ہم اور ہمارا ماضی


ہمارے آج میں اور میں ہمارے ماضی میں کتنا فرق ہے؟ کیا ہمارا حال ہمارے ماضی سے بہتر ہے؟ کیا ہماری ماضی کی غلطیاں ہم سے قدم سے قدم مِلا کر چل رہی ہیں؟ یا تھک کر بیٹھ چُکی ہیں کہ اب اُن میں دہرائے جانے کی ہمت نہیں رہی۔ کیا ہمارے ماضی کے زخم بھر چُکے ہیں؟ یا ہم نے اُن زخموں کو کھروچ کھروچ کر اِس قدر خراب کر دیا ہے کہ اُن سے ہماری وحشت کی بُو آنے لگی ہے۔ اور اُس بُو میں خدائے ارض و سماں کی مخلوق جل جل کر راکھ ہو رہی ہے۔ اِن سب سوالوں کے جوابات جاننے کے لئے ہمیں اپنے ماضی میں جھانکنا ہو گا۔

ہمارا ماضی آدم کی پیدائش سے شروع ہوتا ہے۔ آدم کو پیدا کیا گیا پھر آدم کی تنہائی کو دور کرنے کے لئے اُسی کے جسم کے ایک حصے سے اُس جیسا مخالف جنس انسان پیدا کیا گیا کیونکہ تنہائی انسان کو دیوانہ بنا دیتی ہے اور اگر انسانیت کا باپ ہی دیوانہ ہو جاتا تو اُس کی اولاد اپنے ہی جسموں کو کچا چبا جاتی اور پھر اِس روئے زمین پر انسان نہیں بلکہ اِنسانوں کے تعفن زدہ ڈھانچے مِلتے۔ آدم سے ہوتا ہوا ہمارا ماضی ابراہیم (علیہ السلام) تک پہنچتا ہے۔

یہاں پہنچ کر ہمارا ماضی عشق کی اعلٰی مثال قائم کرتا ہے اور ہمیں دکھاتا ہے کہ کس طرح ایک عاشق اپنے عشق کی خاطر آتشِ دنیا کے نظارے کرتا ہے۔ اِس کے بعد ماضی محسنِ انسانیت (صلی اللہ علیہ وسلم) تک پہنچتا ہے۔ یہاں بھی ہمیں محبت کی لازوال داستاں دیکھنے کو ملتی ہے۔ ایسی داستاں کہ جس میں نہ پیٹ کی بھوک کی پرواہ اور نہ آنکھوں میں موجود نیند کی پرواہ تھی تو صرف ایک شے کی پرواہ کہ اے خدائے ارض و سماں ”میری اُمت میری اُمت“ مگر آج وہی اُمت چاند تک تو چلی گئی مگر دو اِنچ اپنے اندر نہ جھانک سکی۔ وہی اُمت جنھوں نے اُونچے محل بنا لیے اور اُن محلوں کے بادشاہ بن گئے مگر اپنے نفس کے غلام ہو گئے۔ آج اُسی محسنِ انسانیتؐ کے بتائے ہوئے دین کے ٹھیکیداروں کو مسجد کا پیسوں سے بھرا ہوا گَلا تو نظر آتا ہے مگر اُسی گَلے کے ساتھ بیٹھے بچے کے پیٹ کی بھوک نہیں۔

پھر ہمارا ماضی چودہ سو سال کا سفر روشن و تاریک پگڈنڈیوں سے طے کرتا ہوا وہاں پہنچ جاتا ہے جہاں مٹی سے بنا اِنسان اپنی دھرتی ماں کی مٹی کی خاطر اپنے جسم لُٹاتا اور کٹاتا نظر آتا ہے۔ ہمارا ماضی ہمیں چلتا چلتا وہاں لے جاتا ہے جہاں آزادی کی ایک کِرن دیکھنے کے لئے دریا پانی نہیں بلکہ خون بہا رہا تھا۔ وہ خون کسی چرند پرند کا نہیں بلکہ خدائے ارض و سماں کے نائب کا خون تھا۔ مگر آج ہمارا حال ہمیں دکھاتا ہے کہ ہم آج بھی خُون بہا رہے ہیں بس فرق ہے تو صرف اتنا کہ تب دھرتی کو حاصل کرنے کے لئے خون بہایا تھا اور اب اُسی دھرتی کو بانٹنے کے لئے خون بہا رہے ہیں۔

ہمارا ماضی ہمیں دکھاتا ہے کہ ایک دُبلا پتلا اِنسان اپنے اِرادے کی مضبوطی سے دنیا کے نقشے میں ہلچل مچا دیتا ہے۔ ہمارا ماضی ہمیں جذبوں سے بھرے سینے دکھاتا ہے جو کے توپوں کے سامنے تنے تھے۔ مگر ہمارا حال ہمیں منافقت سے بھرے سینے دِکھاتا ہے جن کو اپنے علاوہ کسی کی نہیں سُوجھتی۔ ہمارا ماضی ہمیں اِس دھرتی کی شان کو بلند کرنے کے لئے سپاہی *مقبول حسین* کی کٹتی زبان دکھاتا ہے۔ مگر ہمارا حال ہمیں چند کاغذ کے ٹکڑوں کی خاطر اِس دھرتی ماں کا کٹٹا گلا دکھاتا ہے۔

اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت بننے کے ساتھ ساتھ ہم نے اپنے ماضی کے دیوں میں *عبدالستار ایدھی* جیسے دیے کا اضافہ کیا۔ مگر بدترین معیشت اور ذلت کے سمندر کے غوطے کھانا ہمارے حال کا حصہ ہے۔ مگر ہم نے تو آج اپنے ماضی کو لائبریریوں میں بنی لکڑی کی الماری میں یُوں سجھا رکھا ہے جیسے ہم اُن کی نمائش سے اُن میں کھو جائیں گے اور وہ ظاہری نمائش سے ہمیں حفظ ہوں گی۔
ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے

میاں علی ارسلان
Latest posts by میاں علی ارسلان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).