خصوصی افراد کا عالمی دن اور پاکستان


یوں تو دنیا کی آبادی کا 10 فیصد جبکہ پاکستان کی کل آبادی کا 7 فیصد حصہ ذہنی یا جسمانی معذوری سے گزر رہا ہے۔ تاہم یہ آبادی اس وقت 50 فیصد سے تجاوز کرجاتی ہے جب اس میں کسی معذور فرد کے ساتھ اس کے گھرانے کو بھی شامل کرلیا جائے کیونکہ ایک فرد معذور ہوتو پورا گھرانہ معذور ہوجاتا ہے، اور اس کے شب و روز میں ان تمام کو شامل ہونا پڑتا ہے۔ سال 2012 کے سروے کے مطابق پاکستان میں 18 سال سے کم عمر 60 لاکھ بچے کسی نہ کسی طرح کی معذوری کا شکار ہیں۔ ادارہ شماریات کے مطابق 2012 میں پاکستان کی کل آبادی 181 ملین تھی جس میں سے معذور افراد کی تعداد ایک کروڑ ساٹھ لاکھ یعنی کل آبادی کا 7 فیصد تھی۔ جن میں ذہنی معذور افراد کی تعداد 30 فیصد، نابینا پن کا شکار 20 فیصد، قوت سماعت و گویائی سے محروم 10 فیصد جبکہ جسمانی معذوری کا شکار افراد 40 فیصد تھے۔ صوبائی سطح پر آبادی کے تناسب سے سب سے زیادہ معذور افراد سندھ میں 3.05 فیصد ہیں۔ جبکہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں یہ تعداد 4.3 لاکھ کے قریب شمار کی گئی

افسوس اس بات کا ہے کہ ان حقائق کے باوجود ہمارے یہاں گزشتہ اڑھتیس برس سے اس طبقے کی تعداد کو ہمیشہ دو فیصد ہی شمار کیا گیا گویا پاکستان کی آبادی بڑھنا رک گئی ہو۔ ایک کروڑ 60 لاکھ معذور افراد میں سے صرف 4 فیصد کو تعلیم و صحت کی سہولیات حاصل ہیں جبکہ باقی 96 فیصد ان سہولیات سے محروم ہیں۔ حکومت پاکستان نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی ہر ڈکلیریشن اور ہر معاہدے میں پوری دنیا کو یقین دلایا کہ ہم اپنے بچوں کے تمام حقوق ( قطع نظر اس کے کہ وہ معذور ہیں یا نہیں) کا تحفظ کریں گے۔ جبکہ حکومت پاکستان کی تیارکردہ خصوصی تعلیمی پالیسی کے مطابق تمام اسکول 2025ء تک انکلوسو ایجوکیشن کا آغاز کریں گے۔ مگر وطن عزیز میں اس حوالے سے اب تک نہایت ہی کم پیش رفت ہوسکی ہے۔ انسانی حقوق کی پاسداری کا شور بہت زیادہ ہے مگر کسی نے اس جانب توجہ نہیں دی کہ خصوصی بچوں کی تعلیم کے بغیر اس ہدف کو حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ معیاری تعلیم ہر عام بچے کی طرح معذور بچے کا بھی بنیادی حق ہے لیکن شاید ہی کسی اسکول، کالج یا یونیورسٹی نے اس کا اہتمام کرنے کے لیئے اپنے وسائل کا کچھ حصہ ان کو تعلیم اور ہنر دینے میں صرف کیا ہو۔

ایسے بچوں کی تعلیم و تربیت کے ادارے پاکستان میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ شاید یہ افراد حکومتی ترجیحات کا حصہ ہی نہیں ہوتے۔ پورے پاکستان میں مجموعی طور پر سرکاری و نجی 744 اسپیشل ایجوکیشن کے ادارے کام کررہے ہیں۔ جن میں پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں ایسے اداروں کی تعداد صرف 189 اور پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں محض 46 اسپیشل ایجوکیشن سینٹر ہیں، جبکہ پورے سندھ میں 154 اور شہر قائد کراچی میں صرف 122 ادارے ایسے ہیں جو سرکاری یا نجی امداد کے ذریعے فعال۔ ہیں۔ یہ ہے ہمارا مجموعی مزاج اور یہ ہے ہمارا اپنے خصوصی افراد کے ساتھ رویہ۔

خصوصی افراد کے مسائل کی فہرست یہیں تمام نہیں ہوتی انہیں دن چڑھنے سے رات کی کالی چادر اوڑھنے تک زندگی کے ہر قدم پر مسائل کا سامنا رہتا ہے ۔ سوچیئے جب کوئی نابینا شخص بے ہنگم ٹریفک کے بیچ سڑک نہیں پار کر پاتا تب اس پر کیا گزرتی ہے۔ ہمیں اس تکلیف کو بھی جاننا ہوگا کہ جب کو جسمانی معذور شخص پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے سے اس لئے قاصر ہوتا ہے کیونکہ بس والے اس کی وہیل چئیر ساتھ اٹھانے کی گنجائش نہیں دیتے اور جب وہی شخص کسی بھی سرکاری عمارت یا شاپنگ سینٹر میں جاتا ہے تو کوئی ریمپ نظر نہیں آتا، اوپر کو جاتی تنگ سیڑھیاں منہ چڑھاتے ہوئے انکا راستہ روک لیتی ہیں اور وہ شخص اپنے مطلوبہ مقام تک نہیں پہنچ پاتا۔ کوئی بھی عام شخص ان سب تکالیف کا اندازہ نہیں کرسکتا کیوں وہ ان سے کبھی نہیں گزرا مگر بے روزگاری ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا تجربہ تقریباً ہر پاکستانی نے کبھی نہ کبھی ضرور کیا ہوتا ہے۔ معذور افراد کو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور جدید اہنار سے آراستہ ہونے کے بعد بھی نوکری نہیں ملتی، تمام تعلیمی قابلیت کے تقاضے پورے کرنے اور تحریری ٹیسٹ میں کامیاب ہونے کے بعد بھی انٹرویو کی میز سے خالی لوٹا دیا جاتا ہے۔

خصوصی افراد کی تعلیم کی طرح ملازمت کے لیے بھی کوئی باقاعدہ قانون یا نظام موجود نہیں۔ 1987ء میں جنرل ضیاءالحق نے خصوصی افراد کیلئے ایک علیحدہ وزارت اور اداروں کے قیام کے ساتھ ملازمتوں میں 2 فیصد کوٹا کا صدارتی آرڈیننس جاری کیا۔ لیکن سوال یہ نہیں کہ کیا 1987ء سے اب تک خصوصی افراد کی تعداد 2 فیصد ہے؟ سوال یہ ہے کہ کیا اس 2 فیصد پر بھی عمل ہوتا ہے؟ اس کے برعکس مغربی ممالک میں ان کو ضروریات زندگی کے لیے کوئی نوکری نہیں کرنی پڑتی، آسٹریلیاء، کینیڈا، اسکاٹ لینڈ اور انگلینڈ جیسے کئی ممالک میں خصوصی افراد کیلیئے حکومت کی طرف ماہانہ 1500 ڈالرز رقم باعزت طور پر باقاعدگی سے فراہم کی جاتی ہے، انہیں سفری سہولیات اور تعلیمی اداروں میں داخلے میں خاص رعایت اور آسانی دی جاتی ہے، تمام پارکس، سرکاری عمارتوں اور شاپنگ سینٹرز میں انکی ضرورت کے مطابق علیحدہ گزرگاہ، واش روم اور پارکنگ کی جگہ بنائی گئی ہیں۔ اور اس سب کے برعکس وطن عزیز میں خصوصی افراد کا معیار زندگی انتہائی پستی کا شکار ہے۔

اس سب کیلیئے ریاست پاکستان اور عوامی نمائندوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ آگے بڑھ کر اپنی قوم کے اس کمزور طبقے کی طاقت بنیں کیونکہ کسی بھی عام پاکستانی کی طرح یہ بھی ووٹ دے کر انہیں منتخب کرتے ہیں۔ ااور کچھ نہ سہی ان کا “انگوٹھا” اتنا ہی مؤثر ہے جتنا کہ کسی عام انسان کا۔۔ حکمرانوں کو چاہیئے کہ ووٹ کے ساتھ ساتھ ووٹر کو بھی عزت دیں۔ !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).