تین دھرنا تحریکوں کا انجام۔۔۔ نظربند کون؟


پاکستان میں اس وقت تین تحریکوں کی تاریخ لکھی جارہی ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے دورِ حکومت میں یہ تحریکیں تقریباً ایک ہی منزل کی مسافر تھیں اور تینوں تحریکوں کو دھرنا سپیشلسٹ ہونے کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ ان میں سے ایک تحریک انصاف ہے جو کہ اپنے اقتدار کے ’’شاندار‘‘ سو دن مکمل کرچکی ہے۔ تحریک انصاف ان سو دنوں میں اپوزیشن میں ہونے والے رشتوں ناطوں کو اب تقریباً بھول چکی ہے اور سیاست کا یہ طرہ امتیاز بھی ہے کہ اقتدار میں دوست اور ہوتے ہیں اور حزب مخالف میں دوستیاں مختلف طرز کی ہوتی ہیں۔
ماضی قریب میں تحریک انصاف اور عوامی تحریک ایک ہی منزل اور ایک ہی’’دھرنے‘‘ کے سوار رہ چکے ہیں اسی وجہ سے انہیں سیاسی کزن ہونے کا اعزاز بھی دیا گیا تھا۔ تحریک انصاف ایک طرف اقتدار سے بھرپور لطف اٹھا رہی ہے اور دوسری طرف نیب اور ایف آئی اے کی صرف اپوزیشن کے خلاف کارروائیوں پر بھی بہت خوش دکھائی دیتی ہے حالانکہ انہیں یاد رکھنا چاہئے۔ ’’دشمن مرے تو خوشی نہ کرئیے سجناں وی مرجانا‘‘ تحریک انصاف کیلئے ابھی تو سب اچھا چل رہا ہے۔
وزیراعظم عمران خان اگر بھینسیں فروخت کرتے ہیں تو بھی واہ واہ ہوتی ہے اور اگر وہ’’کٹے‘‘ کی افادیت پر روشنی ڈالتے ہیں تو پھر بھی ہال تالیوں سے گونج رہے ہیں۔ وزیراعظم اگر معیشت کی بحالی کیلئے دیسی مرغیوں اور انڈوں کے کاروبار کے مشورے دے رہے ہیں تو معاشی ماہرین اس پر بھی عش عش کر رہے ہیں۔ کیونکہ اس وقت اقتدار کی ہواؤں کا ’’دباؤ‘‘ تحریک انصاف کی مرضی کے تابع ہے۔

PTI chairman Imran Khan addressing the participants of Azadi march

وزیراعظم عمران خان کے اقتدار کے سو دن مکمل ہونے پر عوامی تحریک کو انصاف کی فراہمی کیلئے نئی جے آئی ٹی کی تشکیل اچھی پیش رفت ہے لیکن یہ جے آئی ٹی بھی سپریم کورٹ کے کئی دیگر کاموں کی طرح عدالت ہی کی مرہونِ منت ہوسکی ہے تحریک انصاف نے اس کیلئے صرف افسران کا چناؤ کرکے نوٹیفکیشن جاری کیا ہے۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مقتولین کے ورثاء کو انصاف کی فراہمی کے حوالے سے اگر بغور دیکھا جائے تو دونوں تحریکوں کو انصاف کیلئے اتنی بے چینی نہیں ہے جتنی کہ ان دونوں دھڑوں کو مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے دوران ہوا کرتی تھی۔ مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں علامہ طاہرالقادری کی کینیڈا سے وطن واپسی کو’’گھبر سنگھ‘‘ کی واپسی سے تشبیہ دیکر رائے ونڈ محل میں خوف اور دہشت پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی تھی اور علامہ طاہرالقادری پاکستان میں چند روزہ قیام کے دوران مقتولین کے ورثاء کا خون گرمانے کے ساتھ ساتھ میاں برادران کا خون خشک کر کے واپس کینیڈا کے یخ بستہ ماحول میں جاکر خود بھی ٹھنڈے ہوکر بیٹھ جاتے تھے۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کو انصاف فراہم کرنے کیلئے کسی منچلے نے آئیڈیا دیا تھا کہ قاتلوں کو گرفت میں لانے کیلئے ضروری ہے کہ علامہ طاہر القادری کا نام ایگزٹ لسٹ میں ڈال کر انہیں بیرون ملک جانے سے روک دیا جائے تاکہ وہ پورا وقت شہداء کے قاتلوں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کیلئے صرف کرسکیں۔ مگر ایسا نہیں ہوسکا ہے اور تحریک انصاف کی حکومت بننے کے بعد علامہ طاہرالقادری نے ایک ہلکا سا بیان دیکر مقتولین کے لئے انصاف کی امید لگائی تھی اور پھر وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کے دوران بھی وہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مقتولین کو کیفر کردار تک پہنچانے میں زیادہ سنجیدہ اور پرجوش نظر نہیں آئے۔


حیرت کی بات ہے کہ دونوں تحریکیں قاتلوں کا پیچھا کرنے کیلئے زیادہ پرجوش نہیں ہیں۔ اسلام آباد کے سیاسی حلقے کہتے ہیں کہ عوامی تحریک انصاف کے حصول کیلئے زیادہ زور اس لئے نہیں لگا رہی کیونکہ شہداء کیلئے انصاف کی ’’تحریک رقم‘‘ ہو چکی ہے۔ لہٰذا علامہ طاہر القادری محض ہلکے پھلکے بیان کی حد تک انصاف چاہتے ہیں البتہ مقتولین کے ورثاء کو وہ شہداء کے جنت میں خوش وخرم ہونے کی نوید سنا کر خوش کر چکے ہیں۔
ماضی قریب میں تحریک لبیک یارسول اﷲؐ بھی مذکورہ بالا دونوں تحریکوں کے شانہ بشانہ دھرنے دے رہی تھی۔ جب عوامی تحریک 76 روزہ دھرنے اور تحریک انصاف 126 روزہ دھرنے کے بعد ناکام لوٹ چکی تھیں تو تحریک لبیک یارسول اﷲؐ نے مسلم لیگ(ن) کے آخری مہینوں میں دئیے گئے دھرنوں میں نہ صرف ملک لاک ڈاؤن کر دیا تھا بلکہ وہ ایک وفاقی وزیر کا استعفی اور وردی والوں سے ایک ایک ہزار روپیہ لیکر فیض آباد کا ناکہ چھوڑنے پر تیار ہوئے تھے۔
تحریک لبیک یارسول اﷲؐ نے تحریک انصاف کے خلاف بھی علم بغاوت بلند کردیا تھا لیکن تحریک انصاف نے سیاسی طریقے سے پہلے دھرنا ختم کروایا اور اب تحریک لبیک یارسول اﷲؐ کی پوری قیادت کو سینکڑوں کارکنوں سمیت نظر بند کردیا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ تحریک لبیک یارسول اﷲؐ بہت تیزی سے مقبول ہورہی تھی اس لئے مولوی خادم حسین رضوی کو’’نظربد‘‘ لگی ہے اور مولانا فضل الرحمان سمیت دیگر مذہبی سیاسی جماعتوں کے رہنما تحریک لبیک یارسول اﷲؐ کے ووٹ بنک پر حسد کرنے لگ گئے تھے۔


لہٰذا یہ پہلی نظربد ہے جس سے قیادت اپنے کارکنوں سمیت نظر بند ہوگئی ہے۔ ماضی میں یہ تینوں تحریکیں ایک ہی حکومت سے ٹکرا رہی تھیں لیکن اب یہ تینوں مختلف راہوں کے مسافر بن چکے ہیں۔ تینوں تحریکوں کے کارکنوں کے مزاج بھی مختلف ہیں اور شوق بھی مختلف ہیں۔ تحریک انصاف کے جلسوں میں ڈی جے نے تحریک کو بہت مشہور کیا جبکہ عوامی تحریک علامہ طاہر القادری کی پرجوش اور مدلل تقریروں سے عوام میں مقبول ہوئی اور تحریک لبیک کو مولوی خادم حسین کی بلا امتیاز گالیوں نے چار چاند لگائے۔ مولوی خادم حسین رضوی سے اختلاف کرنے والے بھی بے شمار ہیں اور ان سے پیار کرنے والے بھی لاکھوں میں ہیں لیکن یہ بات ہر کوئی تسلیم کرتا ہے کہ مولوی خادم حسین رضوی کسی کا لحاظ کئے بغیر گالیاں دیتے ہیں شاید اسی وجہ سے آج وہ نظر بندی اور ’’بدنظری‘‘ کا شکار ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف نے اپنے پہلے سو دن میں پنجاب کے دو بڑے خادمین کو گرفتار کرکے بھی بڑا نام کمایا ہے۔ پہلے خادمِ اعلیٰ کو نیب نے حراست میں لیا اور پھر خادم رضوی کو نظر بند کر دیا گیا۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پی ٹی آئی کی حکومت پاکستانی ’’خادمین‘‘ سمیت خادمین حرمین شریفین پر بھی بھاری ثابت ہوئی ہے۔ سعودی عرب میں خادمین حرمین شریفین کی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند ہوچکا ہے۔
مولوی خادم حسین رضوی کے پیروکاروں کا دعویٰ ہے کہ ہماری قیادت نظربند نہیں ہے بلکہ نظربند تو پی ٹی آئی کی حکومت ہے جسے اچھے اور برے کے درمیان تمیز کرنا ہی بھول گیا ہے۔ آنے والے چند ماہ یہ ثابت کردیں گے پی ٹی آئی کی حکومت نظربندی کا شکار تھی جسے نہ تو غریبوں پر مہنگائی کے پہاڑ ٹوٹتے ہوئے نظر آئے اور نہ ہی لاکھوں لوگ بیروزگار ہوتے ہوئے دیکھے گئے ۔ نظربند کون ہے؟ یہ وقت ثابت کرے گا۔

شمشاد مانگٹ
Latest posts by شمشاد مانگٹ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شمشاد مانگٹ

شمشاد مانگٹ گذشہ 25برس سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ساتھ منسلک ہیں۔اس وقت بطور گروپ ایڈیٹر روزنامہ جناح اور آن لائن نیوز ایجنسی کے ساتھ کام کر رہے ہیں

shamshad-mangat has 105 posts and counting.See all posts by shamshad-mangat