بھارتی آرمی چیف کی کھلی مداخلت پر پاکستان خاموش کیوں؟


پاکستان اور بھارت کے علاوہ دنیا کے دوسرے ملکوں میں رہنے والے سکھوں نے ضرور پاکستان کی طرف سے کرتار پور راہداری پر کام کے آغاز کا خیر مقدم کیا ہے۔ لیکن بھارتی حکومت نے اس پاکستانی پیشکش کو با امر مجبوری قبول کیا ہے تاکہ آئندہ برس انتخابات کے سال میں ملک کی ایک اہم اقلیت کو غیر ضروری طور پر ناراض نہ کیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی بھارتی وزیر خارجہ نے یہ واضح کیا ہے کہ یہ راہداری ایک مذہبی معاملہ ہے، اس کا دونوں ملکوں کے تعلقات سے کوئی لینا دینا نہیں۔

سشما سوراج کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان اس وقت تک مذاکرات شروع نہیں ہو سکتے جب تک پاکستان دہشت گرد گروہوں کی سرپرستی سے دست کش نہیں ہوتا۔ سشما سوراج نے پاکستانی وزیر خارجہ کی ذاتی دعوت کے باوجود راہداری کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں شریک ہونا مناسب نہیں سمجھا تھا۔ اس کے علاوہ اب نئی دہلی سے یہ بیان بھی دیا جا رہا ہے کہ اس تقریب میں بھارتی حکومت کے جو دو سکھ وزیر شامل ہوئے تھے وہ ذاتی حیثیت میں شریک تھے۔ گویا بھارتی حکومت نے سرکاری طور پر اپنا کوئی نمائندہ نہیں بھیجا تھا۔ یہ مؤقف شاہ محمود قریشی کے بھارت کے لئے خیر مقدمی کلمات سے برعکس ہے۔

جنرل بپن راوت نے اس بھارتی مؤقف کو دو آتشہ کرکے بیان کیا ہے جس سے اس کی سنگینی اور اشتعال میں اضافہ ہوگیا ہے۔ انہوں نے بھی بنیادی طور پر یہی کہا ہے کہ بھارتی حکومت کا دو ٹوک مؤقف ہے کہ پاکستان کے ساتھ اس وقت تک بات چیت نہیں ہو گی جب تک وہ دہشت گردوں کی سرپرستی ترک نہ کردے۔ تاہم اس بیان میں زور اور شدت پیدا کرنے کے لئے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے پاکستان کو یہ مشورہ دینا بھی ضروری سمجھا ہے کہ پاکستان کو بھارت کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لئے ایک خاص ریاستی بندوبست اختیار کرنا پڑے گا۔

یہ مؤقف یا مطالبہ کسی انتہاپسند مذہبی گروہ یا افراد کے خلاف کارروائی کرنے کے مطالبہ سے زیادہ سنگین اور خطرناک ہے۔ اس طرح پاکستان کے معاملات میں براہ راست مداخلت کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن ملک کے تجربہ کار وزیر خارجہ، ہوشیار فوج اور دیگر سیاسی عناصر کی جانب سے اس رویہ کو مسترد کرنے کے لئے کوئی واضح بیان سامنے نہیں آیا ہے جو ناقابل فہم ہے۔ اس خاموشی یا نرم گوئی سے بھارتی فوجی سربراہ کی اشتعال انگیزی اور ترش نوائی میں اضافہ ہو سکتا ہے جو دونوں ملکوں نے تعلقات کے حوالہ سے خطرناک ہوگا۔

تحریک انصاف کی حکومت انتظامی معاملات کے علاوہ اقتصادی فیصلوں میں ابھی تک کوئی واضح حکمت عملی سامنے لانے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ خارجہ پالیسی کے حوالہ سے بھی صورت حال مختلف نہیں۔ اس کی بجائے وزیر اعظم اور ان کے وزرا کے پرجوش اور دھمکی آمیز بیانات نے ایک طرف ملک کی بیوروکریسی پر خوف کے سائے گہرے کیے ہیں اور وہ بے عملی کا شکار ہے تو دوسری طرف سرمایہ دار اس طرف کا رخ کرنے سے کترا رہا ہے۔ کسی بھی ملک میں سرمایہ کاری کے فروغ کے لئے پرسکون ماحول اور حکومت کا مفاہمانہ طرز عمل ضروری ہوتا ہے۔

تحریک انصاف فوج کے ساتھ مفاہمت پیدا کرنے اور ایک پیج پر ہونے کے دعوے کرنے کے بعد یہ سمجھ رہی ہے کہ اسے کسی بھی قسم کا کوئی بھی دعویٰ کرنے کا اختیار نامہ مل گیا ہے۔ اب کرتار پور راہداری کے حوالے سے بھارت کے ساتھ مفاہمت اور دوستی کی پیش رفت کے اعلانات سے بھی حکومت کا یہی رویہ ظاہر ہوتا ہے۔ لیکن دو ملکوں کے تعلقات یک طرفہ خیر سگالی سے ہموار نہیں ہوسکتے۔ بھارت اگر مسلسل پاکستان کی دعوت کو مسترد کررہا ہے تو پاکستان کو بھی اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنا پڑے گی۔ جنرل بپن راوت کی اشتعال انگیزی کو نظر انداز کرکے اسلام آباد، نئی دہلی کو پاکستان کی صلاحیت اور عزم کے بارے میں غلط سگنل دے رہا ہے۔

اس وقت ملک کی سول حکومت ریاستی اداروں کے طے کردہ ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ کرتار پور راہداری کا سنگ بنیاد بھی آرمی چیف کی خواہش اور اعلان کی تکمیل ہے۔ اس میں عمران خان یا ان کی حکومت کی خارجہ پالیسی کا کوئی کارنامہ شامل نہیں ہے۔ حکومت البتہ فوج کے فیصلے کو عملی جامہ پہنا کر اس کا کریڈٹ لینا چاہ رہی ہے۔ جولائی 2018 کے انتخابات میں جو حکومتی انتظام استوار کیا گیا ہے اس میں ریاستی ادارے تحریک انصاف کے ذریعے ملکی معاملات چلا رہے ہیں۔

اسی لئے حکومت کی پالیسیاں اور طرز عمل کسی فوجی آمریت کی ہو بہو تصویر ہیں۔ پاکستان کی تمام فوجی حکومتیں بھارت کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے لئے ہاتھ پاؤں مارتی رہی تھیں۔ اب عمران خان کی حکومت بھی یہی کام کررہی ہے۔ کیوں کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کمان سنبھالنے کے بعد سے بھارت کے ساتھ مصالحت ہی کی بات کی ہے۔ البتہ مستعار ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے حکومت کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ اس کا انجام کیا ہو گا۔

ملک کی سلامتی، خارجہ اور معاشی پالیسیوں میں بنیادی فکری تبدیلیاں کیے بغیر کسی راہداری کے کھولنے یا سیاسی لیڈروں کے خلاف کارروائی کرنے سے ملک کی حالت نہیں سدھر سکتی۔ عمران خان کو جلد یا بدیر یہ بات سمجھنا ہوگی کہ پالیسیاں مستعار دینے والے ان کی ناکامیوں کی ذمہ داری قبول نہیں کریں گے۔ اس کا بار بہر حال منتخب حکومت کو ہی اٹھانا پڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali