اور آنا گھر میں مرغیوں کا


افتاد طبع کے اعتبار سے میں گوشہ نشین واقع ہوا ہوں۔ اور اگر یہ مرغیاں نہ ہوتیں تو محلے میں مجھے کوئی نہ جانتا۔ ان دنوں ”ڈربے والا مکان“ اس علاقے میں ایک روشن مینار کی حیثیت رکھتا تھا جس کے حوالے سے ہمسائے اپنی گمنام کوٹھیوں کا پتہ بتاتے تھے۔ انھی کے توسل سے ہمسایوں سے تعارف اور تعلق ہوا۔ اور انھی کی بدولت بہت سی دور رس اور دیرپا رنجشوں کی بنیاد پڑی۔ شمعون صاحب سے اس لیے عداوت ہوئی کہ میری مرغی ان کی گلاب کی پود کھا گئی اور ہارون صاحب سے اس واسطے بگاڑ ہوا کہ ان کا کتا اس مرغی کو کھا گیا۔ دونوں مجھی سے خفا تھے۔ حالانکہ منطقی اور انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ دونوں حضرات اس قضیے کو آپس میں بالا ہی بالا طے کرلیتے۔

جس دن خلیل منزل والے ایک قوی ہیکل ”لائٹ سسیکس“ مرغ کہیں سے لے آئے تو ہمارے ڈربوں میں گویا ہلچل سی مچ گئی۔ جب وہ گردن پھلا کر اذان دیتا تو مرغیاں تڑپ کر ہی رہ جاتیں۔ خود خلیل صاحب اسے دیکھ کر پھولے نہ سماتے۔ حالانکہ میری ناقص رائے میں کسی مرغ کو دیکھ کر اس قدر خوش ہونے کا حق صرف مرغیوں کو پہنچتا ہے۔ میں تو اسی وجہ سے اپنے سے بہتر نسل کا جانور پالنے کے سخت خلاف ہوں۔ بہرحال یہ اپنے اپنے ظرف اور ذوق کا سوال ہے، جس سے مجھے فی الحال کوئی سروکار نہیں۔

کہہ یہ رہا تھا جس روز سے اس کا ہمارے یہاں آنا جانا ہوا مجھے اپنے تعلقات خراب ہوتے نظر آئے۔ آخر ایک دن اس نے ہماری بکاؤلی (سیاہ منارکا مرغی) کی آنکھ پھوڑ دی۔ رات بھر اپنی تقریر کا ریہرسل کرنے کے بعد میں دوسرے دن خلیل صاحب کو ڈانٹنے گیا۔ جس وقت میں پہنچا تو وہ اپنی ہتھیلی پر ایک انڈا رکھے حاضرین کو اس طرح اترا اترا کر دکھا رہے تھے جیسے وہ ان کی ذاتی محنت اور صبر کا پھل ہو۔

ملاقات کی روداد درج ذیل ہے۔ :

میں نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا۔ ”میں ڈربے والے مکان میں رہتا ہوں۔“
بولے۔ ”کوئی حرج نہیں۔“

میں نے کہا۔ ”کل آپ کے مرغے نے میری مرغی کی آنکھ پھوڑ دی۔“
فرمایا۔ ”اطلاع کا شکریہ۔ دائیں یا بائیں!“

حافظے پر بہت زور دیا مگر کچھ یاد نہ آیا کہ کون سی تھی۔ ”اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔“ میں نے جھنجھلا کر کہا۔
کہنے لگے۔ ”آپ کے نزدیک دائیں بائیں میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔“

”مگر یہ غلط بات ہے۔“ میں نے اصل واقعہ کی طرف توجہ دلائی۔
”جی ہاں۔ صریحاً غلط بات ہے۔ اس لیے کہ آپ کی مرغی دوغلی ہے اور۔ ۔ ۔“

”اور آپ کا مرغا راج ہنس ہے۔“ میں نے بات کاٹی۔
تڑپ کر بولے۔ ”آپ مجھے برا بھلا کہہ لیجیے۔ مرغ تک کیوں جاتے ہیں! (ذرا دم لے کر) لیکن قبلہ اگر وہ راج ہنس نہیں ہے تو آپ کی مرغی یہاں کیوں آئی۔“

”آخر جانور ہی تو ہے۔ انسان تو نہیں جو منہ باندھے پڑا رہے۔“ میں نے سمجھایا۔
ارشاد ہوا۔ ”آپ اپنی پدمنی کو باندھ کے نہیں رکھ سکتے تو بندہ بھی اس کی چونچ پر غلاف چڑھانے سے رہا۔“
غرض کہ ظلم و زیادتی کے خلاف جب بھی آواز اٹھائی، اسی طرح اپنی رہی سہی اوقات خراب کرائی۔

اگرچہ بارہا رانی کھیت کی وبا آئی اور آن کی آن میں ڈربے کے ڈربے صاف کرگئی، لیکن اللہ کی رحمت سے ہماری مرغیاں ہر دفعہ محفوظ رہیں۔ مگر آئے دن کی رقابتیں اور رنجشیں رانی کھیت سے زیادہ جان لیوا ثابت ہوئیں اور قضیہ رفتہ رفتہ یوں طے ہوا کہ کچھ مرغیاں تو پڑوسیوں کے کتے کھا گئے اور جو ان سے بچ رہیں، ان کو پڑوسی خود کھا گئے۔
اللہ بس باقی ہوس!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3