پاکستان سیکولریا نظریاتی؟


ان اسکولز پر نویں، دسویں، گیارویں، بارہوں اور تیرھویں صدی تک غور وفکر ہوتا رہا۔ 13 ویں صدی میں کہا گیا کہ اب مزید اجتہاد کی ضرورت نہیں، اب صرف ان پانچ اسکولز پر تقلید کرنے کی ضرورت ہے۔ اجتہاد کے دروازے جب بند ہوگئے تو بعد میں بہت سارے مسلم دانشوروں نے کہا کہ اجتہاد کے دروازوں کو دوبارہ کھولا جائے۔ دوبارہ ان پانچ اسکولز پر غور کیاجائے۔ تقلید کرنے والے وہ لوگ ہیں جو مالکی، شافعی، حمبلی اورحنفی آئیدیاز کی تشریح سے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ فقہ میں عبادت اور سماجی معاملات کے نظریات ہیں۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ عبادت کیسے کرنی ہیں، حقوق العباد کیا ہیں؟ فیملی میں بچوں اور بیویوں کا کیسے خیال رکھا جائے۔ اس کے علاوہ فقہ میں شادی، طلاق، وراثت اور خاندانی قوانین کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ ان اسکولز میں سیاسی اور اقتصادی سسٹم کے بارے میں بہت کم لکھا گیا ہے۔ سوال یہ کہ اسلامی سیاسی نظام کیا ہے؟ امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حمبل جیسی عظیم ہستیوں نے سیاسی اسلامی نظام پر بہت کچھ نہیں لکھا۔ سماج کیسے اپنا لیڈر منتخب کرے۔ مدینہ میں چند ہزار انسان رہتے تھے، یہ تمام افراد ناموں سے ایک دوسرے کو جانتے تھے، اختلافات ہوتے تو حل ہوجاتے۔ اس کے بعد جب پوری دنیا میں اسلام تیزی سے پھیلنا شروع ہوا، مکہ مدینہ سے وسیع رقبے پر پھیل گیا تو اس سے بہت بڑی سلطنت وجود میں آئی۔ جب بہت بڑی سلطنت وجود میں آئی تو پھر سیاسی نظام میں تبدیلی آنا شروع ہوگئی۔ 7ویں صدی میں عرب دنیا کو یہ معلوم نہیں تھا کہ کاغذ کیسے بنتا ہے؟ یہ وہ دور تھا جب جدید ذرائع ابلاغ نہیں تھے اور مسلمان دور دور تک پھیلے ہوئے تھے اور ایک دوسرے سے رابطہ ناممکن تھا۔ ایسے دور میں ریاست کی وہ شکل نہیں بن سکتی تھی جو آج ہے۔ اب تو انٹرنیٹ کا دور ہے اور ٹرمپ کی ایک ٹوئیٹ دنیا کے ہر انسان تک پہنچ جاتی ہے اور ایک واویلا مچ جاتا ہے کہ ٹرمپ نے یہ کہہ دیا۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ اور دور تھا اور یہ اور دور ہے۔ آج کے جمہوری تقاضے کچھ اور ہیں جو اس دور میں پیدا نہیں ہوسکتے تھے۔ اس زمانے میں پریس، ذرائع ابلاغ کے وسائل، ریڈیو، ٹی وی اور انٹر نیٹ وغیرہ نہیں تھا اس لئے الیکشن نہیں ہوسکتا تھا۔ یہ جدید دور کی ٹیکنالوجی ہے۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ جمہوریت ایک جدید تصور ہے۔ اس دور میں جب ایک علاقے یا ایک شہر کے لوگ بہت سے لوگوں یا شہروں پر قبضہ کر لیتے تھے تو سلطنت وجود میں آجاتی تھی۔ پھر اس سلطنت میں وراثت اور بادشاہی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا تھا۔ بہت سارے اسلامی اسکالرز کے مطابق اسلام میں وراثت اور بادشاہی نظام کی جیسٹیفیکیشن نہیں ملتی۔ بہت سے مذہبی اسکالرز کے مطابق اسلام بادشاہت کے نظام کے خلاف ہے۔ اسلامی دنیا کی پہلی سلطنت جسے بنو امیہ کہاجاتا ہے جو سو سال تک رہی، اس میں بادشاہت کا نظام نافذ کیا گیا۔ اس کے بعد عباسی خلافت کا دور شروع ہوا تو اس میں بھی بادشاہت کا نظام تھا۔ یہ وہ دور تھا جب امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی وغیرہ لکھ رہے تھے۔ اسی نظام کو بہتر کرنے کی کوشش کی جارہی تھی۔ ان عظیم انسانوں نے جوسیاسی نظام بن گیا تھا، اسی نظام کی بہتری اور اصلاحات کی بات کی۔
اس وقت بادشاہت اور سلطنت تھی۔ آج کی جدید جمہوریت اس دور میں ممکن ہی نہیں تھی۔ جس سیاسی نظام کا زکر حنفی، مالکی، شافعی اور حمبلی اسکولز میں ملتا ہے وہ سیاسی نظام اس دور کا ںظام تھا۔ اب جدید جمہوریت ہے، سرمایہ دارانہ نظام ہے، سائنس کی ترقی ہے جو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ معاشرہ اور سماج بدل چکا ہے۔ جدید پسند لوگ جن میں اقبال اور سرسید خان بھی شامل ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ سائنس نے نامکمن کو ممکن بنادیا ہے جو قدیمی دور میں ممکن نہیں تھی اس لئے جدید روایات کی طرف آنا چاہیئے۔ وہ کہتے ہیں کہ سائنسی بنیادوں پر سیاسی، معاشی اور سماجی نظام میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سائینٹیفک اصولوں کو استعمال کرتے ہوئے سماج کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

اس دور میں ریفرنڈم اور الیکشن نہیں ہوسکتا تھا، اب تو ای الیکشن کا دور ہے۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں جب پرنٹ میڈیا آیا، اخبارات شائع ہونے لگے تو سیاست اور معیشت کے ساتھ ساتھ دنیا کا سماجی ڈھانچہ بھی بدل گیا۔ یورپ میں جو زہنی اور سائنسی ترقی ہوئی اس کی وجہ پرنٹنگ پریس تھا۔ یورپ میں پرنٹنگ پریس تھا اور وہ سائنسی ترقی کرکے آگے بڑھ رہے تھے لیکن عثمانی سلطنت میں تین سوسال تک پریس کا انکار کیا گیا۔ اب تو سیاسی اور معاشی نظام کو ٹیکنالوجی کے ساتھ جوڑیں گے تو ہی بہتری پیدا ہوگی۔ اس لئے جدید پسند لوگوں کا سیاسی تصور یہ ہے کہ ہمیں دوسری تہذیبوں سے بہت کچھ سکھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے سیاسی، سماجی اور معاشی نظام کو سائنس کی چھلنی سے گزاریں اور جس سے ہماری ترقی ممکن ہوسکے۔

اسی طرح معاشی نظام کو دیکھا جائے تو وہ بھی ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ تبدیل ہوتا چلا جارہا ہے۔ بارہ ہزارسال پہلے کے دور میں چلیں جائیں تو اس وقت انسان زراعت سے بھی ناواقف تھا۔ زراعت کا شعبہ بھی دس ہزار سال پہلے کی ایجاد ہے۔ سوچیں کہ دس ہزار سال پہلے انسان یہ تک نہیں جانتا تھا کہ زمین میں بیج کس طرح بونا ہے ؟لہذا اس دور میں سیاسی، سماجی اور معاشی نظام بھی اسی ٹیکنالوجی سے جڑا تھا۔ لوگ خانہ بدوش تھے۔ پھر اس ٹیکنالوجی کی سمجھ آئی کہ بیج کیسے بویا جاتا ہے، زراعت کیا ہے ؟ایسا ہوا تو ایک دم سے معیشت تبدیل ہوگئی، خانہ بدوشی چھوڑ کر لوگ شہر آباد کرنے لگے اور ایک جگہ رہنا شروع کردیا۔
اس سے شہری آبادیاں شروع ہوئی،سماج اور سیاست بدلی۔ انسانی تاریخ میں دوسری بار تبدیلی انڈسٹریل یا سرمایہ دارانہ انقلاب کے نتیجے میں ہوئی۔ اب سرمایہ اور صنعت آگئی، رستے بدل گئے۔ اب زرعی نظام سے مختلف معاشرہ وجود میں آگیا۔ ٹی وی، ریڈیو، اخبار، کمپیوٹر، انٹرنیٹ جیسی ٹیکنالوجی سے دنیا کا حلیہ بدل گیا۔ اب ریاستوں کی حکومتوں کا انداز بدل گیا۔ ریاست اب ریپبلک ہوگئی۔ گلوبلائزیشن کا دور آگیا۔ اب جب فقہ کو پڑھیں گے تو انڈسٹریل اکانومی اور جدید سرمایہ دارانہ نظام کے بارے میں کچھ نہی ملے گا۔ جب جدید سرمایہ دارانہ نظام 16 ویں صدی میں ابھرا تو کیسے نویں صدی میں اس کے بارے میں کچھ لکھا جاسکتا تھا ؟

سرمایہ دارانہ نظام کے اکنامک سسٹم میں فسکل پالیسی، مانیٹری پالیسی، مائیکرو اکنامکس جیسے جدید تصورات ہیں، پورا اقتصادی نظام ہی بدل گیا ہے۔ جبکہ نویں صدی میں جاگیردارانہ نظام تھا جس کا معاشی ڈھانچہ مختلف تھا ؟ایڈم سمتھ کو جدید معاشی نظام کا باپ کہا جاتا ہے۔ اس انسان نے 18 ویں صدی میں اقتصادیات پر کتاب لکھی تھی جس کا نام ہے wealth of nation جبکہ جاگیردارانہ نظام میں اقتصادی نظام کو کوئی علیحدہ شعبے کے طور پر دیکھتا ہی نہیں تھا۔ اب اقتصادی نظام کا ایک مکمل اور سائینٹیفک شعبہ ہے۔ اس سے پہلے معاشی نظام کو اخلاقیات کا ایک چیپٹر سمجھا جاتا تھا۔ فارابی، ارسطو، ابن سینا اور امام ابو حنیفہ کو پڑھیں اخلاقیات کی کتابیں ہی اقتصادی کتابیں ہوتی تھی۔ ایڈم سمتھ کے آنے کے بعد اخلاقیات اور اقتصادیات کا رشتہ علیحدہ ہوا۔ اب معاشی نظام کو اخلاقی نظام سے نہیں دیکھا جاتا۔ اب اقتصادیات کو سائنس کے ذریعے دیکھاجاتا ہے۔ ایڈم اسمتھ نے انڈسٹریل نظام پر برسوں مطالعہ کیا اور پھر بتایا کہ نیا اقتصادی نظام کیا ہے اور اسے کیسے چلنا ہے؟ پانچوں اسکولز میں کیسے جدید اقتصادی نظام کے بارے میں کچھ مل سکتا ہے ؟جدید پسندوں کا خیال ہے کہ معیشت نے خانہ بدوشوں سے زرعی لوگوں تک کا سفر کیا پھر وہ صنعتی دور میں داخل ہوئی، اب سرمایہ دارانہ نظام ہے اور معاشی نظام مکمل تبدیل ہوگیا ہے۔ اس لئے جدیدی سائنسی ٹولز کا استعمال کرکے ہی معاشی نظام پر سوچنے کی ضرورت ہے۔
جس طرح معاشی نظام میں ارتقا آیا اسی طرح قانونی نظام بھی تبدیل ہوتا رہا ہے اسی لئے ہم مسلمانوں کو اسلامی قانون کو بھی تاریخی تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جدید قوانین کا نظام تین سو سال سے یہاں تک پہنچا ہے.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2