل بھینسا فائٹنگ کروائیں گے اس سے سیاحت کو فروغ ملے گا، مہنگے مہنگے ٹکٹ رکھیں گے تاکہ بڑے بڑے امیر لوگ بھی مصروف ہوجائیں بھینسا فائٹنگ دیکھنے میں اور غریب کٹے پالنے میں، بھلے اس کے اپنے بچے پلیں یا نہ پلیں، اسکول جائیں نہ جائیں، تن ڈھانپیں یا نہ ڈھانپیں، گل ہی مک گئی سارے مسئلے ہی حل ہوگئے کٹے پالنے میں، چاہے پوری قوم ریلو کٹا ہی بن جائے۔

شکریہ ہماری خاتون اول کا وہ ہمارے خان صاحب جو خواب غفلت سے جگاتی رہا کریں کہ آپ وزیر اعظم ہیں اپوزیشن نہیں، ورنہ ہم کیا کہہ سکتے ہیں ماننا پڑے گا بشریٰ بی بی کو اب خان صاحب کو کنٹینر سے اتار کر کرسی پر لے آئیں وزیراعظم کی کرسی پر وہ ہمارے ملک کے سربراہ ہونے کے ناتے ہمارے والی وارث ہیں، وہ سب کے وزیراعظم ہیں۔

اکہتر سال میں کوئی بھی ایسا زیرک سیاست دان نہیں آیا جس کو ان باتوں کا خیال آیا، خیال آیا بھی تو ہمارے محبوب وزیراعظم کو کاش قائداعظم کے بعد آپ حکومت میں آتے تو سارے مسئلے ہی حل ہوجانے تھے۔ آبادی میں اضافہ بھی نہیں ہوتا، اور ہمارے پاس اتنے کٹے ہوتے کہ ہم ان کی تجارت کرکے ملکی ترقی میں ہاتھ بٹاتے، قرضہ لینے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی چلو خیر ہے اب بھی وقت ہے اکہتر سال تو ہوگئے لیکن اس اکہتر سال کے بوڑھے میں جوانوں والی روح پھونک دی، دل خوش کردیا آپ نے اس فارغ قوم کا، اب ہم میں سے ہر ایک کہہ سکتا ہے کچھ دن بعد، ہم مصروف تھے! ونڈی ہے دیسی انڈے، مرغیاں دے کر چوزے نکالنے کا کام کم از کم بائیس دن تو مصروف رہیں گے فارغ اور بیکار لوگ، لیکن یہ نہیں بتایا کہ دیسی انڈوں سے مرغی نکالیں یا مرغا، چلو جانے دیں کام تو ملا فارغ لوگوں کو، بائیس دنوں میں روز دڑبے میں جھانک کر پوچھیں گے سب خیریت ہے۔

جب چوزے نکل آئیں گے تو ان کو پالنے میں مصروف ہوجائیں گے کہیں بلی، کتا نہ کھا جائے، کوئی چیل چھپٹا نہ مار لے، لے بھئی اب تو کام اور بڑھ جائے گا رات کی فراغت بھی گئی مرغی چوزوں کی چوکیداری میں، راتوں کو جاگ جاگ کر چوزوں کو پال پوس کر بڑا کریں گے، مرغا مرغی بنتے دیکھیں گے، پھر یہ دوبارہ انڈے دیں گے کچھ انڈے بیچ کر قرضہ اتاریں گے، اب عوام کو بے خبر نہ سمجھیں انھیں پتہ ہے کہ پاکستان کا بال بال قرضے میں جکڑا ہوا ہے، قرضہ کے سود کی قسط ہی ادا کردیں گے، قرضہ تو جوں کا توں ہی رہے گا۔

اس مرغی انڈے کے اہم ترین کام میں عوام خاندانی منصوبہ بندی بھی سیکھ جائیں گے۔ سوچیں مرغی انڈے کی مصروفیت میں اپنے لیے وقت ہی نہیں نکال پائیں گے، نا عشق ہوگا، نا معشوق، نا شادی نا بال بچہ اور اگر شادی شدہ نے مرغی انڈے والی مصروفیت پالی تو اور بھی اچھا ہوگا اس کا دھیان ہی ازدواجی تعلق پر نہیں جائے گا اور نہ ہی آبادی بڑھے گی کیونکہ بے چاری عوام انڈے چوزے کے چکر میں پھنسی ہوگی اس طرح ایک پنتھ دو کاج والا معاملہ یوگا، چیف صاحب کا کام بھی ہوجائے گا۔ خان صاحب آپ بڑے چالاک ہو ویلی قوم سے بھی کام کروانا جانتے ہو جیو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).