ہجر کرتے یا کوئی وصل گزارا کرتے


\"zeffer05\"وہ پی این ایس شفا اسپتال، کراچی میں ملازمت کرتی تھی۔ ان دنوں اپنی بہن کے یہاں چھٹیاں منانے راول پنڈی آئی، تو ہمارا جوڑ ملا دیا گیا۔ جھٹ منگنی کی ایک وجہ یہ بھی ٹھیری، کہ کچھ روز بعد میری چھوٹی خالہ کو امریکا منتقل ہونا تھا۔ منگنی کے اگلی ہی شام فون پہ بات چیت کا سلسلہ ہوا؛ چھٹیاں‌ ختم ہوئیں، تو وہ کراچی چلی گئی۔

میں نے پہلا ہوائی سفر کیا، اور شہر نگاراں پہنچ گیا۔ وہاں میرے ایک دوست حسن نے ٹیلے ویژن مارکیٹنگ کے کاروبار کی شروعات کیں تھیں؛ فلیٹ کے دو کمروں میں سے ایک اس کا دفتر، اور دوسرا ہمارے بیڈ روم کے طور پہ استعمال ہوتا۔ زم زمہ کمرشل سے پی این ایس شفا اسپتال زیادہ دور نہیں ہے؛ ایک سڑک اسپتال اور لڑکیوں کے ہاسٹل کو بیچوں‌ بیچ کاٹتی ہوئی کینٹ اسٹیشن کو چلی جاتی ہے۔ ہاسٹل میں ملاقاتیوں کے اوقات شام تین سے سات بجے تک مقرر تھے؛ میں پونے تین بجے وہاں پہنچ جایا کرتا؛ اور جب تک چوکی دار آ کے یہ نہ کہتا، \’ملاقات کا وقت ختم ہو گیا ہے۔\’ ہم دونوں بیٹھے باتیں کرتے رہتے۔ کیا باتیں تھیں، جو ختم نہ ہوتیں، لیکن وقت ختم ہو جایا کرتا تھا؛ سبھی بتانا تو مشکل ہیں؛ اس لیے کہ سب باتیں مجھے یاد نہیں ہیں؛ لیکن ہاسٹل کے لان میں ایستادہ شجر، اور ان میں بسیرا کیے پرندوں کی پیار بھری چہکار نہیں بھولتی۔

راتوں کو جاگنا؛ صبح کو سونا؛ دپہر کو اٹھنا؛ اور محبوب کے در پہ حاضری دینا؛ کراچی میں یہی معمول تھا۔ عموماً یہ ہوتا، کہ واپسی پر حسن مجھے لینے آ جایا کرتا؛ ایک دن اس نے پوچھ ہی لیا؛ \’تم کیا باتیں کرتے ہو؟\’۔۔ یہ اس شام کا واقعہ ہے، جس شام میں اپنی منگیتر کو لوک داستانوں کا فلسفہ سمجھا رہا تھا؛ کہ کیسے ایک باغی زمانے کی رِیت توڑ کر، تھل دریا یا صحرا پار کرتا ہے، اور منزلِ مراد کو پالیتا ہے؛ میں سمجھانا یہ چاہتا تھا، کہ ہر لوک کہانی میں یہ جو تھل، دریا، یا صحرا آتا ہے، یہ علامت ہے روایت کی۔۔۔ عاشق ہو یا انقلابی، وہ اس حد کو پھلانگ جاتا ہے؛ اور یہ کہ اس رکاوٹ کو محض یقین کے سہارے ہی پار کیا جا سکتا ہے؛ روایت کے اس پار جا کر زمانے کی طرف لوٹنا، بے یقینی کا استعارہ ہے؛ نیز یہ بھی کہ بے یقینی سوہنی کا کچا گھڑا ہے؛ ڈبو دیتا ہے۔ وغیرہ۔

\"zeffer\"حسن نے میری پوری بات سن کر پوچھا، \’پھر؟\’۔۔

میں نے اعتراف کیا، کہ میری منگیتر ہونق بنی مجھے تکتی رہی۔

اس نے دو چار گالیاں بکتے کہا، تو اپنی بات کیا کر، یہ کیا فضول بکواس کرتا رہتا ہے؟!

مجھے احساس ہوا، میں واقعی جھک مار رہا تھا۔

ایک دن ہاسٹل سے لوٹتے میں چہکا، \’یار کراچی کی شامیں بہت دل کش ہوتی ہیں۔\’ حسن نے برجستہ کہا، \’ہاں! تین سے سات تک۔\’۔۔۔ ہم دونوں بڑی دیر تک ہنستے رہے۔

اگرچہ اس داستان کو بیتے زمانہ گزرا؛ لیکن میں آج بھی پی این ایس شفا اور گرلز ہاسٹل کو بیچ میں سے کاٹتی اس سڑک سے گزروں، جو کینٹ اسٹیشن کو جاتی ہے، تو لگتا ہے، وہ یہیں ہے۔۔۔ یہیں۔۔ اسی ہاسٹل کی اونچی دیواروں کے پیچھے؛ جہاں بلند درختوں کی ٹہنیوں پہ بیٹھے پنچھی، محبت کے گیت گاتے ہیں؛ جہاں کبھی میں اس کے ساتھ بیٹھا، ڈھیروں باتیں کیا کرتا تھا؛ ایسے میں وہ حسین شامیں بڑی شدت سے یاد آتی ہیں۔

خدا جانے میں ایسا کیوں سوچتا ہوں!۔۔۔ حال یہ ہے کہ ہم ساتھ ہیں؛ میری وہی منگیتر، اب میری بیوی ہے۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments