برطانیہ کی خودکشی کا اصل راز


\"adnan-khan-kakar-mukalima-3\"

برطانیہ میں ریفرینڈم ہوا کہ یورپی یونین میں رہنا ہے یا الگ ہونا ہے۔ اس پر برطانوی معاشرے میں شدید تقسیم نظر آئی ہے۔ انگلینڈ اور ویلز کے 53 فیصد اور جنوب مشرق کے 52 فیصد عوام نے علیحدگی کے حق میں فیصلہ دیا۔ دوسری طرف سکاٹ لینڈ کے 62 فیصد عوام یونین میں رہنا چاہتے تھے اور اس کے دارالحکومت ایڈنبرا میں یہ شرح 74 فیصد تھی۔ شمالی آئرلینڈ کے 56 فیصد اور لندن کے 60 فیصد لوگ یورپی یونین کے ساتھ رہنے کے حامی تھے۔ مجموعی طور پر 52 فیصد ووٹ یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں پڑے اور 48 فیصد اس کے ساتھ رہنے کے حق میں تھے۔

برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون اور لندن کے مئیر صادق خان یورپی یونین کے ساتھ رہنے کے حامی تھے۔ ریفرینڈم میں شکست پر کیمرون نے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ ادھر یورپی یونین نے بھی فوراً عوامی پلیٹ فارم پر کھلا پیغام بھیج دیا ہے کہ فیصلہ کر ہی لیا ہے تو جتنا جلد ہو سکے، ہماری جان چھوڑ دو۔ برطانیہ کا پاؤنڈ اور اس کی سٹاک مارکیٹ گر چکے ہیں۔ برطانوی معیشت کو ایک شدید جھٹکا لگے گا۔ برطانوی حکومت کا اندازہ ہے کہ سنہ 2030 تک برطانوی معیشت تقریباً چار سے ساڑھے سات فیصد تک کمی دیکھے گی۔ بہت سی بین الاقوامی کمپنیاں جو کہ یورپ میں اپنا مال بیچنے کے لیے برطانیہ کو مرکز بنائے ہوئے ہیں، اب وہاں سے نکلنے پر غور کرنے پر مجبور ہوں گی کیونکہ ان کے لیے اپنے مال کو بیک وقت مختلف یورپی اور برطانوی قانون کے مطابق بنانے میں دشواری کا سامنا ہو سکتا ہے۔

\"brexit-summit\"

اب دو سال کی مدت میں برطانیہ اور یورپی یونین مذاکرات کریں گے کہ علیحدگی کن شرائط پر ہو گی۔ ناروے ایک ایسا ملک ہے جو کہ یورپی یونین کا ممبر نہیں ہے لیکن اسے یورپی یونین کی مارکیٹ تک آزادانہ رسائی حاصل ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ناروے نے رضاکارانہ طور پر یورپی یونین کے قوانین کو اپنے ہاں نافذ کرنے کا اعلان کیا ہوا ہے اور اس کے پچھتر فیصد قوانین یورپی یونین کے مطابق ہیں۔ لیکن اگر برطانیہ بھی یورپی یونین کے قوانین پر ہی چلنے کا اعلان کرتا ہے، تو پھر اسے یورپی یونین سے الگ ہونے کی کیا ضرورت تھی؟

یورپی یونین کا رویہ برطانیہ کے معاملے میں اس لیے بھی سخت ہے کیونکہ وہ اس اہم ملک کے خود سے اچھے انداز میں نکل جانے پر یورپی یونین کی ٹوٹ پھوٹ کے حقیقی خدشے کا شکار ہے۔ یورپی یونین کسی بھی صورت میں برطانیہ کو ناروے جیسی اچھی شرائط اور یورپی مارکیٹ تک آزادانہ رسائی کی اجازت نہیں دے گی۔ یورپی یونین کے اراکین اس وقت کمزور یورپی معیشتوں سپین، اٹلی اور یونان وغیرہ کے بوجھ پر پہلے ہی پریشان ہیں اور برے وقت میں امیر ممالک کے یونین سے نکلنے سے یونین کے ختم ہو جانے کا خدشہ بہت حد تک حقیقی ہے۔

وزیر اعظم کیمرون کے مستعفی ہونے کے بعد کنزرویٹو پارٹی سے ہی تعلق رکھنے والے لندن کے سابق میئر بورس جانسن کے وزیر اعظم بننے کا امکان ہے۔ بورس علیحدگی کے حامی تھے۔ مگر پارٹی میں شدید ٹوٹ پھوٹ کے باعث نئے پارلیمانی الیکشن بھی خارج از امکان نہیں ہیں۔

\"brexit\"

کچھ غش امریکہ کو بھی پڑے گا۔ برطانیہ کو یورپی یونین کا ایک اہم ملک ہونے کی حیثیت سے یورپی ممالک کی پالیسی سازی میں توانا آواز ملی ہوئی تھی اور وہ یورپی یونین کو امریکی موقف کے مطابق فیصلے کرنے کا حامی بنانے کا اہل تھا۔ اب برطانیہ ایک کمزور آواز کا حامل ہو گا۔

دوسری طرف، اس سے بڑا مسئلہ اندرونی محاذ پر ہے۔ سکاٹ لینڈ میں برطانیہ سے علیحدگی کے سوال پر 2014 میں ریفرینڈم ہوا تھا، جس میں 44 فیصد نے علیحدگی اور 56 فیصد نے برطانیہ کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس وقت 60 فیصد سکاٹ باشندے یورپی یونین کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ یورپی یونین ان کو انگلینڈ کی اکثریت کے جبر سے خود کو بچائے رکھنے کی ضامن نظر آتی ہے۔

سکاٹ لینڈ کی وزیر اول نکولا سٹرجن نے سکاٹ لینڈ کی علیحدگی کے معاملے پر دوبارہ ریفرینڈم کے لیے قانون سازی کا عندیہ دیا ہے۔ سلطنت برطانیہ میں شامل شمالی آئر لینڈ بھی اس سے الگ ہو کر یورپی یونین کے ممبر ملک آئرلینڈ میں شامل ہونے پر غور کر سکتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں، برطانیہ کی متحدہ سلطنت اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ برطانیہ کے دارالحکومت لندن کے باشندوں نے بھی برطانیہ سے علیحدگی کی مہم چلا دی ہے اور وہ لندن کے میئر صادق خان پر زور دے رہے ہیں کہ وہ برطانیہ سے علیحدگی کا اعلان کر دیں۔ لندن آزادی پارٹی کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے۔

برطانوی عوام کے لیے ایک اہم مسئلہ پولینڈ اور مشرقی یورپ کے مزدوروں کی برطانیہ میں آمد تھی۔ یورپی یونین کے ممبر ہونے کی وجہ سے پولینڈ کے ورکر بغیر کسی دقت کے برطانیہ آ کر یہاں کام کاج کر سکتے تھے۔ اس پر برطانوی عوام کے جذبات ایسے تھے کہ دائیں بازو کی انڈی پینڈینس پارٹی نے انہیں اپنی سیاسی بحث کا موضوع بنایا۔ دائیں بازو کی دوسری اتنہا پسند پارٹیوں کی طرح اس پارٹی کا بھی یہی طرہ امتیاز یہ ہے کہ یہ عوامی جذبات بھڑکا کر لوگوں کو عقل سے دور رکھتے ہوئے جذباتی بنیاد پر سپورٹ حاصل کرنے کی قائل ہے۔ اس کے لیڈر نائجل فراج کا کہنا تھا کہ یہ مشرقی یورپ کے مزدور برطانیہ آ کر برطانوی مزدوروں کی مزدوری کم کرنے کا باعث بن رہے ہیں، مزید یہ کہ اس سے برطانوی سوشل سروسز پر بھی دباؤ بڑھ رہا ہے اور برطانوی خواتین کے خلاف جنسی حملوں کا خطرہ بھی ہو سکتا ہے۔

\"brexit-cliff\"

دلچسپ امر یہ ہے کہ جس وقت پولینڈ کو آہستگی سے ملکی قوانین کو ہم یورپی یونین سے ہم آہنگ کرتے ہوئے اسے یونین کا ممبر بنانے کا عمل جاری تھا، تو برطانیہ کے وزیراعظم ٹونی بلئیر نے 2003 میں وہاں کا دورہ کیا اور اس کی یونین میں فوری شمولیت پر زور دیا اور اسے ہنگامی بنیادوں پر یورپی یونین کا ممبر بنایا گیا۔ اس وقت پولینڈ ان چار ملکوں میں شامل تھا جس نے صدام حسین کے عراق پر حملے کے لیے اپنے فوجی دستے مہیا کیے تھے۔ ٹونی بلئیر کا یہ اقدام ہی ان پولش ورکروں کو برطانیہ میں لانے کا باعث بنا ہے جن کی وجہ سے برطانیہ نے یونین سے علیحدگی کا کڑوا گھونٹ بھرا ہے۔ لگتا ہے کہ یہ سٹریٹیجک ڈیپتھ کی پالیسی صرف ہمیں ہی نہیں مرواتی ہے۔

لیکن اس علیحدگی اور سلطنت کے ٹوٹ پھوٹ کا اصل راز یہ مشرقی یورپ کے ورکر نہیں ہیں۔ اگر آپ ہماری طرح حکمت سے کام لینے کے عادی ہوں، تو اصل وجہ آپ کو بھی ویسے ہی معلوم ہو گی جیسے کہ ہمارے دائیں بازو کے لکھاریوں کو معلوم ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ جس وقت برطانیہ کی سلطنت پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا، عین اسی وقت شاعر مشرق حکیم الامت ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال رحمت اللہ علیہ نے مستقل بینی کرتے ہوئے ہندوستان کے آقا برطانیہ عظمی کو خاص طور پر مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا

حضرات ہم آج یہی دیکھ رہے ہیں۔ برطانیہ عظمی اس حد تک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا دکھائی دے رہا ہے کہ اس کا دارالحکومت تک اسے داغ مفارقت دینے پر تلا ہوا ہے۔ یہ واقعی اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کر چکا ہے۔

تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے نہایت معتبر پاکستانی دانشوروں کی جانب سے ایک اور بات بھی سننے میں آ رہی ہے۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ اس ٹوٹ پھوٹ کی وجہ جناب میاں محمد نواز شریف کی ذات گرامی ہے۔ وہ یاد دلاتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے آخری دور میں جناب آصف علی زرداری کے پیر صاحب نے ان کو سمندر کے کنارے رہنے کا حکم دیا تھا اور وہ کئی ماہ کراچی میں مقیم رہے تھے اور اپنے پیر کی بات مان کر قصر صدارت سے باعزت انداز میں رخصت ہوئے تھے۔ سننے میں یہ آیا ہے کہ انہیں پیر صاحب نے میاں صاحب کو بھی کھلے الفاظ میں بتا دیا تھا کہ وہ جہاں ہوں گے، وہاں وزیراعظم کو تخت چھوڑنا پڑے گا اور ممکن ہے کہ ملک میں مارشل لا بھی لگ جائے۔ اس بات کو میاں صاحب نے سنجیدگی سے لیا اور اتنے زیادہ پریشان ہو گئے کہ ان کے دل میں میٹھا میٹھا سا درد رہنے لگا۔

صحیح یا غلط، لیکن سنا ہے کہ جناب پرویز رشید صاحب نے ان کو مشورہ دیا کہ بہتر ہے کہ برطانیہ چلے جائیں اور وہاں دل کا علاج کروائیں۔ ان کے بچوں کا ملک بھی وہی ہے، تو ایسے میں اگر برق گرے گی تو اسی آشیانے پر گرے گی اور پاکستان محفوظ رہے گا۔ خوش قسمتی سے میاں صاحب نے مشورے پر عمل کیا اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ پیر صاحب ایک مرتبہ پھر سچے نکلے ہیں اور میاں صاحب کے بچوں کے ملک کے وزیر اعظم کوچ کر گئے ہیں۔ سنا ہے کہ عمران خان صاحب نے اس بات پر شدید مایوسی کا اظہار کیا ہے کہ برطانوی وزیراعظم نے بغیر کسی دھرنے کے استعفی دینے کا اعلان کر دیا ہے حالانکہ برطانیہ میں تحریک انصاف کافی مضبوط ہے اور اس نے ایک کنٹینر کا بھی انتظام کر لیا تھا۔

برطانوی دیسی حلقوں میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ وہ کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح بھی میاں صاحب کو واپس بھیج دیا جائے، اس سے قبل کہ میاں صاحب کے بچوں کے ملک برطانیہ میں مارشل لا بھی لگ جائے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments