پاکستان ترقی کر سکتا ہے


1990ء کی دہائی ہمارے ملک پر بہت سخت وقت تھا۔ ہم پہ کیا کیا نہ زمانہ آیا…. چار منتخب جمہوری حکومتیں اپنی مدت مکمل نہ کر سکیں۔ تین حکومتوں پر 58 ٹو (بی) کا کلہاڑا چلا۔ ایک حکومت کو جہاز میں بیٹھ کر ہائی جیک کیا گیا۔ فرقہ وارانہ قتل و غارت بے روک ٹوک جاری تھی۔ جہاد کے نام پر تنظیمیں راتوں رات قائم ہوتی تھیں اور سب جانتے تھے کہ کوتوال کس کا دوست ہے۔ آدھا وقت افغانستان میں خانہ جنگی ہوتی رہی اور اگلے پانچ برس طالبان اپنا سکہ چلاتے رہے۔ کوئی جمہوری حکومت ڈھنگ سے ترقیاتی منصوبہ بنا سکتی تھی اور نہ مکمل کر سکتی تھی۔ موٹر وے کا منصوبہ نواز شریف کی پہلی حکومت میں بنا اور بے نظیر کی حکومت میں ترجیحات سے باہر چلا گیا اور پھر 1997 میں مکمل ہوسکا۔ بے نظیر نے توانائی کے منصوبے شروع کرنا چاہے تو بجلی کی قیمت پر ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا گیا۔ آج بیس برس بعد کسی پیشہ ور ماہر کے ساتھ بیٹھ کر معلوم کیجئے گا کہ 1994 میں ایک کمزور سیاسی وزیراعظم کی توانائی کے لئے حکمت عملی زیادہ بہتر تھی یا دس برس بعد پرویز مشرف اور شوکت عزیز نے زیادہ بصیرت کا مظاہرہ کیا۔ لکیر کے دونوں طرف بد عنوان سیاستدانوں کی چاندی تھی۔ کراچی میں اسٹاک ایکسچینج ہڑتال کے اعلان کے ساتھ اٹھتی اور گرتی تھی۔

ہمارے عشرہ زیاں کی بنیادی خصوصیت یہ تھی کہ 1988 میں سیاسی قوتوں کو جونئیر فریق کے طور پر اقتدار میں شریک کیا گیا۔ اقتدار منتقل نہیں کیا گیا تھا۔ کٹھ پتلی حکومتوں کے اس عہد میں پالیسی بنانے پر پس پردہ قوتوں کا علانیہ اجارہ تھا، سیاسی رہنما اپنے کمزور اقتدار کے لئے سمجھوتے کرنے پر مجبور تھے۔ کبھی اسلام آباد کی سڑک پر سری نگر کے سنگ میل کا قصہ سامنے آتا تھا تو کبھی خالصتان کے حامی سکھوں کی لسٹوں کا چرچا ہوتا تھا۔ ایک وزیراعظم کا بھائی مارا گیا، دوسرے وزیراعظم پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ زرد صحافت پر بڑے زور کی جوانی آئی تھی۔ ہمارے بہت سے محترم دوست صحافت کی خرابی پر بات کرتے ہیں تو بالکل سامنے کی بات کرتے ہوئے صحافت کی جملہ خرابیاں الیکٹرونک میڈیا کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ ہمارے الیکٹرونک میڈیا کی پیشہ ورانہ اخلاقیات دراصل نوے کی دہائی میں طے ہوئی تھیں۔ جب عامل صحافیوں میں ٹریڈ یونین کی بجائے پریس کلب کو فروغ ملا۔ ٹریڈ یونین ایک پیشہ ورانہ ادارہ ہے، پریس کلب کی ثقافت 1985 کے غیر جماعتی انتخابات کا عکس ہے۔ جس طرح انتخابات غیر جماعتی نہیں ہوسکتے اسی طرح صحافتی ادارے بھی ذاتی جاہ و منصب کے تابع نہیں ہو سکتے۔ درویش ایک انگریزی اخبار سے منسلک تھا جہاں ایک محترم رفیق کار نے میز کی دراز میں درجن بھر خالی سلیپوں پر ایک لائن لکھ رکھی تھی۔ “باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے…. ” اخبار کے صفحہ اول پر ان کی من گھڑت یک کالمی خبر فتنے کی پڑیا ہوتی تھی۔ عزیز محترم سلپ اٹھاتے اور پانچ سطروں کی خبر گھسیٹ کر اٹھلاتے ہوئے ایڈیٹر کے کمرے کی طرف بڑھتے تو خاکسار جل کر کہا کرتا تھا کہ جدن بائی نواب صاحب کے ساتھ تخلیہ میں جا رہی ہیں۔ اخبار کے دفتر میں ایڈیٹر سے لے کر چپڑاسی تک ایک نیم مجرمانہ سرگرمی کی فضا تھی۔ صحافت میں سرگوشی تھی اور سڑکوں پر لاشیں اس طرح گرتی تھیں جیسے منٹو کے بقول کرکٹ میں وکٹیں گرتی ہیں۔ ہماری تاریخ میں گیارہ برس کا یہ عرصہ جنرل ضیاءالحق کے گیارہ سالہ اقتدار سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور نقصان دہ ثابت ہوا۔

اب اس تصویر کا ایک دوسرا رخ دیکھئے۔ یہی گیارہ برس عالمی تاریخ میں گزشتہ سو برس کے سب سے پر امید دن تھے۔1989 میں انقلاب فرانس کو دو سو برس مکمل ہوئے۔ اسی برس افغانستان سے روسی فوجوں کی واپسی مکمل ہوئی، مشرقی یورپ میں انقلابات کا موسم آیا، دیوار برلن ڈھا دی گئی، یورپی یونین کی تشکیل ہوئی، اشتراکی تجربہ ناکام ہوا، سوویت یونین جمہوری تجربے کی طرف بڑھا، لاطینی امریکہ میں آمریت اور خانہ جنگی کا ایک باب ختم ہوا۔ جمہوریت کی ہوا نیپال سے ہوتی ہوئی پیکنگ کے تائنامن چوک تک جا پہنچی۔ بر اعظم افریقہ میں نیلسن منڈیلا کی کامیابی اور نسل پرست فلسفے کی شکست ایک بڑی اخلاقی کامیابی تھی۔ امریکا میں رنگ کی بنیاد پر امتیاز کے خاتمے کی جد و جہد سیاسی فیصلہ سازی میں شرکت کی اعلیٰ ترین سطحوں پر پہنچ گئی۔ کولن پاول فوج کے سربراہ بنے اور پھر وزیر خارجہ، کونڈالیزا رائس خاتون بھی تھیں اور افریقن امریکن بھی، بالآخر باراک اوباما امریکا کے صدر بن گئے۔ اقتصادیات میں گلوبلائزیشن کا عمل شروع ہوا، علاقائی اقتصادی تعاون کی ثقافت سامنے آئی۔ مشرق بعید کی معیشت نے اپنا رنگ جمانا شروع کیا۔

بھارت میں چالیس برس تک معیشت جمود کا شکار تھی۔ بھارت کی شرح ترقی کو استہزا کے ساتھ ‘ہندو شرح ترقی’ کہا جاتا تھا۔ یعنی تین سے چار فیصد۔ اس عرصے میں پاکستانی معیشت کی شرح ترقی پانچ اور چھے فیصد کے درمیان رہی۔ ہندوستان میں نرسیماراؤ کی کانگریس حکومت کے وزیر خزانہ منموہن سنگھ نے آزاد معیشت کی پالیسی شروع کی اور دس برس کے عشرے میں بھارت کی معیشت دنیا کے نقشے پر جھرجھری لے کر کھڑی ہوگئی۔ یہ دنیا بھر میں امید، ترقی اور سیاسی اخلاقیات کی فتح کا موسم گل تھا۔ اب اس طویل بیان اور پھیلی ہوئی تصویر کو سمیٹا جائے۔ ایک جملے میں یہ سمجھ لیجئے کہ اس عشرے کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ 2001 سے 2011 کے دس برس میں پچاس کروڑ انسانوں کو غربت کی دلدل سے باہر نکل کر متوسط طبقے میں شمولیت کا موقع ملا۔ اتنی کم مدت میں اتنی بڑی آبادی کی معاشی حالت کبھی تبدیل نہیں ہوئی۔ غربت کے خاتمے کی اس پیش رفت میں فائدہ اٹھانے والوں کی بڑی تعداد کا تعلق چین، بھارت اور برازیل سے تھا۔ یہ 1990 کی اقتصادی پالیسیوں کا نتیجہ تھا کہ اکیسویں صدی کے ابتدائی برس بھی دہشت گردی، خانہ جنگی اور بے مقصد جنگوں کے باوجود امید سے خالی نہیں ہوئے۔

اب ان دو بیانات کو آمنے سامنے رکھئے جب دنیا تبدیل ہورہی تھی تو ہم نے اپنے ملک میں تہیہ کر رکھا تھا کہ ہم ہواوؤں کے بدلتے ہوئے رخ کے مخالف پرواز کریں گے۔ ہم تاریخ کی بہاؤ کی الٹی سمت میں تیرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ جب دنیا جمہوریت کی طرف بڑھ رہی تھا تو ہمارا ٹیپ کا مصرعہ تھا کہ کونسی جمہوریت؟ کیا یہی جمہوریت ہے؟ چالیس برس تک ہم مغربی بلاک کی دیوار کے سائے میں کشکول لئے بیٹھے رہے۔ اور جب بھارت اور چین مغرب کی طرف بڑھ رہے تھے ہم نے بستر باندھا اور تورا بورا کے غاروں کی طرف چل دیے۔ وقت ان حادثات کی برسوں پرورش کرتا ہے جو بظاہر اچانک سامنے آجاتے ہیں۔

دیکھیئے، مایوس ہونے میں کچھ نہیں رکھا۔ میرے محترم استاد امتیاز عالم بدترین حالات میں سرائیکی کا ایک مصرعہ پڑھا کرتے تھے جس کا مفہوم یہ تھا کہ “بیوہ کا بچہ ہے، جیسے بھی ہو، پالنا تو پڑے گا”۔ ہمارا ملک بیس کروڑ ذہین، بنیادی طور پر دیانت دار اور محنتی لوگوں کا ملک ہے۔ ہم عالمی سیاست اور معیشت کے بڑے دھارے میں شامل ہوکر اپنا معاشی اور سیاسی حصہ لے سکتے ہیں۔ اس کے لئے ہمیں آج کے علم کو قبول کرنا ہوگا۔ آج کی معیشت کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ ہم عصر سیاسی بندوبست کے اصول ماننا ہوں گے۔ ہم تعصب، امتیاز اور استحصال کے سہارے من مانی کرنے کی کوشش کریں گے تو خوشحال نہیں ہوسکتے۔ پاکستان کا بحران کسی کی مفروضہ نا اہلی یا بدعنوانی کا نتیجہ نہیں۔ ہمیں اپنے اجتماعی تشخص میں ان اخلاقی قدروں کو واپس لانا چاہئے جن کی مدد سے قوم کی اجتماعی دانش کا چشمہ بے روک آگے بڑھے۔ ہمارے اداروں کی توانائی بحال ہو۔ تعلیمی اداروں میں سوال اور تحقیق کا پرچم لہرائے، ہمارے کارخانے کی چمنی دھواں اگلے، ہماری عورتیں اور مرد معاشرے کا مساوی حصہ ہوں، ہمارے وفاق کی اکائیوں کو اقتدار میں شرکت کا احساس ہو۔ مذہبی اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری ہونے کے تکلیف دہ احساس سے نجات ملے، قانون پسند شہری کو تحفظ کا یقین ہو، ہماری صحافت اور سیاست میں کسی کو نفرت، امتیاز اور تفرقہ کی بات کرنے کا یارا نہ ہو۔ شہرت بخاری کہتے تھے

فسردہ ہونے سے حاصل، چلو تلاش کریں
کہیں تو ہوں گی بہاریں جو گلستاں میں نہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments