دیوانوں، نادانوں اور فرزانوں کے بے لباس ناچ کا افسانہ


فرزانوں کی اس محفل میں کچھ دیوانے تھے، ہوش و حواس سے بیگانے تھے، افسوس کرنے کے بہانے تھے، عبرت انگیز افسانے تھے۔ اسی محفل میں کچھ نادان تھے، جہل کا نشان تھے، علم اور سچائی سے انجان تھے، اپنی بے عقلی پر نہ حیران تھے نہ پریشان تھے۔ اسی محفل میں کچھ سمجھ دار تھے، علما کے دلدار تھے، فن کاروں کے یار تھے، سچ کہیے تو وہاں بس وہی ہوشیار تھے۔

پھر یوں ہوا کہ ہوش مندوں کی اس محفل میں آجانے والے دیوانوں نے اٹھ کر ناچنا شروع کردیا۔ نہ جانے وہ دیوانے کون تھے، نہ جانے کہاں سے آئے تھے، نہ جانے وہ زندگی بھر کیا کاروبار کرتے رہے، نہ جانے انھوں نے رقص کرنا کیوں شروع کیا، نہ جانے انھوں نے پہلے کبھی رقص کیا تھا یا نہیں۔ بس انھوں نے اٹھ کر ناچنا شروع کردیا۔

دیوانے تو دیوانے تھے، وہ کچھ بھی کرسکتے تھے۔ ان کا دماغ ٹھکانے پر نہیں تھا اس لیے ان سے کچھ بعید نہیں تھا۔ وہ داستان طرازوں کی طرح الف لیلہ بھی سنا سکتے تھے اور مہمل گویوں کی طرح لایعنی خطبہ بھی دے سکتے تھے۔ وہ قادر الکلام شاعروں کی طرح اثرانگیز نظم بھی کہہ سکتے تھے اور نوکری پیشہ پروہتوں کی طرح نامانوس بھجن بھی گا سکتے تھے۔ وہ سپاہ گروں کی طرح بادشاہی کا دعویٰ بھی کر سکتے تھے اور مست قلندروں کی طرح ناچ بھی سکتے تھے۔ چنانچہ وہ ناچ رہے تھے اور انھیں کچھ ہوش نہیں تھا۔ وہ ہرگز نہیں جانتے تھے کہ وہ ناچ رہے ہیں ورنہ وہ اونچے سروں کی کسی لے پر ناچنا پسند کرتے۔

دیوانوں کا ناچنا کسی تماشے سے کم نہیں تھا۔ لوگ ان کے گرداگرد اکٹھے ہوگئے۔ لوگ یعنی سب لوگ۔ نہ جانے کہاں کہاں سے آئے ہوئے لوگ۔ ان میں بچے بھی تھے اور بڑے بھی، مرد بھی تھے اور خواتین بھی، خواص بھی تھے اور عوام بھی، مقامی بھی تھے اور مسافر بھی، اہل علم بھی تھے اور اہل فن بھی، استاد بھی تھے اور شاگرد بھی۔

دیوانوں کا ناچنا اگرچہ تماشا تھا لیکن کچھ عجب نہ تھا۔ عجب یہ ہوا کہ نادانوں نے بھی رقص کرنا شروع کردیا۔ یہ رقص ان دیوانوں سے کچھ مختلف تھا لیکن بہت مختلف نہ تھا۔ یہ کچھ عجیب سا تھا لیکن بہت عجیب نہ تھا۔ وہ نادان اگر چاہتے تو دیوانوں سے اچھا ناچ سکتے تھے لیکن انھوں نے اچھا ناچنے کا ارادہ نہیں کیا۔ وہ اگر چاہتے تو فن کاروں کی طرح ناچ سکتے تھے لیکن انھوں نے فن کاروں کی طرح ناچنے کی کوشش نہیں کی۔ بے دلی سے کیا گیا یہ رقص دیوانوں کی نقل میں کیا گیا رقص تھا۔

وہ لوگ، وہ خاص اور عام لوگ، وہ مقامی اور مسافر لوگ، وہ عالم اور فن کار لوگ، وہ استاد اور شاگرد لوگ جو دیوانوں کا محاصرہ کرکے ان کا ناچ دیکھ رہے تھے، نادانوں کی طرف متوجہ ہوئے۔ وہ کچھ دیر بیچ محفل کے اس مخمصے کا شکار رہے کہ کس کا ناچ دیکھنے لائق ہے۔ پھر ان میں سے کچھ خاص اور عام لوگ اسی حلقے میں کھڑے رہے اور کچھ خاص اور عام لوگوں نے نادانوں کا بے ہنگم ناچ دیکھنے کا فیصلہ کیا۔

دیوانوں کا ناچنا اگرچہ تماشا تھا لیکن کچھ عجب نہ تھا۔ نادانوں کا ناچنا اگرچہ عجب تھا لیکن غضب نہ تھا۔ غضب یہ ہوا کہ فرزانوں نے بھی رقص کرنا شروع کردیا۔ یہ رقص دیوانوں اور نادانوں سے کچھ مختلف تھا لیکن بہت مختلف نہ تھا۔ یہ کچھ عجیب سا تھا لیکن بہت عجیب نہ تھا۔ وہ فرزانے اگر چاہتے تو دیوانوں اور نادانوں سے اچھا ناچ سکتے تھے لیکن انھوں نے اچھا ناچنے کا ارادہ نہیں کیا۔ وہ اگر چاہتے تو فن کاروں کی طرح ناچ سکتے تھے لیکن انھوں نے فن کاروں کی طرح ناچنے کی کوشش نہیں کی۔ بے دلی سے کیا گیا یہ رقص دیوانوں اور نادانوں کی نقل میں کیا گیا رقص تھا۔

\"5io11280\"وہ لوگ، وہ خاص اور عام لوگ، وہ مقامی اور مسافر لوگ، وہ عالم اور فن کار لوگ، وہ استاد اور شاگرد لوگ جن میں سے کچھ دیوانوں کا محاصرہ کرکے ان کا ناچ دیکھ رہے تھے، اور کچھ نادانوں کے گرد حلقہ بناکر ان کے رقص سے لطف انداز ہورہے تھے، اب فرزانوں کی طرف متوجہ ہوئے۔ وہ ایک بار پھر اسی مخمصے کا شکار ہوئے کہ کس کا ناچ دیکھنے لائق ہے۔ پھر ان میں سے کچھ خاص اور عام راہگیروں نے دیوانوں کا بے ہنگم ناچ دیکھنے کا ارادہ کیا، کچھ خاص اور عام تماشائیوں نے نادانوں کا بے سروپا رقص دیکھنے کا فیصلہ کیا اور کچھ خاص اور عام تماش بینوں نے فرزانوں کا بغیر حال کا دھمال دیکھنے کو ترجیح دی۔

پھر یوں ہوا کہ ناچتے ناچتے کوئی دیوانہ محفل سے نکل گیا۔ ایک چلا تو دوسرے دیوانے بھی چلے۔ دیوانوں نے بازار کا رخ کیا تو نادانوں نے ان کی تقلید کی۔ نادانوں نے ان کی تقلید کی تو فرزانوں نے ان کا تعاقب کیا۔ ناچتے ناچتے ناچنے والوں کے تین حلقے بازار جا پہنچے۔

بازار میں پہنچ کر تماشائیوں کی تعداد میں قابل لحاظ اضافہ ہوا۔ چوک میں ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ گئے۔ تماشائیوں میں اضافہ ہوتے ہی دیوانوں کے رقص میں شدت آئی۔ دیوانوں کو دیکھ کر نادانوں کے قدم بھی اور تیزی سے تھرکنے لگے۔ نادانوں کو دیکھ کر فرزانوں نے بھی اپنی گردش کو تیز کیا۔

پھر یوں ہوا کہ ناچتے ناچتے کسی دیوانے نے اپنا لباس اتار پھینکا۔ ایک جبہ اور تہمد کی قید سے آزاد ہوا تو دوسرے دیوانوں نے بھی اس کی دیکھا دیکھی کپڑے اتار پھینکے۔ دیوانوں نے برہنہ ہونے کا فیصلہ کیا تو نادانوں نے بھی وہی انداز اختیار کیا۔ نادانوں نے وہی انداز اختیار کیا تو فرزانوں نے بھی ان کی تقلید کی۔ ناچتے ناچتے اس حمام باد گرد میں سب ننگے ہو گئے۔

اس موقع پر مجھ سے ضبط کا دامن چھوٹ گیا اور میں نے بازار کے بیچ بے لباس ہوکر بے ہنگم رقص میں مصروف ایک ہوش مند کو مخاطب کیا۔ ’’اے عبد الخبیر! دیوانے تو دیوانے ہیں، مخبوط الحواس ہیں۔ انھیں کوئی ہوش نہیں۔ نادان تو نادان ہیں، بے عقل ہیں۔ انھیں کچھ سمجھ نہیں۔ لیکن تم تو ہوش مند ہو۔ تم تو سمجھ دار ہو۔ تم تو عاقل اور عالم ہو۔ پھر یہ کیا حرکت ہے؟ یہ کیا ناسمجھی ہے؟ یہ کیا تماشا ہے؟‘‘

بے تکان ناچنے والا وہ ہوش مند چند لمحوں کو ٹھیرا۔ پھر اس نے گلوگیر لہجے میں کہا، ’’اے برادر عزیز، تم نے سب سچ کہا۔ ہم علم بانٹنے والے لوگ تھے۔ ہم کتابوں پر گفتگو کرتے تھے۔ ہم فن اور فن کاروں سے محبت کرتے تھے۔ ہم اصلاح معاشرہ کے داعی تھے۔ لیکن جب خاص اور عام لوگ، مقامی اور مسافر لوگ، عالم اور فن کار لوگ، استاد اور شاگرد لوگ، سب دیوانوں اور نادانوں کی طرف متوجہ ہوگئے تو ہم جان گئے کہ وقت بدل گیا ہے۔ اب ہم علم بانٹیں گے تو کوئی تبرک لینے نہیں آئے گا، ہم کتابوں پر گفتگو کریں گے تو کوئی سننے نہیں آئے گا، ہم اصلاح معاشرہ کا بیڑا اٹھائیں گے تو کوئی تعاون نہیں کرے گا۔ چنانچہ ہم نے ناچنے کا فیصلہ کیا۔

میرے ہم دم، میرے دوست، مجھے بھی بیچ بازار بے لباس ہوکر ناچنا اچھا نہیں لگتا۔ لیکن فی زمانہ ریٹنگ لانے کا یہی ایک طریقہ ہے۔‘‘

مبشر علی زیدی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مبشر علی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریر میں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

mubashar-zaidi has 194 posts and counting.See all posts by mubashar-zaidi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments