فنکاروں کی موت کا مینی فیسٹو


\"Farhan_Jamalvy\"صبر کرو امجد صابری—اِس معاشرے میں فنکاروں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے ، کم ہے۔ خدا جانے فن کار کشی کے اِس مینی فیسٹو پہ کب کب اور کس کس نے دستخط کیے:

  1. سب سے پہلے فن کاروں کو بھانڈ مراسی قرار دے کر اِن کی عزتِ نفس کو کچلنے کی کوشش کی جائے۔ ہر سال فنکاروں کی \”حسین \” کارکردگی پر ایک میڈل اُن کے گلے میں ڈالا جائے جس کو وصول کرنے کے لیے اُنھیں اپنی گردنیں جھکانی پڑیں—خادمِ اعلیٰ کے سامنے۔ تمغے کے ساتھ اُنھیں ایک سرٹیفیکیٹ تھما یا جائے جو فریم کروا کر دیوار پر ٹانگنے کے کام آئے۔ اُن کے ہاتھ میں با عزت طریقے سے کوئی ایوارڈ نہ دیا جائے۔
  1. شعر و ادب کے لیے علیحدہ ایوارڈ؟ فنون لطیفہ کے لیے الگ ایوارڈ؟ فلم کے لیے علیحدہ ایوارڈ ؟ اسپورٹس کے لیے الگ؟ سائنس اور میڈیسن میں ریسرچ اور ایجادات کے لیے علیحدہ؟ ممکن نہیں!
  1. ایوارڈ کے ساتھ خطیر رقم دینے کی بھی کوئی گنجائش نہیں۔ اُن پیسوں سے فنکار اکیڈمی بنا سکتے ہیں اور مزید چیلے تیار کر سکتے ہیں۔
  1. اِس کے باوجود جو فنکار زندہ بچ جائیں ، اُنھیں شہری بھیڑیوں کے آگے ڈال دیا جائے۔ ورنہ گھات لگا کر وہ خود ہی اُن کے دِل، دماغ اور پھیپھڑوں کو گولیوں سے بھون دیں گے ۔
  1. فنکار کی لاش اُٹھانے کا کام ایدھی ، چھیپا جیسی سماجی تنظیموں کو سونپ دیا جائے۔
  1. برسوں پہلے تیار کردہ تعزیتی بیان میڈیا پر جاری کر کے تحقیقاتی کمیٹی کا اعلان کیا جائے اور اپنی توانائیاں توجہ طلب ملکی اُمور پر صرف کی جائیں۔
  1. مقتول فنکار کو سرکاری سطح پر شہید کا لقب عطا نہ کیا جائے ۔ یہ حق صرف سیاستدانوں اور وردی پوش اہل کاروں کے لیے محفوظ ہے۔
  1. قتل ہونے والے فنکار کو توپوں اور بندوقوں کی سلامی میں رخصت کرنے کا کوئی تصور نہیں۔ یہ اعزار بھی سینے پر گولی کھانے والے سپاہیوں اور فوجی جوانوں کے لیے مختص ہے۔
  1. سرکاری سطح پر جنازے ، تدفین اور تعزیتی تقریبات کی کوئی گنجائش پیدا نہیں ہوتی ۔ مقتول فنکار کی تدفین کی ذمہ داری اُس کے عزیز و اقارب، محلے دار وں اور چاہنے والوں پر عائد ہوتی ہے۔ فنکارکی میت سرکاری وین اور قومی پرچم کے بجائے سماجی یا سیاسی تنظیموں کی ایمبولینس میں آخری آرام گا ہ تک لے جائی جائے۔
  1. حکومتی سطح پر فنکاروں کے مزار نہیں بنوائے جا سکتے ۔ مذہب میں مزاروں کی اجازت نہیں۔ سیاست دانوں کی بات مختلف ہے۔
  1. وزیر اعلیٰ ، گورنر اور پولیس چیف کو اجازت نہیں کہ وہ مقتول فنکاروں کے جنازے میں شریک ہو کر قیمتی وقت ضائع کریں یا قیمتی جانوں کو خطرے میں ڈالیں۔
  1. بھارت ، امریکا اور دیگر ممالک کی مثالیں دینے والوں کو چاہیے کہ وہ ہجرت کر کے بیرونِ ملک سکونت اختیار کر لیں۔ یہاں نور جہاں بھی ایسے ہی دفن ہوئی، مہدی حسن بھی اسی طرح لحد میں اُترا۔ یہاں مدر ٹریسا بھی ہوتی تو اسی انداز میں دفنائی جاتی۔ محمد علی کلے ؔہوتا تو گمنامی میں ہی سپرد خاک ہوتا۔ ایک باکسر کے جنازے کو لیاری کی سڑکوں سے مواچھ گوٹھ کے قبرستان تک لے جانے کی اجازت ہوتی، آئی آئی چندریگر رو ڈ یا شاہراہ فیصل پر لانے کی نہیں۔
  1. ہمارےیہاں ڈاک ٹکٹ پر بھانڈ مراسیوں کی تصاویر شائع کرنے کا بھی کوئی تصور نہیں۔ پوسٹیج اسٹیمپ اوربینک نوٹس پر لیڈروں، سیاست دانوں کے چہرے زیب دیتے ہیں، ناچنے گانے والوں کے نہیں۔
  1. تمام کوششوں کے باوجود جو فنکار باز نہ آئیں ، اُن سے نمٹنے کے لیے اِس مینی فیسٹو میں دو سزائیں تجویز کی جارہی ہیں: قیدِ با مشقت اور سزائے موت۔
  1. اِس مینی فیسٹو کو \”بیک ڈیٹ\” یعنی ماضی میں بالخصوص ضیاء کے دور سے نافذ العمل سمجھا جائے۔

 

فرحان جمالوی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

فرحان جمالوی

فرحان جمالوی ایک صحافی، ایوارڈ یافتہ افسانہ نگار اور کراچی فلم اسکول کے بانی ہیں۔ ان سے farhan.jamalvy@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

farhan-jamalvi has 3 posts and counting.See all posts by farhan-jamalvi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments