وزیر اعظم عمران خان کا نیا پاکستان اور محروم بلوچستان


جولائی 2018 میں ہونیوالے عام انتخابات کے بعد وجود میں آنیوالی پاکستان تحریک انصاف کے ”نئے پاکستان“ کی حکومت کے 100 روز مکمل ہونے پر جہاں اس پر ہر جانب سے تنقید کے نشتر برسائے جارہے ہیں تو وہی بلوچستان کے عوام وزیر اعظم عمران خان کی جانب حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں، وزیر اعظم عمران خان نے جہاں گذشتہ سو روز کی حکومت میں بے شمار دعوے کیے وہی انہوں نے بلوچستان کے حوالے سے بھی کچھ وعدے کیے۔ بلوچستان کی 3 جماعتوں بلوچستان عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی اور جمہوری وطن پارٹی کی مدد کی بدولت وہ وفاق میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے۔

شاید یہ پہلی بار ہے کہ وفاقی حکومت میں بلوچستان کی اتنی زیادہ اکثریتی جماعتیں اتحادی ہیں مگر افسوس کے وزیر اعظم عمران خان کی وفاقی کابینہ میں بلوچستان کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے، صرف ایک وفاقی وزیر محترمہ زبیدہ جلال کا تعلق بلوچستان سے ہے، وہ بھی دفاعی پیداور کی وزیر ہیں، جبکہ کوئٹہ سے منتخب قاسم سوری ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی ہیں، یعنی پاکستان کی وفاقی حکومت کی کابینہ میں آدھے پاکستان سے صرف ایک وزیر جبکہ باقی آدھے پاکستان سے 40 سے زائد وزیر کیا یہی ہے بلوچستان کی جانب توجہ کا حال۔

وزیر اعظم عمران خان گذشتہ سو دنوں میں صرف ایک بار چند گھنٹوں کے لئے کوئٹہ تشریف لائے اور چند ملاقاتوں کے بعد واپس چلے گئے، بلوچستان کے عوام تو آج بھی وزیر اعظم کے دیدار کو ترس رہے ہیں دوسری جانب وزیر اعظم لاہور گذشتہ 100 دنوں میں 8 سے 10 بار جاچکے ہیں۔ یہی حال ان کے کابینہ کا ہے وزیر اعظم کے ہمراہ چند گھنٹوں کے لئے آنے والے کچھ وزرا کے علاوہ کسی کو شاید پتہ ہی نہیں بلوچستان بھی پاکستان کا حصہ ہے سوائے شیخ رشید کے جو کہ ایک آدھ بار آئے تھے ہاں سچ ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی والدہ کے انتقال پر تعزیت کے لئے کچھ وزرا آئے تھے چند گھنٹوں کے لئے۔ غرض وفاقی کابینہ کے فواد چوہدری سے لے کر عمر ایوب تک شاید کسی کو پتہ ہی نہیں کے بلوچستان بھی ہے یا پھر انتہائی زیادہ مصروفیت کے باعث بلوچستان ان کی نظروں سے اوجھل ہوچکا ہے۔ یہاں کے عوام کے مسائل یا اس کے حل کی کس کو پڑی ہے۔

اب رہی بات محروم بلوچستان کی تو جناب ذرا ٹھہریے جس حکومت کے وزرا کو ایک صوبے جانے کی فرصت نہیں ملتی وہاں کے مسائل معلوم کرنے کا فرصت نہیں ملتی وہ مسائل کیا حل کرے گی، وزیر اعظم عمران خان نے اپنی پہلی تقریر میں کوئٹہ اور بلوچستان میں خشک سالی کا ذکر کیا اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بلوچستان کے 31 اضلاع میں سے 18 اضلاع خشک سالی سے شدید متاثر ہوچکے ہیں وہاں پر پینے کا پانی نایاب ہوچکا ہے مال مویشی مر رہے ہیں مگر صوبائی حکومت کی تھوڑی بہت امداد کے علاوہ یہاں پر وفاق کی جانب سے مکمل خاموشی ہے۔

شاید اس میں قصور وفاق یا ہمارے میڈیا کا نہیں ہوگا کیونکہ بلوچستان میں رہتے ہی چند لوگ ہیں۔ یہاں نہ کاروبار ہے نہ ہی انڈسٹری تو میڈیا یہاں اپنی توجہ کیسے دے سکتا ہے کیسے اپنا وقت (ائیر ٹائم) بلوچستان پر ضائع کرسکتا ہے اور جب میڈیا اچھال نہیں سکتا تو وفاق کے پاس کہاں کی فرصت ہوگی کہ وہ یہاں کے بارے میں سوچے یا کوئی وعدہ ہی کرے پورا کرنا تو درکنار۔

وزیر اعظم نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں کوئٹہ میں پانی کی قلت کا ذکر کیا اور کہاں کہ ان کی حکومت کوئٹہ کا مسئلہ حل کرے گی اور پانی کے لئے اقدامات اٹھائیگی تو جناب اعلیٰ ہم کچھ نہیں کہتے خود ہی پڑھیے ماہرین ریسرچ کے مطابق کوئٹہ میں حالت اس وقت کیا ہے۔ کوئٹہ سمیت بلوچستان کے پانچ اضلاع میں ٹیوب ویلز کی بہتات کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح تشویشناک حد تک گر نے کے باعث زمین سالانہ دس سینٹی میٹر کی رفتار سے نیچے دھنس رہی ہے جبکہ کئی علاقوں میں عمارتوں اور زمین میں دراڑیں پڑگئی ہیں جس کے باعث کوئٹہ، پشین، قلعہ عبداللہ، مستونگ اور قلات کے شہریوں پر انجانا خطرہ منڈلا رہا ہے۔

کوئٹہ میں ایک اندازے کے مطابق صرف سات سال میں 56 سینٹی میٹر زمین نیچے جاچکی ہے۔ جب کہ بعض جگہوں پر عمارتوں اور زمین میں دراڑیں بھی پڑ چکی جو بہت واضح ہیں۔ جامعہ بلوچستان کوئٹہ میں شعبہ سیسمالوجی اینڈ ارتھ کوئیک کے چیئرمین اور پروفیسر آف جیالوجی پروفیسر دین محمد کاکڑ کے مطابق انہوں نے 2006 میں ایک ریسرچ شروع کی جس میں ان کو جی پی ایس ٹیکنالوجی اور سیٹلائٹ تصویروں سے یہ معلوم ہوا کہ کوئٹہ سمیت بلوچستان کے پانچ اضلاع میں زمین نیچے دھنس رہی ہے اور دھنسنے کا یہ رفتار سالانہ 10 سینٹی میٹر ہے زمین دھنسنے کی وجہ زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک نیچے جانا ہے۔

کوئٹہ میں اس وقت زیر زمین پانی 1100 سے 1200 فٹ تک نیچے چلا گیا ہے اور پانی نکالنے کا یہ سلسلہ اگر نہ رکا تو زمین کا اندرونی خلاءمزید بڑھے گا جس کے نقصانات زیادہ شدید ہو سکتے ہیں۔ پروفیسر دین محمد کاکڑ کا کہنا ہے کہ زیرزمین تبدیلیوں اور خلاءپیدا ہونے کے باعث کوئٹہ کے مختلف علاقوں میں عمارتوں میں دراڑیں اور کریکس پڑچکے ہیں، اسی طرح کوئٹہ، پشین، قلعہ عبداللہ، مستونگ، قلات کے اضلاع میں زمین میں بھی دراڑیں پڑچکی ہے، ان کو کہنا تھا کہ حکومت کم ازکم کوئٹہ میں مزید ٹیوب ویلز لگانے پر پابندی عائد کرء اور کوئٹہ کے لئے متبادل ذرائع سے پانی کا فوری انتظام کرے۔

دوسری جانب کوئٹہ میں چونکہ پینے کے پانی کا سارا دارومدار زیر زمین پانی پر ہے واسا حکام کے مطابق کوئٹہ میں ڈھائی ہزار سے زائد سرکاری اور نجی ٹیوب ویلز چوبیس گھنٹے چلتے ہیں اور روزانہ 6 کروڑ گیلن پانی زمین سے نکالا جارہا ہے۔ حکومت بلوچستان نے کوئٹہ میں واٹر ایمرجنسی بھی نافذ کر رکھی ہے، مگر اس کے تاحال مثبت نتائج سامنے نہیں آئے ہیں واٹر ایمر جنسی لگانے کے باوجود شہر میں سرکاری اور نجی سطح پر مزید نئے ٹیوب ویلز لگانے کا سلسلہ جاری ہے۔ جب کہ واسا حکام کے مطابق کوئٹہ میں زیر زمین پانی کا 60 فیصد زراعت کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔

بلاشبہ پانی کے ضیاع کو روکنا حکومت سے زیادہ عوام کافرض ہے مگر جناب بات پاکستان کی نئی حکومت کی ہورہی ہے لہذا ان کے وعدے اور دعوے تو یہاں کے عوام کو یاد ہیں۔

بات کرتے کے تحریک انصاف کی معاشی پالیسی کی تو جانب سن لیجیے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے گذشتہ ماہ ضمنی بجٹ پیش کیا قومی اسمبلی میں جس میں ترقیاتی بجٹ میں 450 ارب روپے کا کٹ لگایا ان میں سے 300 ارب بلوچستان کے تھے، بلوچستان کے 59 منصوبوں کو پی ایس ڈی پی سے نکال دیا گیا مگر پھر بھی بلوچستان میں سب اچھا ہے جناب یہاں کے عوام میں مایوسی نہیں پھیلی بلوچستان حکومت اس وقت شدید مالی بحران کا شکار ہے مگر شاید وفاق کو فرصت نہیں اپنے دعوں اور غیر منتخب لوگوں کو نوازنے سے۔

بلوچستان کے عوام اب بھی 100 روز میں ہر روز ہر گھنٹے نظر انداز ہونے کے باوجود وفاق سے امید لگائے بیٹھے ہیں کہ شاید ان کو یہاں کے عوام پر ترس آجائے، حق کی بات تو کوئی کر نہیں سکتا یہاں لہذا ترس کہا کر ہی وفاق اپنے وعوے پورے کرے۔ بلوچستان میں پانی کے مسائل کے حل اور خشک سالی نمٹنے کے لئے مستقبل قریب میں ہنگامی اقدامات نہ اٹھائے گئے تو شاید 2025 سے قبل ہی بلوچستان بنجر بن جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).