سو دن کی کہانی


پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بننے کے بعد وزیراعظم عمران خان صاحب نے اپنی حکومت کے پہلے سو دن کے لیئے قوم سے بہت سے وعدے کیئے تھے ، جس وقت خان صاحب ان سو دنوں کا اعلان کررہے تھے دل میں ایک امید پیدا ہورہی تھی کہ شاید اب چراغ رگڑتے ہی جن آئے گا اور خان صاحب حکم صادر کریں گے کہ سو دن یہ تمام کام کرنے ہیں جس کا میں نے قوم سے وعدہ کیا ہے لیکن ذہن اس بات کو یکسر قبول کرنے سے انکاری تھا کہ یہ ناممکن ہے اور یہ بات بارہا مشاہدے میں بھی آئی ہے کہ جب حکومت کی مدت پوری ہوتی ہے یا کسی دل میں اقتدار پر قابض ہونے کی خواہش انگڑائی لیتی ہے تو اقتدار پر اپنا ہاتھ رواں کرنے یا سلطان ِ ریاست بننے کا شوق پورا ہونے پر عام انتخابات کرانے کے لیئے نوے روزہ نگراں حکومت لائی جاتی ہے اور نگران لاکھ جتن کرنے کے باوجود نوے دن میں اپنے اہداف حاصل نہیں کرسکتے جب کہ ان کے پاس واضح طور پر صرف نوے دن کا ٹارگٹ ہوتا ہے جب کہ خان صاحب نے اس میں دس دن جمع کرکے پورے سو دن کے اہداف بتائے مگر ان کے پاس ان کو کرنے کے لیے 1825 دن ہیں ۔

عمران خان صاحب کے سو دن جوں ہی پورے ہوئے انہوں نے اسلام آباد کنونشن سینٹر میں ایک تقریب کا انعقاد کیا کیوں کہ یہ پاکستان میں اپنی نوعیت کی پہلی تقریب تھی ، دنیا میں کہیں بھی کسی بھی حکومت کا اپنے پہلے سو دن کی قابلِ ذکر یا قابلِ فخر کارکردگی دینا بہت مشکل کام ہے ، لیکن کسی بھی حکومت کے ابتدائی سو دنوں میں یہ اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ یہ اپنی اقتدار کی مدت میں کیا کچھ کرسکتے ہیں ۔ اس لیئے اس تقریب کے اعلان سے عوام کو بہت زیادہ امید تھی کہ شاید ہمارا وزیرِ اعظم آج عوام کو کوئی بہت بڑا سرپرائز دینے جارہا ہے ، آج تقریب میں بتایا جائے گا کہ ہم نے یہ یہ کام کیئے جس کا ثمر آپ کو اس تقریب کے ختم ہوتے ہی ملنا شروع ہوجائے گا ۔ لیکن خان صاحب کی تقریر سے ایسا کچھ سننے کو نہیں ملا کہ جس کو حکومت کی قابلِ ذکر کارکردگی کہا جاسکے ۔ اسی دن حکومت کی جانب سے قومی اخبارات میں ایک اشتہار شائع ہوا جس میں 100 کے ہندسے کے نیچے لکھا تھا ہم مصروف رہے اس کے نیچے بائیں کونے پر لکھا تھا ” نئے پاکستان کے لیئے ورق الٹیے ورق الٹنے پر قاری کے سامنے سو روز کی کارکردگی خبروں کے تراشوں کی صورت میں شائع کی گئی تھی ۔ اس اشتہار کو دیکھ کر اندازہ ہوا کے کچھ مصروفیت تو اس اشہتار کی تیاری میں بھی رہی ہو گی کیوں کہ ماضی میں شہباز شریف کی جانب سے اسی قسم کے اشتہارات پر خان صاحب نے نہ صرف شدید تنقید کی تھی بلکہ اسے فضول خرچی اور قومی خزانے پر بوجھ قرار دیا تھا ۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت جب اقتدار میں آئی تو اس کا سب سے مقبول نعرہ اور سب سے بڑا دعویٰ ملک میں کرپشن ختم کرکے تبدیلی لانا تھا لیکن سو دنوں میں کرپشن کے خلاف بھی جو اقدامات کیئے گئے وہ ناکافی ہیں بائیس سال کرپشن ، چوری، ڈاکو راج، منی لانڈرنگ کے خلاف اعلانِ جنگ کا دعویٰ کرنے والی تحریک انصاف کی حکومت کرپشن کے خلاف کسی بھی اقدام سے ایک روپیہ وطن واپس نہ لاسکی۔ جب کہ حکومت کے سو دن مکمل ہونے پر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے حکومت کی کارکردگی کو مایوس کن اور صفر قرار دیا گیا ہے ۔ اگر ہم اپوزیشن کے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے حکومت کے اس دعویٰ کو درست مان لیں کہ وہ ان سو دنوں میں مصروف رہی اور بہت کچھ کیا تو اتنا کچھ کرنے کے باوجود غریب عوام کو کوئی ریلیف نہیں ملا، مہنگائی ختم کرنے کے حکومتی دعوؤں کے برعکس گیس، بجلی، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا جس کی وجہ سے ایک عام انسان کی ضرویاتِ زندگی کی تمام اشیاء مہنگی ہوگئیں ۔ ملکی تاریخ میں ڈالر کی قیمتیں حیران کن حد تک بڑھ گئیں اور جس دن حکومت نے اپنی سو روزہ کارکردگی بیان کی دوسرے دن ہی ایک بار پھر ڈالر نے قابو ہوگیا۔ ڈالر کی قیمت اس طرح بڑھ جانے سے پاکستان کے ذمہ 760 ارب روپے کے بیرونی قرضے بھی بڑھ گئے ۔

پاکستان تحریک انصاف کے اقتدار میں آتے ہی کیئے جانے والے اعلانات کو بھی یکسر فراموش کر دیا گیا اب تک کسی بھی گورنر ہاوس کو یونیورسٹی نہیں بنایا گیا، وزیرِ اعظم ہاؤس بھی جوں کا توں ہے۔ خان صاحب نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ وہ ہر ماہ براہِ راست عوامی مسائل سنیں گے ایسا بھی اب تک نہیں ہوا۔ پاکستان کو قرضوں سے نجات دلا کر آئی ایم ایف کو خیرباد کہیں گے ایسی بھی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے ۔ ملک میں یوٹرن، انڈے مرغی اور کٹوں کی دھوم مچی ہوئی ہے اور اپوزیشن کو خوب بولنے کا موقع ملا ہوا ہے ۔ یہ تھکے ہارے لاچار عوام ابھی بھی تحریک انصاف کی حکومت کو مزید وقت دینے کے موڈ میں ہیں۔ ان کی امید ابھی ختم نہیں ہوئی ان کے خواب ابھی بکھرے نہیں۔ وہ جانتے ہیں ستر بہتر سال کی خرابیاں سو دن میں درست ہونا ناممکن ہے ، اگر ان سو دنوں میں حکومت نے اپنی سمت کا تعین کرلیا ہے تو امید ہے باقی ماندہ دنوں میں اچھے نتائج آئیں گے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).