فطرت کے اٹل اُصول


اس مملکت خداداد نے ہمیشہ یونہی تو نہیں رہنا ہے۔ آمریتوں، کرپشن، اقرباء پروری، جبر و استحصال اور بربریت کے منحوس سایوں میں اس وطن کے خاک نشینوں نے بہت ظلم سہہ لئے، فطرت کا قانون ہے اور اٹل قانون کہ تمام منفی عوامل ایک مہلت کے اندر پنپتے اور فنا ہوتے ہیں لیکن تکبّر اور جبر کا ہمیشہ یہی مزاج ہوتا ہے کہ وہ فطرت کے قوانین پر اپنی طاقت کو ترجیح دیتے ہیں لیکن مظلومیت کو فطرت ایک غیر محسوس طریقے سے سہارا دیتی اور قوّت فراہم کرنے میں مگن ہوتی ہے اور پھر جب ہم تاریخ کی طرف مڑ کر دیکھتے ہیں تو ہر عمر ہر تہذیب اور ہر زمانہ بے شمار مثالوں سے بھرا دکھائی دیتا ہے۔ حوالہ خواہ افراد کا ہو یا مجموعی معاشرے کا فطرت کے یہی اٹل قوانین ہی ہیں جو فیصلہ کرتے ہیں اور آخری فیصلہ۔

چلیں ہم چشمِ تصور سے تھوڑا سا جھانک لیتے ہیں۔ یہ فرعون کا دربار ہے۔ رُعب، طاقت اور سرکشی جس کے درودیوار سے ٹپک رہی ہے۔ اس دربار کے اُوپر سے گزرتے ہوئے پرندوں کو بھی دہشت سے پسینہ آنے لگے، لیکن ایک موسٰی٘ اکیلے کھڑے ہوتے ہیں اور فطرت اپنے اٹل قوانین لاگو کر دیتی ہے، بن دیکھے کہ بادشاہت اورطاقت کس کے پاس ہے اور کون ہے جو بے سہارا کھڑا ہے۔ تکّبر اور طاقت کی انتہا کو چھوتی ہوئی فرعونیت اب ہزاروں سال سے انسانیت کی قبا پر ایک بد نما داغ کی مانند ہے لیکن موسٰی٘ روشنی کا ایک دمکتا ہوا استعارہ، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ طاقت اور تکبّر وقتی تسکین یا با الفاظ دیگر سرکشی نفس کی غذا تو بن سکتے ہیں لیکن تاریخ کا روشن ورق ہرگز نہیں۔ یہاں جگمگانے کے لئے کچھ اور چیزیں درکار ہوتی ہیں۔

خلوص، محبت، انسان، دوستی اور خیر کی تلاش ایک اعر زرین اور خیرہ کُن زمانے پر نگاہ کرتے ہیں۔ مکّہ کے طاقتور سردار بنو ہاشم کے اس جوان پر زمین اور زندگی تنگ کردیتے ہیں جن کی صداقت اور امانت کی وہ قسم اُٹھانے کو بھی تیار ہیں لیکن سلگتے ہوئے روز و شب میں بھی خلوص اور خیر ہاتھ سے نہیں چھوٹتا اور پھر فطرت اپنے اٹل قوانین لاگو کردیتی ہے پھر کون سی طاقت اور کہاں کے سردار، سردار تو ایک ہی رہ جاتا ہے وہ بھی دونوں جہاں کا۔

ایتھینز (یونان ) کا ایک غریب ترکھان قانون کے قیام اور بالادستی کی بات پہلی بار کرتا ہے تو درو دیوار ہل جاتے ہیں کیا کیا اس ترکھان کے بچے نے؟ بادشاہ کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ نہیں ریاست کے قوانین پر عمل ہونا چاہیے؟

اس ترکھان (سقراط ) کے ہاتھ میں زہر سے بھرا پیالہ تمھا دیا جاتا ہے تو دلیر شاگردوں کی ایک کثیر تعداد مزاحمت پر اُتر آتی ہے تو وہ انہیں روک لیتا ہے۔ اس تاریخی جملے کے ساتھ کہ قانون کا فیصلہ غلط ہی سہی لیکن قانون میں نہیں مانوں گا تو پھر کون مانے گا۔ وہ زہر کا پیالہ پی جاتا ہے لیکن انسانوں کے لئے آئین اور قانون کی عمارت کی پہلی اینٹ بھی رکھ دیتا ہے اور ہاں اسے زہر پلانے والے تو زمانے کے خس و خاشاک ہوگئے لیکن وہ ترکھان کا بچہ آج بھیانسانی تہذیب کا ایک روشن مینار ہے دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اس معاملے میں فطرت کے نزدیک حوالہ صرف انسان ہی ہوتا ہے۔

مذہب قوم نسل اور قبیلے سے بالاتر۔ کسے معلوم تھا کہ امریکہ کے ایک غریب موچی کا بیٹا ایک دوسرے کے خلاف مدتوں سے برسرپیکار ریاستوں سے بندوق رکھوا دے گا اور انتشار کو نظم و ضبط میں بدل دے گا مگر یہ موچی کا بیٹا ابراہام لنکن ہی تھا۔ جس نے یہ نا ممکن کام ممکن کر دکھایا۔ جو بھی امریکہ کی خون آشام تاریخ پڑھتا ہے تو وہ نہ صرف اس غریب موچی کے بیٹے پر حیران ہوتا ہے بلکہ اسے خلوص اور اعتبار کی ایک علامت سمجھنے لگتا ہے۔

خیر اور شر انسانی فطرت کا خاصا ہے لیکن دیکھا جاتا ہے کہ فرد یا قوم خیر کو پھیلاتے اور شر پر قابو پاتے ہیں یا شر کے سامنے اپنے نفس کو سرنگوں کردیتے ہیں۔ بات ہورہی تھی۔ طاقت اور تکبر کے نشے میں بد مست گروہوں اور افراد کی، ابھی ہم انسانی معاشروں اور تہذیبوں پر اپنے انتہائی دور رس اور دیرپا اثرات چھوڑنے والی حد درجہ قابل احترام ہستیوں اور رہنماؤں کے بارے میں بات کر رہے تھے تو کیا کوئی باطل اور سرکش طاقت ان کے سامنے کھڑی نہیں ہوئی تھی؟

کیا کسی متکبر نے انہیں نیست و نابود کرنے کی ٹھانی؟

بے شک ایسا ہوتا رہا لیکن فطرت ہمیشہ سچائی خلوص اور قربانی ہی کا ساتھ دیتی ہے۔ فطرت کو طاقت یا سازش سے مرعوب تو نہیں کیا جاسکتا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ خلوص اور سچائی انسان کا وہ طاقتور مینار ہے جس سے وہ زمانوں کو فتح کرنے کی استعداد رکھتا ہے لیکن دیکھا گیا ہے اور بار ہا دیکھا گیا ہے کہ شر کی طرف جھکاؤ بہت رہا حالانکہ مذہب سے تاریخ تک تمام شواہد خیر کے حق میں جاتے ہیں۔ سچائی خلوص اور انسان دوستی کے حق میں لیکن اگر طاقت اور تکبر کا نشہ بہت ہو تو ہونے دو ایسوں نے تو انبیا کرام تک کو تھکا دیا تھا۔ ہم تو ان کے خاک پا کے برابر نہیں اور ہاں فطرت کسی کی خاطر اپنے اٹل اصول کبھی تبدیل نہیں کرتی ہرگز نہیں۔

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).