یہ کیسی حکومت ہے جس کے پاس اقتدار نہیں؟


ایسا گماں کس کام کا، مجھے تو یقین ہے، یقین مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو۔ کیا بتاؤں،زندگی کے وہ وہ رخ دیکھے کہ اب۔۔۔؟ خیر چھوڑیئے! ثبات اِک تغیر کو ہے زمانے میں۔ زندگی اب بھی زندگی ہے۔ زندگی کے رنگ بڑے دلآویز ہیں۔ یہ زندگی خود بھی بڑی دلآویز ہے۔ زندگی لبھانے پر آتی ہے تو لبھاتی ہی چلی جاتی ہے۔ لبھانے کے لیے بھی تو رنگ چاہئیں، وہ رنگ جو سینے میں ذرا نیچے کی جانب لٹکتے پارہ لحم کو لُبھائیں۔ نیلے، پیلے، نارنجی، قرمزی، ارغوانی رنگ! اس پارہ لحم کی غذا رنگوں سے عبارت ہے۔ دو جبڑوں میں پڑے ایک اور پارہ لحم کا وجود ہی ذائقوں کا محتاج ہے لیکن فانی وجود کے اندر سے سب سے محفوظ و مامون اربوں خلیہ جات کے مجموعے ۔۔۔الموسوم بہ دماغ۔۔۔ کی لغت میں دو ہی رنگ ہیں۔ سیاہ اور سفید۔ ادھر دل کی دنیا میں رنگوں کی آندھیاں کچھ اس طرح چلتی ہیں کہ ان کی پہچان دشوار ہو جاتی ہے۔ ایک رنگ شعور کے پردے پر جونہی اپنا رنگ جماتا ہے، قطار میں منتظر اگلا رنگ اسے دھکیل کر، نکال باہر کر کے، خود غرضی کا اشتہار بن کر ذرا لحظہ بھر کے لیے قدم جمانے ہی لگتا ہے کہ اس قرمزی بدبخت کو دھکا دے کر نارنجی خوش بخت آ دھمکتا ہے۔ انسانی زندگی کے اس کسرو انکسا ر کا نتیجہ ہمیشہ بالآخر دو رنگوں ہی کی صورت میں نکلتا ہے: سفید اور سیاہ یا کہنا چاہیں تو سیاہ و سفید بھی کہہ لیں، ذوقی مسئلہ ہے۔ تقدیم و تاخیر ہی سے ذوق اپنا تعارف کرانے میں کامیاب ہوتا ہے۔ زندگی اور موت یا موت اور زندگی، اسود اور ابیض یا ابیض و اسود! جی ہاں قارئین کرام! بالآخر سچ اور جھوٹ یا جھوٹ اور سچ اور بالآخر سے بھی ذرا آگے، ذرا سا آگے، گام دو گام یا شاید سہہ گام؟ کچھ پتہ نہیں لیکن ہے بالآخر سے کچھ نہ کچھ آگے ہی! کائنات میں دو ہی رنگ ہیں، خوش بخت اور بدبخت۔ داہنے ہاتھ میں نامہ اعمال کے وصول کنندگان یا پھر بائیں ہاتھ میں پشتارہ اٹھائے اورپا بجولاں! بات ذرا مشکل ہو تو ان دو رنگوں کو سچ اور جھوٹ سمجھ لیں تو پھر باقی لاتعداد رنگ کہاں سے پھوٹے؟
’’ صاحب! حقیقتِ حال کچھ اور ہے، آپ مبالغہ آرائی سے کام لے رہے ہیں۔‘‘
’’جی نہیں! سچ کچھ اور ہے، رنگ آمیزی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے!‘‘
’’حاشیہ آرائی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ سچ بولیں، سچ!‘‘
’’جی ہاں! یہ سارے اضافے اور کسر و انکسار اپنی جگہ لیکن سچ بولنے میں کیا مضائقہ ہے۔‘‘
’’بات کچھ اور ہے ، اس کا بتنگڑ نہ بنائیں۔‘‘
’’اصل بات سب کو پتہ ہے۔ صاحب ، وہ تو حقائق کو توڑ مروڑ رہے ہیں۔‘‘
سچ کا ایک ہی رنگ ہوتا ہے: سفید ۔جھوٹ کے لاتعداد رنگ ہیں۔ کبھی یہ رنگ آمیزی کی شکل میں آتا ہے تو کبھی مبالغہ آرائی کہلاتا ہے۔ کبھی سچ کے بالمقابل بتنگڑ بن کر مناظرہ کر رہا ہوتا ہے تو کبھی حاشیہ آرائی اس کی شناخت بن جاتی ہے۔ یہ سارے رنگ دلفریب ہوتے ہیں۔ لیکن سفید؟ لٹھے کے کفن جیسا، دلفریبی سے خالی، بے حس اور سپاٹ رنگ، لیکن کہلاتا سچ ہے۔جھوٹ کے لاتعداد رنگ ہیں۔
حقیقت میں شکارِ دام ہے یہ خود فریبی کا
یہ دنیا دیکھنے میں یوں بڑی رنگین ہے ساقی
ایک رنگ وہ تھا، رنگ ہی تھا لیکن تھا سفید جسے پاکستان کے عوام نے اپنے لیے 1956ء کا دستور کہا تھا۔ فقہ اسلامی اس کی پوری اجازت دے رہی ہے کہ 1956ء کے اس سفید رنگ کو بے تکلفی سے اجماع کہہ دیا جائے ،سچ کہا جائے کہ اس کا رنگ ایک ہی ہوتا ہے۔ وہی سفید رنگ، وہی اجماع جو قرآن و سنت کا ثمرہ ہوا کرتا ہے۔ ملک کے تمام باشندوں نے کورے لٹھے سے یہ سفید رنگ، یہ سچ، یہ خوش بختی اپنے لیے پسند کی۔ کرنل فیض، میجر اسحٰق، بریگیڈیئر صدیق اور میجرجنرل اکبر تو بہت پہلے ناکام ہوئے تھے لیکن جنرل ایوب خان کامیاب ہو گیا۔ وہ کامیاب کیا ہوا، سیاہ رنگ کامیاب ہوا تھا:
پھر تخت بچھے، ایوان سجے، گھڑیال بجے، دربار لگے
تلوار چلی اور خون بہے، انسان لڑے، انسان مرے
کیا کچھ نہیں ہوا، چھ سو مربع میل جنوبی ہمسائے نے ہتھیایا۔ پانچ ہزار مربع میل شمالی ہمسائے کو دان کیے گئے۔ تین دریا سالم بلاشرکت غیرے مشرقی پڑوسی کی نذر گزرانے گئے۔ پڑوسی اتنے ہی حقوق رکھتا ہے تو یہ اسلامی جمہوریہ بھی تو اُن کا پڑوسی تھا۔ پھر اس بدبخت قرمزی طالع آزما کو ارغوانی نے دھکیل باہر کیا۔ کنونشن مسلم لیگ کے نام سے متشکل (Incorporated) قرمزی رنگ بھی قصۂ پارینہ ہوا تو نعیم صدیقی پھر بول پڑا، چپ نہ رہ سکا۔ ویسے بولا تو 1951ء میں تھا پر اِن مجذوبوں کے الفاظ ہوا میں تحلیل نہیں ہوا کرتے۔ بحرِمنجمد جمہوریت کی زمستانی ہوائیں انہیں ساتھ لیے پھرتی رہتی ہیں، اور پھرتی ہی رہتی ہیں۔ یہ ارغوانی رنگ؟ اس مفتون رنگ نے اپنے ہم سفر بھی تو پیدا کرنا تھے اور پھر ایوانِ اقتدار رنگوں ہی سے عبارت نہیں ہوا، رنگوں کی دھنک بن گیا۔ پر سچ کا ایک ہی رنگ ہوتا ہے۔ یہ رنگ، رنگ رنگ کے رنگ تھے ،پر تھے سارے جھوٹ، چاہے جرنیل کی حکم (رانی) ہو یا حکم (رانی) کا جرنیل:
پھر بنک کھلے، بازار جمے، بازار جمے، بیوپار بڑھے
انسان لُٹے، انسان بِکے، آرام اُڑے، سب چیخ اُٹھے
پھر ایک دن اس بدبخت سیاہ رنگ نے سیاہ بختی کا اظہار کرنا ہی تھا۔ بدبختی نے ظاہر ہونا ہی تھا حالانکہ اب کی بار یہ سیاہ رنگ، ارغوانی جام کی شکل میں تھا۔ ارغوانی رنگ نے نقاب اُتارا تو بجتے گھڑیال نے بتایا، آج سولہ دسمبر ہے۔ اُس دوسرے مجذوب نے بھی سمجھایا تھا، وہ چیخا تھا، رویا تھا، پیٹا تھا، مال روڈ پر اُس نے لاٹھیاں کھائیں تھیں:
گمان تجھ کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقین مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
پھر 1962ء کا وہ دھندلا سا، ناگوار سا، نام نہاد سا، لیکن تھا سفید رنگ شاید میلا سا خاکی رنگ کی آمیزش والا سفید رنگ جو معدوم ہوتے ہوتے اپنے نامۂ اعمال کی سیاہی میں کچھ زیادہ ہی اضافہ کر گیا۔ یہ پتہ نہیں، بازو کٹا یا ٹانگ ٹوٹی، پر وجود آدھا ہی رہ گیا۔ پھر کلکتے کے وہ والے بازارجو سجنا شروع ہوئے تو آج 2018ء میں بھی ہمارے ہی وجود سے سج رہے ہیں۔ الا ! خبردار! اُمت مسلمہ ایک جسدِ واحد ہے۔
پھر روح دبی، پھر پیٹ بڑھے، افکار سڑے، کردار گرے
ایمان لُٹے، اخلاق جلے، انسان نرے حیوان بنے
پھر ترانوے ہزار کا عدد ہمارے ساتھ چپک کر رہ گیا۔ پر یزداں و اہرمن کی آویزش تو صور پھونکنے تک بھگتنا ہو گی۔ سنا ہے یزداں نور ہے۔ نور چمک ہے۔ سفیدی ہے اور اہرمن کا رنگ سیاہ ہے۔ کالا بھجنگ! پھر ہم نے بالآخر شاہی کو پہچان لیا، پہچان لیا۔ اہرمن کہاں چپ بیٹھنے والا تھا، وہ کہاں نچلا بیٹھنے والا ہو سکتا ہے۔ شب رنگ نے سب رنگ کی وہ ایسی کی تیسی کی کہ الفاظ و معانی اپنے مفاہیم سے نالاں و بیزار ہو گئے۔ نور کا ایک مترادف لفظ ضیا ء علمائے لغت میں معروف تھا اور بات علمائے لغت ہی کی استناد سے معمور ہوا کرتی ہے۔ پر اب کی بار لوگوں نے علمائے لغت کو تج کر نئی لُغت ، لُغتِ معکوس وضع کر لی۔ اب وہ ظلمت کوضیا ء کہنا شروع ہو گئے۔ پھر شمال میں چلنے والی زمستانی ہوائیں بھی ہماری ایسی دشمن ہوئیں، کیوں نہ ہوتیں، کہا گیا کہ وہاں شمال میں تو گھاس کی پتی بھی نہیں اُگتی۔ گھاس اُگے نہ اُگے، فصیلوں پر سینہ تانے خاکی پوش ہمارے بیٹوں کی میتیں ضرور آنا شروع ہو گئیں اور اب تک آ رہی ہیں:
اور 1999ء میں ایک دن تو حد ہو گئی۔ سیاہی نے سفیدی کو کچھ اس طرح بے طرح نگلا کہ دھرتی شب رنگ تو تھی ہی، اب سب رنگ سے اس کی کایا لہو رنگ میں پلٹ گئی۔ ایک لاکھ افراد اس سیاہ رنگ کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ 1947ء کی تاریخی ہجرت میں انسانوں کی دی جانے والی ایک کروڑ جانوں کی قربانیوں کا یہ عدد اس تناسب سے بھی دُگنا عدد ہے، جسے شرعی زبان میں زکوٰۃ کہتے ہیں۔ پھر بڑی مشکل سے تنکا تنکاجمع کر کے کراچی کی روشنیاں بحال ہوئیں، ملک بھرمیں ہر روز دھماکوں کی نذر ہونے والے افراد کی تعداد دن بدن گھٹنا شروع ہوئی تو گھٹتی ہی چلی گئی۔ 2013ء میں روزانہ درجنوں گھروں میں جو صفِ ماتم بچھا کرتی تھی، 2018ء کے پہلے نصف میں وہ صفر کے عدد تک محدود ہو گئی۔ لوڈ شیڈنگ قریب تھا کہ ڈکشنری تک محدود ہو کر رہ جاتی، سیاہ رنگ کی رو سیاہی کا اب پھرشکار ہونے کو ہے۔ ذرا تصور کریں بے نظیر کی شہادت کے وقت ان کے بدعنوان شوہرِ نامدار مزید بدعنوانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’’پاکستان کھپے‘‘ والے نعرے کے ان دو الفاظ کے مابین ’’نہ‘‘ کا اضافہ کر کے ان دو الفاظ میں انفصال پیدا کر دیتے تو کیا اس انفصال کی یہ حدود نعرے ہی کی شکل میں رہتیں یا اس انفصال کی لپیٹ میں صوبے بھی آ جاتے، اس پر ذرا غور کرنے کی ضرورت ہے۔ مجھے آپ کو یا پاکستان کے بے اختیار عوام کو غور کرنے کی ضرورت ہرگز نہیں ہے۔غور کرنے کی ضرورت ان کو لاحق ہے جنہیں حبیب جالب پلٹ پلٹ کر اب بھی عالم بالا سے کہہ رہا ہے:
گمان تجھ کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقین مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
مجھے سیاستدانوں کی باتوں میں کبھی کشش محسوس نہیں ہوئی۔ یہ لوگ لایعنی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ بے سروپا باتیں یعنی جن باتوں کا سر ہو نہ پاؤں۔ ذرا غور کریں، ابھی دو ایک دن قبل فیصل وا وڈا نامی ایک وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ’’حکومت تو ہماری ہے لیکن ہمیں اقتدار حاصل نہیں ہے۔‘‘ اب بھلا بتائیے اس بات کا کوئی مطلب ہے؟ حکومت، حکومت ہوتی ہے اقتدار اسی کے پاس ہوتا ہے۔ میں تو یہ سمجھنے سے مطلقاً قاصر ہوں کہ وہ حکومت کیسی حکومت ہو گی جس کے پاس اقتدار نہ ہو۔ تو پھر اقتدار کس کے پاس ہے؟ قارئین میں سے اگر کوئی بتا سکے تو مجھے خوشی ہو گی۔

ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

ڈاکٹر شہزاد اقبال شام اسلامی قانون کے پروفیسراوردستوری قانون میں پی ایچ ڈی ہیں ۔ گزشتہ 33 برس سے تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں ۔

dr-shehzad-iqbal-sham has 9 posts and counting.See all posts by dr-shehzad-iqbal-sham