گدھے جو گدھ بن گئے


\"mustafaجون مرحوم نے یہ شعر

     یہ خراباتیان خرد باختہ

     صبح ہوتے ہی کام پر جائیں گے

شاید اس زمانے میں کہا تھا جب ہمیں صبح اور رات کا فرق معلوم تھا. جب ہمارے اندر کے جانور ہمارے اندر کے کھونٹوں سے بندھے رہا کرتے تھے. ہمارے پاس دن میں صرف ایک اخبار آتا جو اگلے چوبیس گھنٹے کی جگالی کے لیے کافی ہوا کرتا تھا. ہفتے میں ایک بار سنڈے میگزین مل جاتا جس سے تھوڑی رنگین جگالی کا مزہ لے لیا کرتے تھے. پھر نیا زمانہ آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے سارے جانور رسے تڑ ا کے بھاگے اور میڈیا کے جنگل میں پھیل گئے اس جنگل میں ارتقا کی تمام منزلیں اتنی تیزی سے طے ہوئیں کہ گھاس چرنے والے چرندوں نے درندوں کی شکل اختیار لی . کھر تیز پنجوں میں تبدیل ہوۓ اور سیدھے دانتوں کی جگہ نوکیلی کٹار یں اگ آئیں . الیکٹرونک میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کی ولادت باسعادت ہوئی اور اس بچے نے بہت جلد اپنے باپ سے بھی قد نکال لیا .فیس بک نے ہمارے چہروں کو خودنمائی کا خون لگا دیا اور سب خراباتیان خرد باختہ دن رات کی تمیز بھلا کر اپنے اپنے کام پر لگ گئے.

امجد صابری کا قتل اس شب خون کی تازہ مثال ہے. اس کی لاش میں سینکڑوں گدھ اپنی اپنی چونچ گھسا کر اپنا حصہ وصول کر رہے ہیں. سوشل میڈیائی مردارخور ہوں یا الیکٹرونک درندے سب ایک دوسرے سے آگے نکلنے میں مصروف ہیں. فیس بک پر امجد سے محبت کے دعوے داروں نے اسکی لاش کی ایسی توہین کی ہے کہ سب\” تمغہ شقاوت\” کے مستحق ہو گئے ہیں. جوں ہی اس دلخراش قتل کی خبر آئی ہر طرح کے میڈیا پر وہ دھمال چوکڑی مچی کہ اشرف المخلوقی کے سارے پول کھل گئے. کوئی اشرف اس کی چھلنی لاش کی ویڈیو پوسٹ کر رہا ہے تو کوئی مخلوق اس کے خون آلود چہرے کی تصویریں.

پچھلے کئی دن سے امجد کا خون چا ٹا جا رہا ہے لیکن پیٹ نہیں بھرا مگر ایک بات ماننی پڑے گی کہ میڈیا کے یہ گدھ لاشوں کی پہچان رکھتے ہیں. کوئی شیعہ\’ احمدی \’عیسائی اور اقلیتی لاش ان کے وارے میں نہیں. امجد کی لاش پر آنسو بہاتی بین کرتی شور مچاتی رودھالیوں کو اندرون سندھ اوم کی علامت والے جوتوں کے بکنے پر چپ لگ جاتی ہے وہاں ہمیں ایسی چیخیں نہیں سنائی دیتیں. نہ الیکٹرونک میڈیا پر کہیں مذمت ہوتی ہے نہ فیس بکی ارسطو اپنے صفحے سیاہ کرتے ہیں.

جوں ہی ان گدھوں کو محسوس ہونے لگا ہے کہ امجد کا خون جمنے لگا ہے تو انہوں نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے. شہادت یا ہلاکت… افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اچھے خاصے عقلمند بھی اس فضول بحث میں کود پڑے ہیں. ارے صاحبو وہ نہ شہید ہوا ہے نہ ہلاک وہ بیچارہ فنکار دن دیہاڑے قتل ہوا ہے قتل. بہیمانہ قتل. ہمارا المیہ ہی یہی ہے کہ لیاقت علی خان سے لیکر امجد صابری تک ہر قتل ہونے والا شہادت کے لبادے میں چھپا کر قبر میں اتار دیا گیا. قاتل بھی خوش اور مقتول کے لواحقین کو بھی تسلی کہ چلو شہادت کی موت مل گئی. کسی نے مقتول کا سینہ کھول کے دیکھا کہ اس کی روح کتنی بیقرار ہوتی ہو گی جب وہ اپنے چھلنی لاشے کو زمین کے اندر اور قاتل کو اسی زمین کے سینے پر دندناتی دیکھتی ہو گی. اگر یوں ہی اس ریاست کا نظام شہادت کی قلفی چاٹنے پر چلانا ہے تو بند کریں یہ تھانے. پولیس کو تربیت دینے کی بجاۓ ان میں ایک ایک لوٹا اور سفید جالی دار ٹوپیاں تقسیم کریں تاکہ وہ شہید ہونے والوں کے لئے فاتحہ خوانی اور قاتلوں کی بندوقوں میں کیڑے پڑنے کی دعائیں کرتے رہیں. جب یہ دعائیں تھانوں سے نکل کر آسمانوں میں پہنچیں گی تو زمین پر سب ٹھیک ہو جاۓ گا. عدالتوں کو ہرا رنگ چڑھا کر خانقاہوں میں تبدیل کر دیجیے جہاں منصف اور وکیل ہر سوالی کو انصاف کی بجاۓ صبر کے تعویذ اور شہادت کی سند عطا کریں.

اگر یوں ہی ہر قتل شہادت کی فائل میں دبا کر داخل جنت کیا جاتا رہا تو یقین جانیے ہم ایک دن اس قاتل کو بھی شہادت کی دستار پہنا دیں گے جس نے امجد جیسی چلتی پھرتی شرافت کو قتل کیا ہے.

تاجدار حرم

ہو نگاہ کرم

یاد رکھیں اگر …. نہ اٹھی یہ نظر

ہم سب خراباتیان خرد باختہ

آپ کا نام لے لے کے مر جائیں گے

مصطفیٰ آفریدی
Latest posts by مصطفیٰ آفریدی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مصطفیٰ آفریدی

ناپا میں ایک سال پڑھنے کے بعد ٹیلی ویژن کے لیے ڈرامے لکھنا شروع کیے جو آج تک لکھ رہا ہوں جس سے مجھے پیسے ملتے ہیں۔ اور کبھی کبھی افسانے لکھتا ہوں، جس سے مجھے خوشی ملتی ہے۔

mustafa-afridi has 22 posts and counting.See all posts by mustafa-afridi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments