مجھ کو پھر نغموں پہ اُکسانے لگا مُرغِ چمن


”ہر وہ لیڈر جو یو ٹرن لیتا ہے وہ عظیم لیڈر ہوتا ہے“، یہ وہ بازگشت ہے جو اب تک ذہن ودل میں گونجتی رہتی ہے۔ جب بات عظیم شخصیات کی ہو رہی تھی تو علامہ اقبال شدت سے یاد آئے جن کے شاہین آج کل اونچی اُڑان بھرنے کے بجائے چھوٹے چھوٹے ڈیم بھرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس کے لئے جب جہاں موقع ملتا ہے، تیز پرواز کے د وران ہی یوٹرن لے لیتے ہیں۔

موجودہ حکومت کے بیانات دیکھ کر بچپن یاد آگیا جب ہر عید سے قبل ہی آدم جی آڈیٹوریم میں عمر شریف کا نیا مزاحیہ اسٹیج ڈرامہ ریلیز کیا جاتا تھا۔ اب عمر شریف کا بکرا قسطوں پر تو ڈرامہ سمجھ کر لطف اٹھایا جا سکتا ہے لیکن ایک ریاست کے امیر یعنی وزیر اعظم کا مرغی اور انڈے قسطوں پر کسی کو بھی ہضم نہیں ہو رہے۔ اس قدر مزاحیہ کلمات، بیانات و تقاریر تواتر سے جاری ہیں کہ کوئی عدالت از خود نوٹس ہی نہ لے لے کہ عوام کو اتنا مت ہنسائیں، آپ نے تو رلانے کا وعدہ کیا تھا جو صرف لاکھ دو لاکھ خاندانوں کے گھر اور دوکانیں گرانے سے پورا نہیں ہو گا۔

یقین مانیں مجھے اب کوئی اعتراض نہیں کہ سابقہ وزیر اعظم نواز شریف پرچی دیکھ کر بات کرتے تھے، ان کی اس بات کا اہلِ یوتھ نے سوشل میڈیا پر بہت مذاق بنایا تھا، لیکن جب محترم وزیر اعظم عمران نے ایک دن نستعلیق اُردو میں ٹویٹ کی تو نواز شریف والی پرچی بہت یاد آئی۔ ویسے نئے والے وزیر اعظم نے تو لگتا ہے کہ شاید آکسفورڈ میں پبلک اسپیکنگ کی ایک بھی کلاس اٹینڈ نہیں کی۔ بس کسی نے کہہ دیا کہ کھیلو گے کودو گے تو بنو گے نواب، نتیجہ اب قوم بھگتے۔ سو دن میں اتنے بھنڈ؟ اور اس میں وہ اکیلے نہیں باجماعت ہر کوئی حسب توفیق اپنا کردار نبھا رہا ہے۔

اب یا تو نستعلیق اردو والی ٹویٹ کسی لکھنوی استاد نے لکھ کر دی ہے یا انہوں نے خود ہی شب بھر عرق ریز محنت کے بعد مرتب کر لی، اللہ جانے۔ ان کی شخصیت کا یہ لکھنوی انداز چھپی رستمی ثابت ہوا، اس کا مطلب ہے کہ علامہ اقبال کا وہ گہرا مطالعہ فرما رہے ہیں، اور ان کی شہرہ آفاق نظم کے اس شعر، پھر چراغِ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن۔ مجھ کوپھر نغموں پہ اُکسانے لگا مُرغِ چمن۔ پڑھ کر ہی پولٹر ی فارم والا عظیم اقتصادی فارمولا ذہن میں آیا ہو گا۔

ویسے اگر یہ تحقیقی سلسلہ جاری رہے تو آئندہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ بھی اسی نظم سے نکل آئے کچھ بعید نہیں، بقول شاعِر مشرق، برگِ گل پہ رکھ گئی شبنم کا موتی بادِ صبح۔ اور چمکاتی ہے اس موتی کو سورج کی کرن۔ دیکھا سورج کی کرن یعنی سولر پینل کا ذکر کس باریک بینی سے کرگئے ہیں علامہ جسے آج کے علامہ عمران سمجھیں یا خدا سمجھے۔ ویسے جس دن ہمارے آئن اسٹائن انڈے اور مرغی والی اقتصادی لاجک پیش کر رہے تھے تو ایک گورے دوست نے پوچھا یہ اردو میں کیا کہہ رہے ہیں، میں نے کہا مت پوچھو۔ ہر بال کھیلنے والی نہیں ہوتی کوئی کوئِی جانے بھی دینی چاہِیے۔ ویسے دنیا بھر میں ہونے والی سُبکی دیگر پاکستانیوں کو بھی محسوس ہو رہی ہو گی۔

اس کہانی کے ایک اور اہم کردار جن کے بہت ڈھول پیٹے گئے تھے، جی ہاں اسد عمر کی صلاحیتوں سے کون انکاری ہے، وہ اتنے ہی با صلاحیت ہیں جتنے بقیہ پی ٹی آئی کی اوورسیز قیادت، جس کا نمونہ چیف جسٹس کے فنڈ ریزنگ والے پروگرام میں وائرل ہو چکا ہے۔ لیکن اسد عمر قوم کو ناکام اقتصادی پالیسی اور ڈالر کے مقابلے روپے کی بے قدری یہ کہہ کر قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اے مسلمانو فکر نہ کرو، پاکستان ستائیس رمضان کو بنا تھا۔ اب سوال تو بنتا ہے نا کہ کیا اس بار آئی ایم ایف سے مذاکر ات میں عمران کے مُرغِ چمن اور اسد عمر کی ستائیسویں شب پاکستان کے قیام والی دلیل بھی شامل کی جائے گی یا انہوں نے پاکستانی عوام کو بھولیا سمجھا ہوا ہے، احباب چاہیں تو حسب ذائقہ بھولیا کی جگہ اپنی پسند کا لفظ بھی تصور کر سکتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اس وقت انتہائی سنگین معاشی و اقتصادی بحران کا شکار ہے، جس کے لئے انتہائی سنجیدہ اقدامات اور غور و فکر کی ضرورت ہے، کیا ایسے وقت میں ایک ملک متحمل ہو سکتا ہے کہ عوام کو ”بھولیا“ بنانے کے لئے گورنر ہاوس کی دیواریں گرانا، گائے بھینسیں بیچنا، سرکاری گاڑیوں کا نیلام کروانا، لندن امریکہ کینیڈا فنڈ ریزنگ کرانا وقت کی اہم ضرورت ہے یا فیس سیونگ؟ سو دن بعد ”ہم مصروف تھے“ والے کروڑوں کے اشتہارات کس ذہین شخص کے ذہن کی اختراع تھے، جب کچھ کیا نہیں تو کس بات کے مصروف؟ نادانیوں کے سارے ریکارڈ توڑنے کی بہت جلدی ہے کیا آپ لوگوں کو؟ کوئِ دوسروں کے لئے بھی چھوڑ دو اللہ کے واسطے۔

حکومت کی جانب سے کی جانے والی عالمی سطح پر لابنگ خاص کر چین اور سعودی عرب کے ساتھ ملاقاتوں کا اگرچہ سوشل میڈیا پر بہت مذاق بنایا گیا لیکن ان کاوشوں کو سراہنے کی ضرورت ہے، ایسے وقت جب امریکہ کے سرد رویے کے باعث آپ جزوی تنہائی کا شکار ہیں، دوست مملک کی جانب ہی دیکھا جاتا ہے، اگرچہ چین، سعودیہ اور ملائشیا سے بھی کوئِ تسلی بخش پیکج تو نہ ملا لیکن کسی نہ کسی حد تک کچھ داد رسی ہوئی، سعودیہ اس وقت خود ایک عالمی تنہائِ کا شکار ہے جس کا مظاہرہ جی ٹوئینٹی ارجنٹائن میں سب نے دیکھ لیا۔ یہ ایک سبق ہے پاکستان کے لئے بھی کہ اظہارِ آزادیٔ رائے پر چنگیزی کارروائیوں کو بند کریں۔ مِسنگ پرسن، مَسخ لاشیں، ماورائے عدالت قتل، اب یہ سب زیادہ عرصے چلنے والا نہیں ہے۔

فاٹا ہو یا، بلوچستان، عزیز آباد ہو یا اندرونِ سِندھ، گلگت ہو یا بلتسستان، ظلم ستم، جبر و زیادتی، قید و بند، بندشیں، جھوٹے مقدمات، جعلی پولیس مقابلے، ان سب کا ڈیٹابیس اور جامع ریکارڈ دنیا کے بڑے انسانی حقوق کے ایوانوں میں جمع ہونا شروع ہو گیا ہے، سُنا ہے کہ مِسنگ پرسن پر امیرالملک، قاضی المومنین اور سپہ سالارِ اعظم کے درمیان چہ مگویوں کا سِلسلہ ء جنبانی چل پڑا ہے، دیکھ لیجے گا کہیں اور دیر نہ ہو جائے، ہماری اطلاع کے مطابق دنیا تک چار مختلف آوازیں نہیں بلکہ ایک مشترکہ متحد اور مکمل آواز پہنچانے کی تیاری ہو رہی ہے، مظلوم جب متحد ہوتے ہیں تو۔ افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخِر، تو حضور جتنا جلد ممکن ہو سکے اپنا نظام درست فرمالیجیے۔

دیکھا جائے تو نصرت فتح علی خانصاحب کا پڑھا ہو ا یہ کلام کہ، کوئِی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے، وہی خُدا ہے، یہی کچھ اس وقت پاکستان پر لاگو ہے، اور جو کوئی بھی عمران حکومت سمیت اس ملک کا نظام چلا رہا ہے، یاد رکھے کے وہ خُدا نہیں ہے، وہ خلائی نہیں خُدائی مخلوق ہے، اور ان کے لانے سے یا کسی کو نکالنے سے نظام نہیں چلتے، رزلٹ آج آپ کے سامنے ہے اُمید ہے کہ آپ خود بھی سر پکڑ کر بیٹھے ہوں گے کہ اس ملک کے ایوانوں میں ہم نے یہ کس شخص کو نصب کروادیا، ؟ کہیے محسوس رہی ہے نا سُبکی؟ خاص کر جب سج دھج کر غیر ملکی دوروں پر دیگر سربراہان مملکت اور اب آئی ایم ایف کے سامنے بیٹھ کر دستِ سوال دراز کرنا پڑتا ہے، کشکول پھیلانا پڑتا ہے، تو علامہ اقبال کی اسی نظم کا یہ مقطع یاد تو آتا ہو گا کہ۔ پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات۔ تُو جھکا جب غیر کے آگے نہ من تیرا نہ تن۔ تو میرے اے عزیز ہموطنو۔ ان خوبصورت کوہ و دمن، آبشاروں، دریاوں، سمندر، گاؤں دیہات، شہر، قصبوں کو برگِ گُل سمجھ کر قطرہء شبنم بنو، بم نہ برساو، کیونکہ یہ اپنے ہیں، جب ان کو گلے لگاؤ گے تو غیر کے آگے جھکنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔

انیس فاروقی، کینیڈا
Latest posts by انیس فاروقی، کینیڈا (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

انیس فاروقی، کینیڈا

انیس فاروقی ایک منجھے ہوئے جرنلسٹ، ٹی وی ہوسٹ، شاعر اور کالم نگار ہیں، اور کینیڈا میں مقیم ہیں۔

anis-farooqui has 19 posts and counting.See all posts by anis-farooqui