حمزہ عباسی، امجد صابری: رئیس امروہوی سے معذرت کے ساتھ


محمد ظفراللہ

\"Muhammad اب تو یوں لگتا ہے کہ صدیاں گزریں جب ہم اردو پڑھنے کے لائق تھے، جس زمانے میں ہم اردو پڑھ لیتے تھے اس زمانے میں رئیس امروہوی صاحب کے قطعے جنگ اخبار میں چھپا کرتے تھے۔ ہمیں شعر و ادب سے کچھ ایسی دلچسپی نہیں ہے، بلکہ یوں سمجھ لیں کہ ہم خاصے بے ادب آدمی ہیں۔ لیکن کچھ زبان کی چاشنی اور کچھ حالات حاضرہ پر ان کا شعری تبصرہ ہمیں اکثر ان کے قطعات کی طرف کھینچ لے جاتے تھے۔ ایک قطعہ کچھ ایسا تھا کہ ایک عرصہ حسب حال رہا۔ اس لئے کچھ یاد رہ گیا۔ اب بھی کہ ہمیں اپنا حال بھی بھولا رہتا ہے اس قطعے کے آخری دو مصرعے یاد ہیں:

جس کے سر ہے وہ سر دار ہے موزوں

جس کے گردن ہے وہ گردن زدنی ہے

کچھ تو یہ کہ تواتر سے ایسے حالات پیش آتے رہے ہیں کہ اکثر یہ مصرعے گویا ذہن میں تازہ رہتے ہیں۔ اور کچھ یہ کہ واقعی بڑے شرم کی بات ہے کہ اب ہم پرانی باتوں کو بھولنے لگے ہیں، ہمارا جی چاہتا ہے کہ ہم یہ پورا قطعہ ایک بار پھر دیکھ لیں۔ اگر کسی قاری کو پورا قطعہ یاد ہو یا پتہ ہو کہ کہاں سے مل سکتا ہے تو لللہ رہنمائی فرمائیں۔

اب امجد علی صابری کی شہادت کے بعد تو یہ خیال ذہن میں زور پکڑ گیا کہ ہمارے خطے کی ریت ہی ایسی ہے کہ جو کوئی اپنے گرد وپیش سے ذرا بھی مختلف نظر آیا اس کو کوئی نہ کوئی الزام دے کر یا تو ذلیل کیا جاتا ہے یا مار دیا جاتا ہے۔۔ عام الزام یہ ہوتا ہے کہ اس ناہنجار نے کسی بڑی ہستی کی شان میں گستاخی کی ہے۔ اب آپ جانتے ہیں کہ بہت کم بد نصیب ایسے ہوتے ہیں جو مذہبی شخصیتوں کی شان میں گستاخی کریں۔ خاص طور پہ مسلمانوں میں تو بہت ہی کم کہ قرآن میں آیا ہے کہ کافروں کے بتوں کو بھی برا نہ کہو کہ مبادا وہ جوابا تمہارے خدا کو برا کہیں۔

پاکستان میں ایک زمانے میں ان باتوں کا خیال رکھتے تھے اب  کچھ بد احتیاط ہوگئے ہیں۔ پھر بھی جن بزرگوں کو دنیائے اسلام کے بزرگ مانتے ہیں ان کا کم از کم ظاہری طور پر ہی سہی احترام کرتے ہیں۔ لیکن نعتیں پڑھنے والے، عشق رسولؐ اور عشق علیؓ میں ڈوب کر گانے والے قوال امجد علی پر مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا الزام کچھ جچتا نہیں۔ پر لگ گیا اور وہ غریب مارے گئے۔

جب اس قسم کی صورت حال ہو تو ہم دوسرے عوامل کی طرف دیکھتے ہیں جو ہمیں بہت سے معاملات میں کار فرما نظر آتے ہیں۔ جیسا کہ ہم پاکستانیوں میں جائز و ناجائز طریقوں سے لوگوں کو نیچا دکھانے یا رستے سے ہٹانے کی لت پڑ گئی ہے۔ اور یہ کسی ایک فرقے یا طبقے سے مخصوص نہیں، سبھی کو یہ لت پڑ چکی ہے۔ اب یہ چلن عام ہے کہ اگر لڑکی نے شادی کرنے سے انکار کر دیا یا کوئی ناجائز خواہش پوری کرنے سے انکار کر دیا تو اس کے منہ پر تیزاب پھیک دیا۔ یا اس کے نام سے فیس بک اکاونٹ بنا کر اس اکانٹ میں اناپ شناپ بک دی۔ کسی کو مشہور ہوتے دیکھا تو اس پر بھیانک الزامات لگا دیے۔ استاد نے بچے کو نمبر کم دئے یا اسے مارا تو اس پہ بے جا الزامات لگا دیے۔

اب چونکہ ہمارے پاکستانی علما نے مذہب کے نام پر قتل کو جنت کی کنجی بنا دیا ہے۔ اسی لئے جس کو دیکھو مذہب کا نام لے کر قتل کرنے کو تیار کھڑا ہے۔ یہ صورتحال دیکھ کر اب مولویوں نے ایسے الزامات کا دائرہ وسیع کر دیا ہے جن سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو جنت کی کنجی مل سکے۔

پھر یہ الزام لگا دینا کہ ہتک مذہب کی ہے تو بجائے اس کے کہ طرز عمل کو دیکھنے کے یا اس کی وضاحت کو قبول کرنے کے اس کا قتل کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ حمزہ علی عباسی کے ساتھ بھی تقریباََ یہی معاملہ پیش آیا۔ اس بیچارے نے شاید اپنے پروگرام کی ریٹینگ بڑھانے کے لئے یہ سوال اٹھایا کہ کیا کوئی حکومت کسی کو غیر مسلم قرار دے سکتی ہے؟ اب چونکہ حکومت احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے چکی ہے اور احمدیوں پر گلی گلی محلہ محلہ مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا الزام شد و مد سے لگایا گیا ہے سو اسی لئے ان کی حمایت میں دو لفظ بولنا بھی جرم ہوا۔ ایک مسابقتی ٹی وی اینکر نے ایک مذہبی عالم کو بلایا اور حمزہ علی کے قتل کا فتویٰ لگوا دیا۔ اگرچہ مذہبی فرقے ایک دوسرے پر توہین مذہب کے الزامات لگا چکے ہیں لیکن ان سب کو احمدیوں کے خلاف تشدد کو فروغ دینے کا پورا حق ہے۔

ہم نے بہت غور کیا، مگر حمزہ عباسی کے سوال میں ہمیں کوئی ایسی چیز نظر نہیں آئی جس کے لئے اس پر قتل کا فتویٰ لگ سکتا۔ ایک علمی سوال تھا جو اس نے اٹھایا۔ اس کو فی الفور جواب دو اور ثابت کردو کہ تم غلط کہتے ہو حمزہ عباسی! وہ بھی خاموش ہوجاتا۔ مگر یا تو مذہبی علما علمی موضوعات سے ڈرتے ہیں یا پھر وہی کہ ٹی وی چینلوں کی آپس کی چپقلش یا حسد کی بنیاد پرحمزہ عباسی کو مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا الزام لگا کر راستے سے ہٹانے کا فیصلہ ہو۔ ہمیں لگتا ہے کہ کچھ ایسا ہی معاملہ ان بیچارے امجد علی صابری کے ساتھ ہے۔ کچھ عرصے سے خاصے مشہور اور مقبول ہو رہے تھے۔ کوئی ایک سال ہوا ان پہ بھی مذہبی بنیادوں پر مقدمہ دائر ہوا تھا۔ اور اب ہم ان کی جوان موت پہ ماتم کر رہے ہیں۔ اب تک تو ہم نے حمزہ علی عباسی کو اتنی سنجیدگی سے نہیں لیا تھا مگر اب اس کے لئے فکرمند ہیں۔ اللہ تعالی اس کی حفاظت فرمائے۔

ان حالات کے پیش نظر ہمیں رئیس امروہوی کے قطعے یا اس سے ملتے چلتے قطعے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ جب ہمیں ضرورت ہو تو ہم اکثر اپنی اس ناکارہ کھوپڑی کو کام میں لاتے پائے گئے ہیں سو یہاں بھی ہم نے اپنی کھوپڑی کو اٹھا کر جھاڑا پونچھا، گردن پہ جمایا اور اور رئیس اموہوی سے معذرت کے ساتھ کچھ یوں تک بندی کی:

عقل کو ملائیت نے ہےجب سے پچھاڑا

ارض پاک کی ریت کچھ ایسی بنی ہے

جس کے سر ہے وہ سر دارہے موزوں

جس کے گردن ہے وہ گردن زدنی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments