الطاف فاطمہ سے گفتگو


سوال: قرۃ العین حیدر سے پہلے عصمت چغتائی کا ذکر بھی ہونا چاہیے۔ جس وقت کا آپ ذکر کررہی ہیں تو پڑھنے والوں میں عصمت کا بہت Crazeتھا؟

الطاف فاطمہ: عصمت چغتائی کا نام تو ہم تب سے سُن رہے تھے جب ہم لکھنے کے قابل ہی نہیں تھے۔ ان کی چیزیں اور پھر ”ٹیڑھی لکیر“ پڑھی ہم نے جب ایم اے کررہے تھے۔ میں اس قدر افسانے اور ناول لائبریری سے لے کر آتی تھی۔ ایک دفعہ جب میں نے اپنے تھیسس کے لیے کوئی کتاب مانگی تو ہمارے لائبریرین جو تھے وہ کہنے لگے کہ اچھا، میں تو سمجھ رہا تھا کہ آپ فکشن کے اُوپر تھیسس لکھ رہی ہیں۔ تو میں وہ پڑھتی تھی۔ جب ہم نے پڑھا اور بڑا عمدہ وہ لکھتی ہیں۔ اور ان کی وہ جو ہے دیکھیے انہوں نے ایک آپ بیتی سی لکھی ہے۔۔۔ ہاں ”کاغذی پیرہن“ کتنا اچھی طرح سے لکھا ہے۔ حالاں کہ وہ چھپابہت بُرا ہے۔ آگے پیچھے ہوگئے ہیں صفحے۔ مگر میں انہیں کئی دفعہ پڑھتی ہوں۔ اتنی عمدہ ہے وہ۔ ہر شخص کا ایک Genuine انداز ہوتا ہے۔ جیسے باتیں کرنے میں ایک انداز ہر شخص کا الگ ہوتا ہے۔ تو یہ بات ہے۔

سوال: تو آپ نے افسانے لکھنے شروع کیے لیکن ناول آپ نے کچھ عرصے کے بعد لکھا؟

الطاف فاطمہ: ناول کی تو بھئی اُفتاد یہ تھی کہ ناول واقعی۔۔۔ ذہن میں بھی نہیں تھا۔ میں بی ایڈ کررہی تھی تو میری آنکھیں دُکھنے لگیں۔ بہت دُکھیں اتفاق سے۔ مجھے یہ ہے کہ میں کسی کی دُکھتی ہوئی آنکھ دیکھ لوں تو میری آنکھ دُکھنے لگتی ہے۔ تو ہم بس میں آرہے تھے کسی کی دُکھتی ہوئی آنکھ دیکھ لی۔ پھر اماں نے کہا، بھئی پڑھا نہ کرو، اب کتابیں رکھ دیں۔ تو کسی کسی وقت ایسے ہی بیٹھ کر دیکھ لیا کرتے۔۔۔ مطلب یہ ہے کہ کتابوں سے فرصت ملی تو لکھنا شروع کیا ”نشان محفل“ یہ میں نے کتنی ہی لکھ لی تھی۔ کوئی آٹھ کے قریب سمجھ کر باب تیار ہوگئے تھے تو ایک دن ہماری اماں نے پڑھا تو اب انہوں نے کہا، میں نے تمہیں یہ تو تھوڑی کہا تھا کہ تم پڑھو نہیں مگر لکھو۔ اچھا، اب وہ آنکھ واقعی خراب ہوگئی تھی۔ پھر انہوں نے کہا اچھا، تم اسے ختم کرلو، یہ تو بڑی اچھی ناول ہے۔ تو وہ اس طرح سے لکھی گئی تھی۔ اس کے بعد میری یہ آنکھ جو تھی، اب میں سمجھتی ہوں جالا ہی ہوگا، اس سے دُھندلا نظر آتا تھا۔ جیسے کیڑے ہوں کسی کے۔ ڈاکٹر بشیر یہاں تھے، اللہ بخشے۔ ان کو دکھایا تھا۔ پھر انہوں نے علاج کیا تھا۔ ان کو دکھای تو میں نے کہا، میرا توامتحان ہونے والا ہے۔ کہنے لگے، دے دیجیو یہ امتحان، یہ ڈراپس ڈالتی بھی رہ۔ تو اس طرح ہوا۔ اس میں لکھی گئی۔ اور پھر لکھی تو لکھتی چلی گئی۔ اس کے بعد پھر یہ لکھی میں نے۔۔۔ یہ بے شک میں نے، بس وہ جو بنگلہ دیش کا بننا تھا اس سے پریشان ہوکر لکھی۔۔۔

سوال: یہ آپ کا جو تیسرا ناول ہے، ”چلتا مسافر“۔۔۔ ؟

الطاف فاطمہ: اتنی میں پریشان تھی کہ حد نہیں۔ واقعی مجھے اتنا رنج ہوتا تھا کیوں کہ ہمارے بنگال سے اور بنگال کے رہنے والوں سے بڑے ربط ضبط بھی تھے۔ بس جب میں نے یہ لکھنا شروع کی تو مجھے بڑی تسکین سی ہوئی۔ اور دیکھنا، میں بنگال کبھی گئی نہیں تھی۔ جو لوگ رہے بھی ہیں، وہ کہتے ہیں کہ واقعی، بغیر دیکھے اتنا کیسے لکھ دیا۔ میں کبھی نہیں گئی تھی۔

سوال: اس ناول سے پہلے، میں آپ کے شروع کے افسانوں کو اور یاد کرنا چاہتا ہوں۔ ان میں سے بعض ایسے ہیں جن میں نوکروں، جھاڑو دینے والی عورتوں کا خاص طور پر مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔۔۔ ؟

الطاف فاطمہ: ہاں، ہاں۔۔۔ یہ عجیب بات ہے۔ یہ عجیب بات ہے اور شاید یہ میرا خیال ہے کہ ہمارا جو گھر تھا، ہمیں لوگ یہ کہا کرتے تھے کہ گھر میں جو بھی داخل ہوجاتا ہے، ملازم کی حیثیت سے یا کسی بھی حیثیت سے، وہ ایک کیریکٹر کے طور پر Developہوجاتا ہے۔ شاید ہماری والدہ افراد میں دل چسپی لیتی تھیں، ان کے کرداروں میں، شخصیات میں، میرا مطلب ہے کہ ان کے متعلق بات کرتے تھے یا کیا ہوتا تھا، وہ بھی اہم بات ہے۔ اور مجھے ہمیشہ سے یہ خیال ہے کہ ان کے بھی۔۔۔ بلکہ ان کے تو زیادہ ہوتے ہیں، ان کے دُکھ، ان کے سُکھ، ان کے جذبات، ان کی Feelings۔۔۔ اب تو میں پھر ادھر لوٹ گئی۔ اب پھر ان کے بارے میں لکھ رہی ہوں۔ یہ تو لکھے جانے کے قابل ہیں۔ میری تو سمجھ میں نہیں آتا کہ جیسے۔۔۔ سچی بات یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے ذاتی یا جنسی تجربے پر ہی لکھے۔ اور اگر جیسے مجھے اکثر لوگوں نے کہا کہ بھئی ان کے پاس کیا تجربے ہیں جو یہ کچھ لکھیں گی۔ تو بھئی بات یہ ہے کہ یہ پرسنل سی چیز ہوتی ہے، بہت معمولی کہ کھانا کھالیا، پانی پی لیا۔ ایسے ان چیزوں کے متعلق لکھنا یا نہ لکھنا، میرا خیال ہے کہ اتنی بڑی خدمت نہیں ہے کہ اس وقت کیا محسوس ہوا کسی کے پاس بیٹھ کر کسی سے بہت قریب ہو کر۔۔۔ یہ سب باتیں تو ہماری اس طرح ہیں جیسے ہم نے کھانا کھایا یا پانی پی لیا۔ اصل چیز تو یہ ہوتی ہے کہ آپ کسی انسان کے ذہن تک رسائی حاصل کریں۔ اب اچھی کرتے ہیں یا بُری، یہ تو بھئی پڑھنے والوں پر، دیکھنے والوں پر منحصر ہے۔

سوال: اب یہ جنس کا تجربہ جو ہے تو افسانے میں اس کے اظہار کی مختلف صورتیں بھی تو موجود ہیں۔ آپ کے حالیہ افسانوں میں اس اعتبار سے ”مشتِ غبار“ خاصا مختلف ہے۔ اس کو افسانے میں اس کردار کا درد بلکہ Pathos جنس کے تجربے کو ایک اور ہی Dimension عطا کردیتا ہے؟

الطاف فاطمہ: ہاں۔۔۔ اب میں کیا بتاؤں، مجھے تو ایسا لگتا ہے حقیقت میں جیسے میں یہ بتا رہی ہوں۔ اور یہ جو ہے ”نشان محفل“ تو میں کبھی سرحد نہیں گئی تھی۔ اس وقت میری عمر ہی ایسی نہیں تھی اور میں نہیں گئی۔ نواب۔۔۔ کیا نام تھا، اس وقت بھول گئی ہوں۔۔۔ اسمبلی کے ممبر وغیرہ بھی تھے۔ میری بہن کی بہت دوستی تھی ان کی بیوی سے۔ گوہر ان کا نام تھا، گلبرگ میں وہ رہتی تھیں۔ تو انہوں نے میری بہن سے کہا کہ ان سے ملادیں۔ جب میں گئی تو انہوں نے پوچھا کہ آپ سرحد کب گئی تھیں، کیا ہوا تھا۔ میں نے کہا، میں تو ابھی گئی ہی نہیں، کبھی دیکھا ہی نہیں۔ کہنے لگیں، یہ کیسے ہوسکتا ہے، آپ تو یہ لگتا ہے جیسے وہاں گھروں میں گئی ہیں، پھری ہیں، ہر چیز دیکھی ہے۔ میں نے کہا، بس تو پھر اوپر ہی سے اُترا تھا میرے اوپر۔ بس یہ بات ہوتی ہے۔ میں خود لکھ کر حیران ہوتی ہوں۔ اب یہ جو سارے کا سارا میں نے لکھا ہے، یہ ”چلتا مسافر“ میں اس کو پڑھ کر اب تک حیران ہوتی ہوں کہ یہ سب Conceive میرے دماغ نے کیوں کیا، میں کہاں سے پہنچی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6