گینگ ریپ کی لوٹ سیل


\"leenaیہ بازار ہے۔ ملک خداداد کا بازار۔ آٹا، گهی، دال چاول، روٹی کپڑا مکان کے علاوہ یہاں اور بهی بہت کچھ بکتا ہے۔ اس بےحسی کے بازار میں ہر چیز بکاو ہے، ضمیر بکتا ہے، ایمان کی بولی لگتی ہے۔ نعرے بکتے ہیں۔ خواب بکتے ہیں۔ زندہ انسان کا سودا ہوتا ہے۔ لاشوں کی بولی لگتی ہے۔ انسانی اعضا بیچنے کا بازار گرم رہتا یے۔ دھماکے میں مرنے والوں اور زخمی جسموں کے ریٹ طے کیے جاتے ہیں۔ ریٹ کا تعین کرتے وقت شہر اور واقعے کی سنگینی کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔

اسمبلی میں بیٹھے باعزت ارکان بکتے ہیں۔ سیلاب زدگان کی امداد بکتی ہے۔ بھوک سے تنگ ماؤں کے بچے بکتے ہیں۔ مردہ لوگوں کو نعرے لگا کر زندہ رکھا جاتا ہے اور زندہ لوگوں کو قدم قدم پر موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد بهی چین کا سانس لینے نہیں دیتے۔ پھر دونوں بک جاتے ہیں۔

لوگوں کی امیدوں، آرزؤ ں، خواہشوں کا سودا سر بازار ہوتا ہے، عورت کی بولی لگتی ہے۔ عورت کی بولی لگنا بهی کوئی نئی بات نہیں۔ اس کی عزت کو تار تار کرکے جرگے لگا کر اس کی عزت کا سودا ہوتا ہے۔

تلور کے شکاری کس طرح غریبوں کی بیٹوں کا شکار اپنی خواب گاہوں میں کرتے ہیں۔ کتنی دردناک چیخیں کی گونج ان کے شاہی خیموں سے سنائی دیتی ہے۔ مگر اس \"jirga-settles-gang-rape-for-1200-kg-of-wheat\"سے کیا فرق پڑتا ہے۔ عورت کی عزت تو ایک عرصہ دراز سے لٹتی چلی آئی ہے

پچھلے برس انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے مطابق 1974 لڑکیوں کی عزت لوٹی گئی۔ 993 خواتین کو جنسی تشدد، 279 کو گھریلو تشدد کا نشانہ بنایا گیا 833خواتین کو اغوا کیا گیا، 143 کے منہ پر تیزاب پھینکا گیا۔ ان تمام واقعات کے بعد بهی ہماری 35 مذہبی جماعتوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ کسی نے عورتوں پر ہونے والے ظلم پر آواز اٹھانے کے لیے نہ تو انٹرویو دیا اور نہ ہی کوئی بیان۔ کیونکہ اس سے مردوں کے معاشرے کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ خدانخواستہ کوئی اگر یہ بات کر دے کہ عورتوں پر تشدد کرنے والے مردوں کو بهی تشدد کا نشانہ بنایا جائے یا جو مرد عورت پر تیزاب پھینکے تو اس پر بهی تیزاب پھینکا جائے تو مولانا حضرات ہڑبڑا کر اپنے حجروں سے باہر آئیں گے اور فرمائیں گے کہ اگر ایسا قانون بن گیا تو مردوں کی انا کو چوٹ پہنچے گی۔ شرح طلاق میں اضافہ ہو گا۔ اسلام کے منافی باتوں پر عمل نہیں ہونے دیا جائے گا۔ بیانات پر بیانات کا سلسلہ شروع ہو جائےگا خیر چهوڑیئے جناب ہم بهی کیا عورت کا رونا لے کر بیٹھ گے۔

عورت تو ہوتی ہی پیر کی جوتی ہے اس کو سر پر نہیں رکھا جا سکتا۔ انسانی حقوق کمشن نے اپنی رپورٹ میں صرف ان واقعات کا ذکر کیا جن کو درج کروایا گیا۔ نہ جانے کتنے ہی ایسے واقعات ہوں گے جو درج ہی نہیں کروائے جاتے ہوں گے یا پیسے اور طاقت کے زور پر درج کروانے نہیں دیے جاتے ہوں گے۔ گاوں والے خود ہی جرگے لگا کر معاملے کو رفع دفع کر دینے میں اپنی بهلائی گردانتے ہوں گے

یاد ہے کچھ عرصہ پہلے عمر کوٹ میں بهی ایک لڑکی کی عزت کو پیروں تلے روندا گیا۔ اس نیک کام کو سر انجام دینے والے طاقت پیسے اور مرتبے میں اعلی مقام \"02\"رکھتے تهے۔

گاؤں کا معاملہ گاؤں میں ہی رکها جائے اس کے لیے جرگہ لگایا گیا وڈیرے نے انصاف کا بول بالا کرتے ہوئے ترازو کے ایک پلڑے میں لڑکی کی عزت رکھی اور دوسری طرف تیس من گندم۔ دونوں کا وزن برابر جانتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ یہ تیس من گندم لڑکی کے باپ کو دے دی جائے تاکہ حساب برابر ہو جائے۔ مگر نہ جانے باپ کو سوجهی کہ وہ اس فیصلے کے آگے سر جهکانے کے بچائے تن کے کھڑا ہو گیا اور گندم لینے سے انکاری ہو گیا اس گستاخی کی پاداش میں تمام گهر والوں کو علاقہ بدر کر دیا گیا۔ اور قصہ خلاص۔

معاملہ ملکی میڈیا میں رپورٹ ہوا۔ آج دو ماہ گزر گئے۔ سچ بتائیے کسی کو پتہ لگا کہ وہ وڈیرا کون تھا۔ کوئی وزیر اور خادم عوام اس بچی کے در پر پہنچا۔ کوئی مقدمہ درج ہوا۔ کوئی سومو ٹو ہوا۔ آج نہ کسی کو واقعہ یاد ہے نہ وہ بچی۔ وہ تیس من گندم شاید ابھی بھی کسی گودام میں پڑی ہو۔ طاقتوروں کو نوید ہو۔ کوئی ظالموں کو خبر کرے۔ مال سستا ترین ہے۔ سودے کر لو۔ اس بازار میں گینگ ریپ کی قیمت تیس من گندم سے بھی کم ہے۔ لوٹ لو۔ لوٹ لو۔ پھر ایسا موقع کہاں ملے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments