رشوت کا ناسور


آج ہر انسان اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ بے شمار نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی بجائے دولت کا پجاری، دلدادہ اور اس کے حصول کے لئے بغیر محنت و مشقت کے چند دنوں میں امیر کبیر بن کر زندگی گزارنے کا خواہاں ہے اسے حلال و حرام سے کوئی سروکار نہیں۔ حالانکہ مسلمان ہونے کے ناطے اسے علم ہے ”کہ رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دونوں جہنمی ہیں“ سرکاری دفاتر میں اہلکاران کا درشت رویہ اپنا کر نذرانہ مٹھائی اور فوری کام کا لالچ دے کر رشوت طلب کرنا، عدم تعمیل پر سرخ فیتہ کی نذر کرنا، طرح طرح کے اعتراضات لگا کر تاخیری حربے اختیار کرکے رسوا کرنا ان کا معمول بن چکا ہے۔ یہ صرف حرام مال ہی نہیں کھاتا بلکہ معصوم، بے گناہ اور غریب لوگوں سے رزق حلال کا لقمہ بھی چھین لیتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں جہاں دیگر عیوب اور برائیاں جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہی ہیں وہاں اس متعدی مرض نے بھی اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔

رشوت انسانی معاشرے کے لئے ناسور اور مہلک مرض ہے جو اس کا شکار ہو جاتا ہے۔ لقمہ جہنم بن جاتا ہے، جس معاشرے میں یہ بیماری عام ہو جائے، وہاں عدل و انصاف کا گلا گھونٹ کر حق پرستی اور دیانتداری کا خون ہوتا رہتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ معاشرہ اختلاف، انتشار اور خلفشار کا شکار ہو جاتا ہے۔ افراد میں اخوت، محبت، ہمدردی اور بھائی چارگی کے رشتے ٹوٹ جاتے ہیں۔

رشوت یا کرپشن کی تاریخ بہت قدیم ہے، یہ آج کا مسئلہ نہیں، ہاں یہ ضرور ہے کہ اس پر کبھی مکمل طور پر قابو نہیں پایا جاسکا۔ اس وقت ترقی یافتہ اور ترقی پذیر تمام ممالک اس کی لپیٹ میں ہیں، اس سے جمہوری نظام کی عمارت گویا چرمرا کر رہ گئی ہے۔ یہ بد عنوانی انصاف میں رکاوٹ اور معاشی ومعاشرتی ترقی میں سُستی کی محرک ہے۔ آ ج کے برق رفتار زمانہ میں ہر چیز شاخ در شاخ ہوتی جارہی ہے، آج نیکیوں کے راستے بھی اَن گنِت ہیں اور گناہ کے بھی، یہ انسان کا اختیار ہے کہ وہ اپنے لیے کیا پسند کرتا ہے۔ رشوت، جو کہ ہمارے سماج کا ایک ناسور ہے، جس نے نہ جانے کتنی زندگیاں تباہ وبرباد کر دیں، لیکن اس پر کسی طرح روک تھام لگتی نظر نہیں آتی۔ آج کے اس ”ترقی یافتہ دور“ میں اس کی کوئی خاص صورت متعین کر پانا نہایت مشکل امر ہو گیا ہے، اب یہ معاملہ محض نوٹوں کے سہارے ہی نہیں طے پاتا، بلکہ کوئی، ہدیہ، تحفہ، بھی اس کے قائم مقام ہو سکتا ہے۔ بالفاظ ِ دیگر رشوت، بدعنوانی کی ایک ایسی قسم ہے، جس میں نقد یا تحفہ وغیرہ دے کر، وصول کرنے والے کے طرزِ عمل میں بدلاؤ لایا جاتا ہے۔ اس کا مقصد وصول کنندہ کے اعمال پر اثر انداز ہونا ہوتا ہے۔ کبھی یہ پیش کش دینے والوں کی طرف سے ہوتی ہے، کبھی لینے والے، اسے کمیشن یا ڈونیشن جیسے نام سے موسوم کرکے اسے جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جس کی اصل حقیقت سب پر عیاں ہے۔

رشوت ایک ایسا جرم ہے، جو شاید کسی بھی نظامِ حیات میں جائز نہ ہو۔ ہمارا ملکی قانون بھی اسے ناجائزقرار دیتا ہے، لیکن ملک کی جیتی جاگتی زندگی میں آکر دیکھیے تووہی رشوت؛ جسے قانون میں بد ترین جرم کہا گیا ہے۔ اگر اونچے درجے کے رشوت خور افسروں کو چند بار علی الاعلان عبرت ناک جسمانی سزائیں دی جائیں اور آئندہ رشوت کے لیے کچھ اور سخت سزائیں مقرر کر دی جائیں، تو رفتہ رفتہ یہ لعنت مٹ سکتی ہے۔

ہمیں اپنے تئیں رشوت سے بچنے اور معاشرے کو اس گناہ سے بچانے کی کوشش کرنا چاہیے۔ رشوت ایک گناہ ہے اور گناہ کی سزا ضرور ملے گی۔ اس دنیا میں اگر نہ ملی تو آخرت میں ضرور ملے گی۔ اللہ تعالی سے یہ التجا ہے کہ وہ ہمیں اس دنیا و آخرت میں اس لعنت سے اور اس کی تباہ کاریوں سے بچائے۔

سیدہ اقصٰی عابد
Latest posts by سیدہ اقصٰی عابد (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).