پاکستان میں تعلیمی بحران کا حل کیوں اور کیسے؟


معیاری تعلیم کی فراہمی ہر مہذب ریاست کی اولین ذمہ داریوں میں ترجیحی حیثیت کی حامل ہے، جب کہ معیاری تعلیم کا حصول ہر طالبعلم کا حق بھی ہے اور ہمارے دین اسلام کی اولین تعلیم بھی۔ اسلام کی بنیاد کا پہلا لفظ ہی اقرا تھا جس کے بعد تعلیم کی اہمیت دیگر اقوام کی نسبت ہمارے لئے بڑھ جاتی ہے۔

تعلیم سب کے لئے بہت ضروری ہے اور یہ حق سب کو ملنا چاہیے اس جملے سے ہم سب خوب آشنا ہیں لیکن کیا اس پر عمل بھی کیا جاتا ہے ،جواب ہوگا جی ہاں، لیکن یہاں میں یہ کہوں گا کہ ایسا نہیں ہے۔ پاکستان میں تعلیم کے نام پر بہت سا روپیہ خرچ کیا جاتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ ملک میں تعلیمی بجٹ کی کوئی کمی نہیں اور اگر ہو بھی تو ہمیشہ کی طرح تعلیم کے نام پر امداد تو مل ہی جاتی ہے۔

ہمارے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لیے بہت سے اساتذہ، لیڈرز، سرکاری، غیر سرکاری ادارے اور ان کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بھی کام کر رہی ہے۔ نیشنل پلان آف ایکشن کے مطابق 22.48 ملین بچے جن کو پرائمری تعلیم کا حصہ ہونا چاہیے تھا سکول نہیں جا رہے، اس کی وجہ ہے لاعلمی، غربت، تعلیم تک مشکل رسائی وغیرہ وغیرہ۔ 2018 کے ملینیم ترقیاتی سروے کے مطابق صرف 57 فیصد طلباء پانچ سال سے لے کر نو سال تک زیر تعلیم آئے جبکہ پہلے یہ ہدف 56 فیصد کے تناسب سے تھا، مطلب اس تناسب میں صرف گیارہ فیصد بہتری آئی۔ اس کی بنیادی وجہ پڑھائی تک رسائی نہ ہونا ہے۔

پاکستان میں پڑھائی تک رسائی نہ ہونے کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے ایک بچوں کا روزی کمانے کا ذریعہ ہونا بہت ہی عام بات ہے۔ والدین بچوں سے کام کروانے کے لئے مجبور ہیں کیونکہ اس مہنگائی کے دور میں بچوں کا مزدوری کرنا عام بات بن گیا ہے، ایسے بچوں کے والدین کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر سکیں، اس کے لئے ایک آسان حل آرٹیکل 25 اے کے تحت تعلیم تک رسائی ہے۔ بچوں کو سکول میں اگر مفت داخل کر دیا جائے اور معیاری تعلیم دی جائے تو نیا مسئلہ یہ سامنے آتا ہے کہ یہ بچے سکول تو جائیں گے لیکن اب ان کے گھروں کا چولہا کیسے چلے گا؟ اس کے لیے حکومت سے درخواست ہے کہ ایک بل پاس کیا جائے جس کے مطابق ضرورت مند طلباء کو وظیفہ یا کچھ رقم فراہم کی جائے جب تک وہ قانونی طور پر کمانے کے قابل نہیں ہو جاتے، تاکہ ان کے اخراجات میں تھوڑی مدد مل سکے۔ اس اقدام کے کرنے سے مسائل جیسے کہ بچوں کی پڑھائی بال مزدوری وغیرہ حل ہو جائیں گے ان شاء اللہ۔

پڑھائی کے دائرہ کو بڑھانے کے لئے جہاں مرد حضرات کام کر رہے ہیں وہی ان کے شانہ بشانہ خواتین بھی برسرپیکار ہیں۔ اس عمل کو آگے جاری رکھنے کے لئے تعلیم نسواں بھی بہت ضروری ہے، کیونکہ آج کی تعلیم یافتہ بیٹی ہمارا روشن کل ہے، لیکن 2016 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 48% یعنی دس سال اور اس سے زیادہ عمر کی لڑکیاں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہیں۔ ایک لڑکی کے لیے پڑھائی کتنی ضروری ہے، بہت سے پروجیکٹ اس نعرہ کو بلند کر رہے ہیں، مزید اس کے لیے مختلف قسم کے تعلیمی مقابلے کرائے جائیں جن میں ان لوگوں کو بطور مہمان بلایا جائے جو تعلیم کی اہمیت کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ہر علاقے کے ناظم، نائب ناظم، سیاسی لیڈر یا کوئی بھی ایسا شخص جس کی بات کو مہذب مانا جاتا ہو اس سے مدد لی جاسکتی ہے۔ اگر وہ سمجھ لیں کہ تعلیم لڑکی کے لئے کتنی اہم ہے تو ہم اپنا پیغام پہنچانے میں کبھی ناکام نہیں ہوں گے۔

پڑھائی کا معیار بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ پاکستان میں 74 فیصد بچے سرکاری اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں جبکہ 26 فیصد بچے غیر سرکاری اسکولوں سے وابستہ ہیں، اتنی بڑی تعداد میں بچوں کے لیے تعلیم کا مواد بھی مفید ہونا چاہیے۔ اس کے لیے اساتذہ کی بھرپوررہنمائی اور ان کو نئے تدریسی گر سکھانے کی اشد ضرورت ہے، تاکہ وہ طلباء کو ان کے معیار کے مطابق پڑھا سکے اور ان کو نئی ٹیکنالوجی سے متعارف کروا سکیں۔

غیر سرکاری سکولوں میں بچوں کی اچھے طریقے سے تربیت اور دیکھ بھال کی جاتی ہے، نت نئے طریقے سے بچوں کو پڑھایا جاتا ہے۔ بچوں کو اس طرح پڑھائی میں شامل کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے بچے پڑھائی کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے ہیں، ان سکولوں کی فیس زیادہ ہونے کی وجہ سے باقی بچے اس معیاری تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اس لئے پڑھائی کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے کچھ اقدامات کرنے ضروری ہے جن میں اساتذہ کی تدریسی تربیت سب سے ضروری ہے۔

پاکستان میں انصاف اور مساوات کا بہت حد تک فقدان ہے۔ غریب، غریب تر اور امیر، امیر تر ہوتا جا رہا ہے۔ حکومت اور انتظامیہ کی نااہلی کی وجہ سے عوام کا اعتماد قانون اور انصاف سے اٹھ گیا ہے۔ یہ وہ نظام ہے جس میں غریب بچے کے لئے تعلیم حاصل کرنا ناممکن ہی نہیں بلکہ گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس اجاراداری کے نظام کو بدلہ جائے، تعلیم جیسی پاکیزہ اور سانجھی میراث کو امارت کے شکنجے سے نکال کر ہر ایک کے لئے یکساں مہیا کیا جائے۔ تعلیم اس قدر سستی کردی جائے کہ ہر کوئی تعلیم تک رسائی حاصل کر سکے۔ ایسے بچے جن کے والدین صرف اخراجات کے ڈر سے اپنے بچوں کا مستقبل تباہ کردیتے ہیں، ان کے لیے وظائف کا اعلان کیا جانا چاہیے تاکہ صرف چند روپوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے مستقبل کو برباد ہونے سے بچایا جا سکے۔ تعلیم کے فروغ کے لئے بڑے بڑے جلسے جلوس اور مہنگے سیمینار کرنے سے بہتر ہے کہ یہ پیسہ بچوں کو تعلیم کے لئے ملنا چاہیے جو حقیقی معنوں میں اس کے حقدار ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).