امجد صابری اور وطن کا نوحہ


علی اکبر عابدی


\"Ali 22 جون کو ٹی وی پر چلنے والی ایک نیوز نے دماغ کا فیوز ہی اڑا کے رکھ دیا۔ جب سے سنا اور دیکھا ہے نہ ایک پل چین آیا نہ قرار۔ ٹی وی پر امجد صابری کی شہادت کی خبر سن کر مجھے لگا کہ کوئی بھی دن دیہاڑے کسی بھی چوک کسی گلی کسی محلے حتٰی کے آپ کے گھر میں گھس کر بھی آپ کو مار کے بآسانی جا سکتا ہے رہ گئے ان کو روکنے والے تو وہ جناب اشرافیہ کے پروٹوکول میں ٹریفک روکنے میں مشغول ہیں جب ان کو وہاں سے فرصت ہوگی تو آپ پر بھی نظر کرم ہو جائے گی۔
سوال یہ نہیں کے امجد صابری کون تھے، کیا تھے؟ یہ تو سب لوگ جانتے ہی ہیں اور ان جیسے نہ جانے کتنے لوگ جو پاکستان کے لئے سرمایہ ہیں زمین میں دفن کر دئیے گئے۔ مگر ان کو مارنے والے کون تھے اور کہاں سے آئے اور کیوں یہ سلسلہ اب تک رکنے میں نہیں آرہا نیز وہ ادارے یا افراد جو حالت امن کا کریڈٹ لینے میں پیش پیش ہوتے ہیں اب کیوں ذمہ داری لینے سے دامن بچا رہے ہیں؟ عوام کے نمائندے اور جان و مال کی حفاطت کے دعوٰی دار کیوں ان کی نماز جنازہ میں آنے کا رسک نہیں لے سکے۔ ان کے اس عمل نے عوام کو صاف بتا دیا ہے کہ ان میں اور عوام میں تفریق ہے، ملک میں ان کا  محفوظ رہنا ضروری ہے۔ باقی رہی عوام تو وہ اپنا بندوبست خود کرلے۔

اب یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہیں کہ جب تک ہماری حفاظت کے والی وارث خود محفوظ ہیں عوام غیر محفوظ رہیں گے۔ جب تک عوام اور ان کے خود ساختہ نمائندہ گان ہر مقام پہ ایک نہیں ہو جاتے حالات بہتر نہیں ہو سکتے۔ جتنی حفاظت، صحت، تعلیم، اور زندگی کی تمام ضروریات عوام کو میسر ہیں ان کو بھی ہوں تو یہ پھر خود ان میں بہتری لائیں گے ورنہ عوام اسی طرح رولنگ اسٹون بنے رہیں گے۔
ایک عرصے سے ہمارے ملک میں جاری دہشت گردی جاری ہے۔ جب چاہو جسے چاہو ماردو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ جب چاہو جسے چاہو کافر کہہ دو، اس کی موت کا فرمان جاری کردو۔ کالعدم تنظیمیں بڑے ذوق و شوق سے جلسے جلوس کر رہی ہیں ان کے رہنما نفرت آمیز تقاریر کر رہے ہیں، حد تو یہ ہے کہ کھلم کھلا ریاست کو چیلنج کرنے والا ایک شخص آپ کے دارالحکومت میں آزاد پھر رہا ہے اور وزیر داخلہ فرماتے ہیں کہ اس کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں۔

آپ نے اکثر فکشن موویز دیکھی ہوں گی۔ اس میں جہاں ہیرو خلائی مخلوق یا کسی بھی عفریت سے لٹرتا ہے وہاں وہ اس کی نرسری تک بھی پہنچنے کی کوشش ضرور کرتا ہے تا کہ اس کی جڑ ختم ہو سکے۔ کیوںکہ اسے پتہ ہے کہ اگر وہ خود ایک جگہ پر رک کر ان کا مقابلہ کرے گا وہ آتے جائیں گے اس لئے ضروری ہے کہ اس کی جڑ تک پہنچ کر اس عفریت کو ختم کیا جائے۔ مگر شاید ایسا کسی فلم میں ہی ہوتا ہے یا ان ممالک میں جہاں یہ فلمیں بنتی ہیں کیوں کہ وہاں انسان اور یہاں انسان نما کوئی مخلوق آباد ہے جو قانون ہمارے ملک میں رائج ہے وہ یہ ہے کہ:

ہو جس سے اختلاف اسے مار دیجئے

ملک کے حکمران ادارے اور وہ سب لوگ جن کے ہاتھ میں کسی نہ کسی قسم کا اقتدار یا اختیار موجود ہے وہ کیا کر رہے ہیں یہ سچ ہے کہ حالات پہلے سے بہت بہتر ہوئے ہیں مگر سوال یہ بھی ہے کہ پہلے بھی کیوں خراب ہوئے تھے اور اب بھی کیوں بے گناہ لوگ تواتر سے مارے جارہے ہیں۔ جتنے لوگ ہمارے ملک میں دھماکوں، ٹارگٹ کلنگ میں مارے جا چکے ہیں کسی ایسے ملک میں جسے آپ کافر ملک کا لقب دیتے ہیں اتنے کتے بھی مر جاتے تو وہاں ایمرجنسی لگا دی جاتی اور نہ جانے اقدامات اٹھا لئے گئے ہوتے۔
مگر کیا کریں کہاں جائیں کس سے فریاد کریں؟ حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں! ایسی کون سی طاقتیں ہیں جو مساجد، امام بارگاہوں، مذہبی مقامات اور ملک کے پڑھے لکھے طبقات کی دشمن ہیں۔ جو اللہ اور رسولؐ کے نام لینے والوں کے دشمن ہیں۔ ان کا پتہ کون لگائے گا؟ کون ان کی بیخ کنی کو آگے بڑھے گا؟ یہ کون انسان نما جانور اس ملک میں وارد ہو گئے ہیں جو کسی کو بھی کفر کا میڈل عطا فرما کر گولیوں سے اسے لٹکاتے بھی ہیں۔

ملک کے وزیر اعظم نے ایک کروڑ کی امداد کا اعلان کردیا۔ امجد صابری کے بچوں کے لئے تعلیم سرکاری خرچ پہ کرنے کا اعلان کردیا، سندھ کی اسمبلی میں قرارداد پیش ہوگئی، فرض پورا ہوگیا. مگر ایک سوال بھی اٹھ گیا کہ اگر یہ سب ان لوگوں کے ساتھ ہوتا. ان کے بچوں کی خوشی کو غم کے پیراہن دے جاتا اور ان کے بچوں کو بھی امداد اور سرکاری خرچ پر تعلیم کا لالی پوپ دیا جاتا تو ان کی روح پہ کیا گزرتی؟

خیر ان سے کیا گلہ کہ جو خود سراپا گلہ ہیں. کبھی فوج سے، کبھی اپوزیشن سے، کبھی میڈیا سے کبھی کسی سے۔ جنہیں ہر مسئلہ سازش لگتا ہے. گویا یہاں دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں جو ہمارے دشمنوں سے ہضم نہیں ہو رہیں۔ ہر حادثہ کا اپنا دکھ تو ہوتا ہی ہے مگر اس سے کہیں زیادہ دکھ اس بے حسی کا ہوتا ہے جو حکومت کی طرف سے اور اب تو عوام کی طرف سے بھی دکھائی جا رہی ہے. شاید بے حس حکمرانوں نے عوام کو بھی اپنے رنگ میں رنگ لیا ہے یا پھر یہ بے حس عوام کو خدا کا تحفہ ہے کہ جیسی قوم ویسے حکمران۔
سوشل میڈیا پہ ایک ویڈیو چلی جو کسی ماہر نے اپنا اخلاقی، مذہبی، سماجی فرض سمجھتے ہوئے فوراََ بنا لی۔ اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے لوگ اس شخص کی زیارت کر رہے ہیں جس کے سر سے خون بہہ رہا ہے اور یو محسوس ہوتا ہے کہ وہ مرتا ہوا شخص لوگوں سے کہہ رہا ہے کہ اگر میری جگہ تیرا کوئی پیارا ہوتا تو کیا پھر بھی تو اسی طرح ویڈیو بناتا رہتا یا مجھے اسپتال لے جاتا؟

ہم حکمرانوں پر ہمیشہ ہی تنقید کرتے ہیں، کرنی بھی چاہیے مگر کیا صرف تنقید کر کے ہمارا فرض ادا ہوگیا؟ اگر ضمیر کی عدالت سے رجوع کریں تو جواب آئے گا نہیں!

آپ جگہ جگہ اس بے حسی کا تماشہ دیکھیں گے۔ ایمبولینس کو راستہ نہ دینا، راہ چلتے بوڑھے کو لفٹ نہ دینا، کسی کمزور کو اپنی برداشت سے زیادہ وزن اٹھاتے ہوئے دیکھنا اور اس کی مدد نہ کرنا، کسی مقام پر جھگڑا دیکھ کر بجائے ختم کروانے یا کسی زخمی کو دیکھ کر اسے اسپتال لے جانے کے اس کی ویڈیو بنانا۔ غرض کہ ایک قوم ایک امت اور اب تو حد یہ ہے کہ بنی نوع انسان ہونے کا فخر بھی ہمیں بوجھ لگنے لگا ہے کہ اس سے بھی جان چھڑائی جائے۔

ہم سب نے مل کر ملک ان طاقتور گروہ کے حوالے کردیا ہے جو جب چاہیں جہاں چاہیں پوری آزادی سے اپنا فرض اور آپ کی زندگی کا قرض ادا کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔

اس ملک میں مجھے نہیں پتہ کہ کون سا طاقتور ادارہ ہے! کون سپریم ہے؟ کون ادنٰی کون اعلٰی کون اعظم ہے؟ ہاں مگر یہ ضرور پتہ ہے کہ اس ملک کے سب سے طاقتور افراد نامعلوم افراد ہیں جو کچھ بھی کرجائیں نہ ان کو کوئی پکڑ سکتا ہے نہ جکڑ سکتا ہے۔ اور ان کا پیغام بھی ہمارے لئے نوشتہ دیوار ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments