انڈین پنجاب میں بنی فلم: لاہورئیے


انڈین سکھوں کی پنجابی فلم دیکھنا ایک خوبصورت تجربہ ہوتا ہے۔ زبان مٹھاس بھری لگتی ہے۔ اپنی جو ٹھہری۔ بولنے والے اداکار بھی اپنے اپنے لگتے ہیں۔ گویا میرے ہی گاؤں واسی ہوں۔ ‘لاہورئیے’ فلم میں مسکراہٹوں کی پھلجھڑیاں بھی ہیں اور آنسوؤں کی ندیاں بھی۔
بٹوارے کی بات ہو تو پرانے زخموں سے رستا خون آنسوؤں کا روپ دھارے آنکھوں سے چھلک پڑتا ہے۔ فلم تقسیم کے گہرے زخموں کو بھی کریدتی ہے اور ان پہ مرہم رکھنے کا جتن بھی کرتی ہے۔
پنجابی زبان کا اچھوتا رنگ، پنجابی کلچر کے دلفریب نظارے، سہانے گیت، تفریح اور سنجیدہ پیغام سب اس فلم میں یکجا ہیں۔
ہندوستانی پنجاب کے ایک گاؤں کے باسی سنتالیس سے قبل لاہور میں رہتے تھے۔ وہ سات دہائیوں کے بعد آج بھی لاہورئیے کہلاتے ہیں وہاں۔ اور لاہورئیے کہلانا بہت پسند کرتے ہیں۔ یہ دھرتی سے محبت من کی زمین پہ ہمیشہ برگد کے درخت کی مانند کھڑی رہتی ہے۔ سب کچھ لٹ جائے پھر بھی یہ شجر ہرا بھرا رہتا ہے۔ اس کی جڑیں من میں پھیلتی جاتی ہیں۔ پاکستان میں جو لوگ انڈیا سے ہجرت کر کے آئے وہ آج بھی اپنے آپ کو ہوشیارپورئیے، امرتسرئیے، فیروزپورئیے فخر سے بتاتے ہیں۔


میرے دوست کے والد سات برس کے تھے جب سنتالیس کے خونی طوفان میں وہ ہندوستان سے پاکستان پہنچے تھے۔ ان کی گردن پہ کرپان سے لگے زخم کے نشاں ہر وقت دکھائی دیتے رہتے ہیں۔ روح پہ لگے زخم البتہ ہر آنکھ نہیں دیکھ پاتی۔ایک دفعہ وہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان کبڈی کا میچ ٹی وی پہ دیکھ رہے تھے۔ کمنٹیٹر نے کھلاڑیوں کا تعارف کروایا تو معلوم ہوا کہ انڈین ٹیم میں ایک کھلاڑی کا تعلق اسی گاؤں سے ہے جہاں سے وہ ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے۔ دوست نے بتایا کہ والد صاحب کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے تھے۔ وہ پورا میچ اس کھلاڑی کو سپورٹ کرتے رہے۔ جب وہ پاکستانی کھلاڑی کو پچھاڑ کے پوائنٹ لیتا تو ان کی آنکھوں کی چمک دیدنی ہوتی۔
فلم کے شروع میں ایک سکھ بچہ اپنے گھر کے آنگن میں گڑھا کھود کر اپنا گلی ڈنڈا اور بنٹے دفن کر دیتا ہے اور اوپر ایک سوکھا پتا رکھ دیتا ہے۔ سوچتا ہو گا کہ جب کبھی گھر لوٹیں گے تو تلاش کرنے میں آسانی ہو گی۔ وہ اپنے خاندان کے ہمراہ گھر بار چھوڑ کر دہلیز ہی پار کرتا ہے کہ پتا ہوا کے دوش کہیں دور اڑ جاتا ہے۔
یہ علامتی سین ہمیں بتاتا ہے کہ بٹوارے میں ہمارا بچپن، ہماری خوشیاں، ہماری یادیں گلی ڈنڈے اور بنٹوں کی مانند درگور ہو گئییں۔ پلٹ کر آبائی گھر آنے کی ساری امیدیں سوکھے پتے کی طرح ہوا ہو گئییں۔ پل بھر میں اپنی ہر چیز پرائی ہو گئی۔ اپنی ہی دھرتی پہ اجنبی ہو گئیے۔ سنتالیس میں کچھ ایسی ہی ہوا چلی تھی کہ اپنا دیس ہی پردیس ہو گیا۔

ایک اور سین میں لاہور کی مٹی ان کے گاؤں کوئیی لے آتا ہے۔ سب گاؤں والے مٹی دیکھنے جمع ہو جاتے ہیں۔ جیسے مقدس شے کی زیارت کی جاتی ہے۔ لاہور سے ہجرت کرنے والے بزرگ مٹی کو چھوتے ہیں اور ان کی بوڑھی بنجر آنکھوں سے آنسوؤں کے جھرنے بہتے رہتے ہیں۔
کچھ احساسات ایسے ہوتے ہیں جن کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ مٹی سے بچھڑنے والے جب دوبارہ اس مٹی کو چھوتے ہیں تو ان کے جذبات کیا ہوتے ہوں گے۔ یہ بھلا کیسے بیان ہو سکتا ہے؟ وہ مٹی کو تبرک کی طرح سنبھال رکھتے ہیں۔
میں سوچ رہا تھا کہ سرحد کے دونوں اطراف مہاجر نسل کے اکا دکا بزرگ جو زندہ ہیں جب دنیا سے چلے جائیں گے تو کیا اگلی نسلوں کی بھی اپنے بزرگوں کی مٹی سے محبت برقرار رہے گی؟ لاکھوں بزرگ اپنے گاؤں، اپنی حویلی اور اپنی مٹی کو زندگی بھر ترستے رہے اور تشنہ ہی راہ عدم کے راہی ہو گئیے۔
فسادات کے دوران ایک سکھ اور مسلمان کی دوستی کو بھی خوبصورت طریقے سے فلمایا گیا ہے۔ ایک سکھ مسلمانون کی چھوڑی ہوئی حویلی کی ساری حیاتی حفاظت کرتا ہے کیونکہ مسلمان بچے نے اپنی حویلی چھوڑتے اسے کہا تھا کہ زندگی میں کبھی موقع ملا تو وہ حویلی سے ملنے آئے گا۔ وہ سکھ سارے پری وار کے سامنے ڈٹا رہتا ہے اور حویلی کو گرانے نہیں دیتا۔
بٹوارے میں ایسی دوستی کی مثالیں ملتی ہیں جو کڑی آزمائشوں کے جھکڑوں کو پربتوں کے سے حوصلے سے جھیل گئییں۔ اتنی بڑے مصیبت میں اپنے دوست یار اور گاؤں والے ہی کام آتے ہیں۔ سب ہندو، سکھ، مسلمان مل کر رہتے تھے۔ ہر غم خوشی کو اکٹھے ہو کر جی لیتے تھے۔ ان کا ایک دوسرے کا سہارا بننا فطری بات ہے۔ عین انسانیت ہے۔ عجب بات تو یہ ہوئی کہ جب سنتالیس کے ہنگامے میں اپنے گاؤں والے ہی بدل گئیے۔ جگری یار ہی جانی دشمن بن گئیے۔ صدیوں کے رشتے ایک پل میں ٹوٹ گئیے۔ دکھ سکھ بانٹنے والے ہی مصیبت میں پھنسے دوستوں پہ پل پڑے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ مشکل وقت میں سہارا بننے والے ایک ہی کشتی کے مسافر اپنے ہی ساتھیوں کو ڈبونے میں لگ گئے تھے۔
وہ لوگ جنہوں نے دوستیاں نبھائیں، رشتوں کا مان رکھا وہ اس دھرتی کا مان ہیں۔ ورنہ سن سنتالیس کے اس آگ برساتے گرما میں انسانیت پستیوں کو چھو گئی تھی۔


سرحد کے دونوں پار بستے لوگوں کا رہن سہن، بول چال، لباس، رسم و رواج، رنگ و نسل آج بھی ایک جیسے ہیں۔ کیونکہ سب ایک ہی دھرتی ماں کے جائے ہیں۔ دونوں ملکوں میں زمین تو بٹ گئی مگر کچھ رشتے ہیں جو آج بھی سانجھے ہیں۔
فلم میں ذکر ہے کہ کچھ لوگ آج بھی سرحد پہ دیے جلاتے ہیں۔ سوچتا ہوں بارڈر پہ چراغ جلانے سے ان کو کیا ملتا ہے؟ شاید اس لیے دیے روشن کرتے ہیں کہ سرحد پار ان کے پیاروں کی خاک رہ گئی تھی۔ یا ان کے اپنوں کی قبریں ہیں۔ سرحد پار ان کے گہرے رشتے تھے جن کا خون ہوا تھا۔ یا پھر دور کسی گاؤں میں ان کا بچپن آج بھی دفن ہے۔ یا پھر دیے اس زندگی کی یاد میں جلا رکھتے ہوں گے جو زندگی وہ اپنے گاؤں کی گلیوں میں چھوڑ آئے تھے۔ یا پھر وہ دیپ اس مرقد پہ رکھتے ہوں جس میں ان کے خود غرض دوستوں اور ان کے گھر لوٹنے والے لوگوں کی مردہ دوستی درگور ہوئی تھی۔
یا پھر وہ اپنی مٹی کی یاد میں بتیاں روشن کرتے ہیں جس مٹی میں وہ امیدوں کے بیج بوتے تھے اور سدھروں کی فصلیں کاٹتے تھے۔
میں نے بٹوارے کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا۔ نانی اماں ایسے بزرگوں سے کچھ غمناک کہانیاں سنی ہیں۔ کتابوں میں کچھ داستانیں پڑھی ہیں۔ ڈراموں اور فلموں میں المناک واقعات دیکھے ہیں۔ صرف کہانیاں سن کر ہی میری روح زخما گئی ہے۔ جب بٹوارے کی کوئی لہو بھری کہانی سنتا ہوں اور انڈیا پاکستان کے ستر سالہ تعلقات کو دیکھتا ہوں تو من چاہتا ہے کہ میں بھی ہیڈ سلیمانکی جاؤں اور دسمبر کی گھپ اندھیری رات میں سرحد پہ ایک دیپ جلا کر رکھ دوں۔ جو چند ساعتیں ٹمٹماتا رہے گا۔ دونوں پار مدھم سی روشنی کرے گا اور پھر بجھ جائے گا۔

احمد نعیم چشتی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

احمد نعیم چشتی

احمد نعیم چشتی درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ سادہ اور چھوٹے جملوں میں بات کہتے ہیں۔ کائنات اور زندگی کو انگشت بدنداں تکتے رہتے ہیں۔ ذہن میں اتنے سوال ہیں جتنے کائنات میں ستارے۔ شومئی قسمت جواب کی تلاش میں خاک چھانتے مزید سوالوں سے دامن بھر لیا ہے۔

ahmad-naeem-chishti has 76 posts and counting.See all posts by ahmad-naeem-chishti