چینی کونسلیٹ پر حملہ اور کرتار پور راہداری


کرتار پور راہداری کا معاملہ واضح طور پر لگ رہا تھا کہ یہ ہونا ہی ہے۔ اسی دوران کراچی میں چینی کونسلیٹ پر حملے نے یہ بھی واضح کر دیا کہ دوسری طرف کیا گل کھلانے کی مزید تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ ان دونوں واقعات کے لئے وقت کا تعین کوئی اتفاقی امر نہیں ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے اور بلوچستان میں شورش پسند اس کو چھپاتے بھی نہیں تھے۔ ان کی توقعات کا محور بھارت ہے۔ اس لئے جب 15 اگست کی تقریر میں نریندر مودی نے بلوچستان کا ذکر کیا تو یہ طبقہ خوشی سے نہال ہو گیا۔

دوسرے لفظوں میں یہ بھارت کی حکمت عملی کو جو پاکستان میں وہ روا رکھنا چاہتا ہے کو آگے بڑھانے کے لئے تیار نظر آتے ہیں۔ اسلم اچھو گذشتہ تقریباً ایک عشرے سے کچھ کم سے بلوچستان میں تشدد کے واقعات میں ملوث رہا ہے۔ کوئٹہ سبی اور قلات میں یہ بہت زیادہ متحرک رہا اور اس نے پاکستان میں رہائش کے دوران اور جب سے یہ قندھار میں 2012 ؁ء سے رہائش پذیر ہے اس کے باوجود اپنے زیر اثر علاقوں میں جہاں اس کا حامی بی ایل اے کا گروپ موجود ہے یہ آتا جاتا رہتا ہے۔

اسی لئے ایک ریاستی کارروائی میں اس کے تین ساتھی موقع پر ہلاک ہو گئے۔ لیکن یہ فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ قائد ریزیڈنسی پر حملے، مروار میں ایف سی کے جوانوں کی شہادت، مچھ میں مسافروں کی شہادت اور مروار کے کانوں کے مالکان سے بھتہ وصول کرنے سے لے کر چاغی میں چینیوں پر خود کش حملہ کروانے تک، جو اس نے اپنے سگے بیٹے سے کروایا تھا بد امنی کی متعدد واقعات میں اسلم اچھو کا گروپ ہی ملوث رہا۔ جبکہ اس کو قندھار میں پولیس کا سربراہ عبدالرازق تمام وسائل فراہم کرتا تھا۔

عبدالرازق اکتوبر میں افغانستان میں ہی قتل ہو گیا تھا۔ عبدالرازق نے اس کا رابطہ راء سے کروایا جہاں وہ نوید مری اور سارنگ خان جو خود تاجک النسل ہیں کو بھی اس کے ساتھ ہی وسائل فراہم کرتا تھا۔ اسلم اچھو اور سارنگ خان نے مشترکہ طور پر 2016 ؁ء میں انڈیا کا دورہ بھی کیا اور میر حیر بیار مری سے ہٹ کر اپنی شناخت بھارتی انٹیلی جنس حلقوں میں قائم کرنے کا اقدام کیا۔ یہ تمام اقدامات قندھار کے پولیس چیف عبدالرازق کے تجویز کردہ تھے اور مالی وسائل بھی وہی فراہم کر رہا تھا۔

اس نے ہی ان دونوں کا رابطہ داعش اور پاکستان میں کام کرنے والی کالعدم مذہبی تنظیموں سے کروایا۔ اس تمام پس منظر کے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اسلم اچھو کے اقدامات کو کسی شورش پسند کے صرف اپنے ذہن کی پیداوار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بلکہ اس کے ذریعہ اس نے اپنی جداگانہ حیثیت بھارتی حلقوں میں ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور بھارت اس کی اس خواہش کو جانتے ہوئے مزید ہولناک اقدامات کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہو گا۔

اور اس کا حالیہ نشانہ چین کے لئے اپنے باشندوں کی حفاظت کے معاملات کو سنگین حالت میں دیکھنا ہے۔ کرتار پور راہداری کے سنگ بنیاد سے کچھ پہلے ایسے اقدامات سے پاکستان کو مزید چوکنا ہو جانا چاہیے کیونکہ بھارت ایک حکمت عملی کے تحت بلوچستان میں بد امنی کو ہوا دے گا اور کرتار پور راہداری سے جڑے مشرقی پنجاب میں پھیلتی بے چینی کو پاکستان کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کرے گا۔ وہاں بڑے پیمانے پر پکڑ دھکڑ اس سے قبل سے ہی جاری ہے۔

انہی کالموں میں کچھ عرصہ قبل راقم نے تحریر کیا تھا کہ خالصتان تحریک کا دوبارہ احیاء ہو رہا ہے۔ امریکہ میں قائم سکھ فار جسٹس تنظیم نے خالصتان کے قیام کے حوالے سے 2020 ؁ء میں ایک ریفرنڈم کے انعقاد کا اعلان کر رکھا ہے اور اس حوالے سے وہ بہت متحرک بھی ہے۔ اس تنظیم میں کرتار پور راہداری کے کھلنے کے موقع پر اعلان کیا ہے کہ وہ ریفرنڈم 2020 ؁ء کے حوالے سے اگلے سال 2019 ؁ء میں کرتار پور میں ایک کنونشن کریں گے اور دس ہزار مندوبین کا خرچہ تو خود اٹھائیں گے۔

بھارت اس پر شور شرابہ مچائے گا۔ کیونکہ جب اس تنظیم نے اسی سال برطانیہ میں اس ریفرنڈم کے حق میں ریلی نکالنے کا اعلان کیا تو بھارت نے بہت زور لگایا کہ برطانیہ اس ریلی پر پابندی عائد کردے۔ مگر برطانیہ نے بیان جاری کیا کہ ہمارے ملک میں اظہار رائے کی مکمل آزادی ہے۔ اس لئے ہم اس کو نہیں روک سکتے۔ پاکستان کو بھی اس حوالے سے ایسا ہی مؤقف اختیار کرنا ہو گا۔ مگر خیال رہے کہ ایسا کوئی اقدام اس طرح نہ محسوس ہو کہ پاکستان اس کی سرپرستی کر رہا ہے۔

کیونکہ اس کے اثرات منفی ہوں گے۔ پھر دنیا میں یہ تاثر عام ہے کہ کرتار پور راہداری کا حقیقی فائدہ پاکستان میں موجود ایک اور اقلیت کو پہنچانے کی غرض سے اقدام ہے۔ جو کچھ بھی ہے وہ بالکل واضح ہونا چاہیے کیونکہ بعد میں بھارت کو یہ موقع نہیں ملنا چاہیے کہ وہ سکھوں کو یہ کہہ سکے کہ آپ کے کندھے پر رکھ کر صرف بندوق چلائی گئی ہے۔ حالانکہ مقصد کچھ اور تھا کرتار پور راہداری کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان کو یونین بنانے کی بات کرنے سے اجتناب برتنا چاہیے تھا۔

اور یہ کہنے سے بھی اجتناب رکھنا چاہیے تھا کہ ہمارے پاس دوستی کے علاوہ اور کیا آپشن ہے۔ ایک دوسرا آپشن بھی موجود ہے اور وہ ہے صورتحال کو جوں کا توں رکھنے کا۔ اور بھارت گذشتہ 71 برس سے یہی آپشن استعمال بھی کر رہا ہے۔ بہتر ہو گا کہ آئندہ عمران خان خارجہ امور پر صرف تحریر شدہ تقریر پڑھیں تا کہ اس نوعیت کی غلطیوں سے محفوظ رہا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).