سو دن پر عمران خان کی لیک ہونے والی تقریر


غریب عوام مجھے افسوس ہے کہ تم غریب اور میرے فین ہی رہو گے۔ میں آپ کو سچ بتانا چاہتا ہوں کہ وزیراعظم بننے سے پہلے میرا خیال تھا کہ میں اس ملک کی حالت بدل کے رکھ دوں گا اور وہ بھی صرف چند دنوں میں۔ لیکن میرا خیال بالکل ہی غلط نکلا۔ اب جب کہ میں وزیر اعظم بن گیا ہوں تو مجھے پتا چلا ہے کہ نہ تو میں چلانے کے قابل ہوں اور نہ ہی یہ عہدہ چھوڑے کو دل مانتا ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا، کیا کریں اور کس کو الزام دیں۔ کوئی روحانی نسخہ بھی اثر نہیں دکھا رہا۔

ہمیں کیا پتا تھا کہ سو دن اتنے تھوڑے ہوتے ہیں اور پل بھر میں گزر جاتے ہیں۔ اتنے تھوڑے دنوں میں تو کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔

اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ میں کپتان ہوں تو جو میں کہوں وہ ہوتا چلا جائے۔ ساری فیلڈ میں سیٹ کروں اور میرے حکم کے بغیر کوئی بالنگ نہ کر سکے۔ لیکن سچی بات بتاتا ہوں ایسا نہیں ہے۔ یہ جو میری ٹیم ہے یہ بھی اتنے ہی نالائق اور لالچی ہیں جتنے وہ پہلے والے تھے جو نواز شریف اور جنرل مشرف کے ساتھ تھے۔ کئی ایک پر تو مجھے شک پڑتا ہے جیسے وہی ہوں۔ انہوں نے اگر کوئی خرچے وغیرہ کیے ہیں تو وہ اب پورے کرنا چاہتے ہیں۔ پہلے تو فرشتوں جیسی باتیں کرتے تھے جیسے انہیں دنیا کا کوئی لالچ ہی نہیں اس لیے کپتان کی سربراہی میں آئے ہیں اور وہ صرف اور صرف پاکستانی عوام کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں لیکن اب یو ٹرن لے کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ جس نے پنجاب میں ایم پی اے وغیرہ پورے کرنے میں ہماری مدد کی وہ چاہتا ہے پردے کے پیچھے پنجاب کا سارا اختیار اس کے پاس ہونا چاہیے۔ وہ جو برطانیہ سے آیا ہے وہ سمجھتا ہے کہ پنجاب کا اصل حکمران وہ ہے۔ اور وہ جو تیسرا ہے وہ یہ سمجھتا ہے کہ میں چونکہ پنجاب کا وزیراعلی رہ چکا ہوں اس لیے اب میرا عہدہ کوئی بھی ہو وزیراعلی کے سارے اختیارات میرے پاس ہی ہونے چاہیے ہیں۔ چوتھا کہتا ہے کہ اگر پنجاب کی اصل حکمرانی میرے پاس نہ ہوئی تو میرا (قبضہ) گروپ ٹوٹ جائے گا اور زمینوں پر قبضوں کی دادا گیری واپس حمزہ شریف کے پاس چلی جائے گی۔

اس سارے کھیل کو چلانے کے لیے وزیراعلی پنجاب بے چارے پر مجھے بڑا ترس آتا ہے اور اسے اعتماد دلانے کے لیے میں ہر تقریر میں اس کا ذکر کر دیتا ہوں کہ غریب آدمی ہے اس کا بھی خیال رکھا کریں۔ لیکن میں کیا کروں یہ چاروں بڑے خرانٹ ہیں۔ جہانگیر ترین، چوہدری سرور، پرویز الہی یا علیم خان میں سے کوئی ایک بھی ناراض ہو گیا تو پنجاب میں ہماری حکومت ختم ہو جائے گی لیکن اگر ہمارا وزیر اعلی چلا بھی گیا تو حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ تو آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ پھر اصل حالات کیا ہوں گے۔ ان حالات میں آپ بتائیں کہ پنجاب کی پولیس کو کیسے ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔ تھانے تقسیم ہو چکے ہیں اور کام ویسے ہی چل رہا ہے جیسے پہلے چل رہا تھا یا شاید اس کھینچا تانی کی وجہ سے پہلے سے بھی زیادہ خراب ہو رہا ہے۔ اوپر سے مانیکا فیملی والے واقعہ نے کافی بدنامی کرا دی۔ پولیس والے بڑے تیز ہوتے ہیں انہیں سب پتا ہے کہ اصل پاور کہاں ہے۔ وہ بھی میری تقریروں پر ہنستے ہیں اور وزیراعلی کو الٹا پڑہاتے ہیں کہ وزیراعظم تمہیں غریب غریب کہہ کر تمھاری بے عزتی کرتا ہے۔ انہوں نے ہی بزدار کو بتایا ہے کہ میں اس کی تعریف نہیں کرتا بلکہ اس پر ترس کھاتا ہوں۔ اب بھلا بزدار کو اس باریکی کا کیا پتا تھا، یہ سب پولیس والوں نے اس کے کان بھرے ہیں۔ شکر ہے کہ وہ بھی ترس کھانے کو دل پر نہیں لیتا۔

صوبہ خیبر پختونخواہ میں ہماری حکومت مضبوط ہونی چاہیے تھی لیکن یہ خٹک بھی بڑا چکر باز ہے۔ اس نے اپنا گروپ اتنا مضبوط کر لیا کہ مجھے آنکھیں دکھاتا ہے۔ اب اس کو ناراض کرنا ناممکن ہے کیونکہ مرکز میں حکومت کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔

ان حالات کو دیکھتے ہوئے میں سوچتا ہوں شکر ہے کہ سندھ اور بلوچستان میں ہماری حکومتیں نہیں ہیں۔ کم از کم ان کے گرنے کی مجھے کوئی فکر تو نہیں ہے۔

حکومت بننےسے پہلے تو یہ اسد عمر بھی بڑا سیانا بنتا تھا لیکن اب اس کے ڈالروں کے سارے حساب غلط نکلے ہیں۔ اب وہی سعودی عرب، چین اور آئی ایم ایف ہیں جن کے سامنے نواز شریف ہاتھ پھیلاتا تھا ہم بھی پھیلا رہے ہیں۔

تو سچی بات ہے مجھے نہیں لگتا ہم سے کچھ ہو سکے گا۔ آپ لوگ اپنا خیال خود ہی رکھیں۔ مرغیاں پال لیں، بھینس کے بیٹے جس آپ لوگ کٹا کہتے ہیں، اس کا خیال رکھیں تو آہستہ آہستہ خود ہی خوشحال ہو جائیں تو ٹھیک ہے۔ ہم سے تو اگلے ہزار دنوں میں بھی کچھ ہونے والا نہیں۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik