اصلاحات کمیشن کا سربراہ کسی سیاستدان کو بنائیے ورنہ…


نوجوان شوکت علی یوسف زئی نے اگر ایسا کہا ہے تو غلط کہا ہے! خلاق عالم کا ایک نظام ہے۔ اس نظام میں مداخلت کی کوشش ہمیشہ ناکام ثابت ہوتی ہے۔ بڑ ہانکنا متین لوگوں کو زیب نہیں دیتا۔ اگر وہ متین ہوں تو۔ جنرل ضیاء الحق کا اقتدار پاکستان کے اطراف و اکناف پر یوں چھایا ہوا تھا جیسے سیاہ گھٹائیں برسات میں افق سے افق تک چھا جاتی ہیں۔

محسن کاکوروی نے کیا زندہ جاوید اشعار کہے ؎ سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل برق کے کا ندھے پہ لاتی ہے صبا گنگا جل آتش گل کا دھواں بام فلک پر پہنچا جم گیا منزل خورشید کی چھت میں کاجل مگر رت ایک سی نہیں رہتی۔ ساون بیت جاتا ہے۔ گھٹائیں اپنی راہ لیتی ہیں۔ مطلع صاف ہو جاتا ہے۔ یوں جیسے بادل کبھی آئے ہی نہیں تھے۔ پھر سورج اقتدار سنبھال لیتا ہے۔ دھوپ کوڑے برساتی ہے۔

کوئی سوچ سکتا تھا کہ جنرل ضیاء الحق کا اقتدار ختم ہو جائے گا۔ گردش دہر مداخلت نہ کرتی تو جنرل صاحب جنوبی ایشیا میں حافظ الاسد کا ریکارڈ توڑ ڈالتے۔ یہ اجلاس وزارت خزانہ میں تھا۔ کوئی بات ہوئی جس پر جنرل صاحب نے تنک کر کہا۔ ’’میں جانے والا نہیں‘‘۔ ابر پارے ہنسے۔ ہنسی افلاک تک گئی۔ فرشتے کانپ اٹھے۔ خلق الانسان ضعیفا۔

انسان کی تخلیق ہی میں بے چارگی شامل ہے۔ پیدائش بے بسی کا نمونہ! کہ بول وبراز میں لپٹا رہے تو کچھ نہیں کرسکتا۔ موت عقاب کی طرح جھپٹتی ہے اور اچک کر لے جاتی ہے۔ کالی قبر تے گھپ اندھیرا اے جتھے کیڑے مکوڑیاں دا ڈیرا اے ایہہ کلمہ نور سویرا اے پڑھ لا الٰہ الا اللہ اس سے پہلے یہی غلطی بھٹو صاحب سے صادر ہوئی۔ اسمبلی میں کہا! یہ کرسی بہت مضبوط ہے۔ پھر کرسی بچی نہ کرسی نشین۔ بساط الٹ گئی۔

مولوی مشتاق کی کیا طاقت تھی اور یحییٰ بختیار کا کیا قصور۔ یہ تو ہمیشگی کا دعویٰ تھا جولے بیٹھا۔ شرق اوسط کے طاقت ور ترین شاہ زادے نے یہی غطی چند ماہ پیشتر کی ہے۔ بحر اوقیانوس‘ جسے انگریز تالاب (Pond) بھی کہہ دیتے ہیں‘ کے اس پار‘ امریکہ کی سرزمین پر رومال پوش شہزادے نے دعویٰ کیا کہ پچاس برس تک حکومت کرے گا۔ اور یہ کہ صرف موت روک سکتی ہے۔ خدا اسے سلامت رکھے‘ خاشقجی والے سانحہ کے بعد اس کا اقتدار خزاں کے زرد پتے کی طرح کانپ رہا ہے۔

حافظ ظہور کہہ گئے ؎ کسی کوکیا خبر کیا کچھ چھپا ہے پردہ شب میں نہیں قدرت کے اسرار نہاں کا رازداں کوئی دعویٰ؟ نہیں۔ دعویٰ نہیں کرنا چاہیے‘ دعویٰ کرنا اسی کو زیب دیتا ہے جو مستقبل کا مالک ہے‘ زمین جس کی مٹھی میں ہو گی اور آسمان جس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔

کس تکبر سے پرویز رشید نے دعویٰ کیا تھا کہ عمران خان کو وزارت عظمیٰ کی شیروانی کا بٹن بھی نہیں ملے گا۔ شوکت علی یوسف زئی نے ایسا کہا ہے تو اچھا نہیں کیا۔ یوسف زئی قبیلہ کے افراد سولہویں صدی عیسوی کے دوران سوات میں وارد ہوئے۔ اپنے گھر میں عجز و انکسار ہی اچھا لگتا ہے۔ شانگلہ میں شوکت یوسف زئی نے یہ کیا کہہ دیا‘ کہ اگلے بیس سال تک ہم ہی حکومتیں بنائیں گے۔

تحریک انصاف کا وزیر بھول گیا کہ مریم نواز سے لے کر مریم اورنگزیب تک ہر کوئی مدعی تھا کہ 2018ء میں نوازشریف کو آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ پھر کیا ہوا؟ بیس سال تک آپ حکومتیں بنائیے مگر یہ بھی تو دیکھئے کہ کھاد کون سی ڈال رہے ہیں کہ حکومتیں اگیں اور آپ کھلیان سے حکومتیں بوریوں میں بھر کر گھروں کے گوداموں میں لے جائیں؟

یہ جو کہا گیا ہے کہ بیوروکریسی میں اصلاحات کے بارے میں نو سو سول سرونٹس سے مشاورت کی گئی ہے۔ تو ذرا قوم کو بتائیے کہ یہ نو سو سول سرونٹس کس کس گروپ سے ہیں‘ کس کس سطح کے ہیں اور کہاں کہاں کام کر رہے ہیں؟

یادش بخیر‘ نوکرشاہی کے سدا بہار نمائندے معین افضل صاحب پے (Pay) کمیشن کے چیئرمین بنتے تھے۔ اجلاسوں پر اجلاس ہوتے۔ پھر کمیشن کے ارکان لاہور طلب کئے جاتے۔ پھر کراچی‘ آخر میں وہی ڈھاک کے تین پات۔ سرکاری ملازموں کی جھولی میں پانچ دس فیصد سے زیادہ شاید ہی اضافے کا جھونگا پڑا ہو۔ یہی کام اب ڈاکٹر عشرت حسین کر رہے ہوں گے۔

وزیراعظم ان سے یہ تو پوچھتے کہ جنرل مشرف کے زمانے میں بھی اصلاحات کی ذمہ داری انہوں نے اٹھائی تھی‘ اس کا کیا بنا؟ عمران خان جاہ طلب افراد سے بچیں۔ بیوروکریسی میں اصلاحات کا عزم مخلص ہے تو صرف ایک گروہ کے ہاتھ یرغمال نہ بنیں۔ ڈاکٹر عشرت حسین سابق بیوروکریٹ ہیں۔ بیوروکریٹ رستم بھی بن جائے تو بہا در نہیں ہو سکتا۔ بہادری سے مراد سہراب کو پچھاڑنا نہیں ‘طرز کہن سے نکلنا ہے۔

تبدیلی لانا اس کے خمیر میں نہیں ہوتا۔ اس کی تربیت نظائر اور سوابق (Precedents) کی اتباع کرنے کی ہوتی ہے۔ پہلے کیا ہوتا رہا؟ وہ اس سے مشکل ہی سے ہٹتا ہے۔ ڈاکٹر عشرت حسین سے لے کر شفقت محمود اور اعظم خان تک سب لکیر کے فقیر ثابت ہوں گے۔ تعمیل ارشاد کی نفسیات ان میں پختہ ہے۔ قابلیت اور شے ہے۔ PragMatic ہونا اور شے ؎ آئین نو سے ڈرنا ‘طرز کہن پہ اڑنا منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں برامکہ عباسیوں کے بیوروکریٹ تھے۔

جعفر برمکی کی لیاقت کا یہ عالم تھا کہ فائلوں پر اس کے لکھے ہوئے نوٹ (توقیعات) بازاروں میں فروخت ہوتے تھے اور ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے تھے۔ ایک بار دن میں کئی سو احکام لکھے۔ کوئی لفظ کسی توقیع میں دوسری بار نہ آنے دیا۔ تاہم پالیسیاں خلفا کی چلتی تھیں۔ برامکہ نے زیادہ زور پکڑا تو کچل دیئے گئے۔بیچارے مرثیوں کا موضوع بن گئے۔

اکبر کے نورتن کیا تھے؟ بیوروکریٹ ہی تو تھے۔ فیضی اور اس کے بھائی ابوالفضل سے زیادہ اس عہد میں کون زیادہ عالم فاضل تھا؟ بغیر نقطوں کے تفسیر لکھ ڈالی۔ عالی دماغ تھے‘ تاریخ‘ فلسفے‘ طب‘ منطق‘ ادبیات کے چمکتے ہیرے۔ نظم اور نثر میں اوج کمال پر دمکتے موتی۔ مگر فیصلے بادشاہ کے اپنے تھے۔

کیا نوکرشاہی میں یہ ہمت تھی کہ تورانی سرداروں کے بجائے مقامی راجپوت سرداروں پر انحصار کی رائے دیتے؟ یہ تو شاہ ایران‘ طہماسپ نے ہمایوں کو کہا تھا کہ اقتدار دوبارہ مل گیا تو وسط ایشیا اور ایران و افغانستان سے ساتھ آئے ہوئے سرداروں کے بجائے مقامی طاقتوں پر انحصار کرنا۔ ہمایوں کو وقت نہ ملا۔ اکبر نے اس باکمال تصور کو عملی جامہ پہنایا تبھی تو پچاس برس تک پھریرا اس کا لہراتا رہا۔

یہ بیوروکریسی ہی تو تھی جس نے جہانگیر اور عثمانی خلیفہ کو پریس (چھاپہ خانہ) قبول نہ کرنے کا مشورہ دیا۔ علم کی دوڑ میں دونوں سلطنتیں کوسوں پیچھے رہ گئیں۔ کلرک گریڈ دس کا ہویا بائیس کا کلرک ہی رہتا ہے۔ یہ عوامی نمائندے ہوتے ہیں جو عوامی امنگوں سے واقف ہوتے ہیں۔ ہاں‘ مخلص نہ ہوں تو اور بات ہے۔

اگر کوئی سننے والا ہے تو سنے اور وزیراعظم عمران خان کو قائل کرے کہ بیوروکریسی اصلاحات کمیشن کا سربراہ کسی اعلیٰ تعلیم یافتہ سیاست دان کو بنائے جو فیصلے کرنے میں‘ تبدیلی لانے میں جرأت دکھائے۔ ورنہ وہی ہوتا رہے گا جو لدھیانے میں ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے ؎ ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں مانو نہ مانو جان جہاں! اختیار ہے .

بشکریہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).