با اختیار وزیر اعظم کی بے اختیاری


وزیر اعظم عمران خان کی صحافیوں کے ساتھ بات چیت میں واضح ہو گیا ہے کہ حکومت کو مکمل اختیارات حاصل ہیں۔ فوج کا سربراہ سول حکومت کی مرضی کے بغیر پر نہیں مار سکتا۔ اداروں کو اتنا با اختیار کردیا گیا ہے کہ سٹیٹ بنک جب چاہے روپے کی قدر میں کمی بیشی کرنے کا اختیار رکھتا ہے اور ملک کا با اختیار وزیراعظم ٹیلی ویژن کی خبروں کے ذریعے روپے کی وقعت میں اچانک کمی سے آگاہی حاصل کرتا ہے۔ ایسی آئیڈیل جمہوریت تو ان ملکوں میں بھی موجود نہیں ہے جہاں کی مثالیں دیتے ہوئے عمران خان نے عوام کو یقین دلایا ہے کہ اصلی جمہوریت کا سبق سیکھنا ہے تو ان کے آئیدیل برطانیہ اور امریکہ سے سبق سیکھیں۔

یہ الگ بات ہے کہ جب انہیں بالآخر اقتدار سنبھالنے کا موقع ملا تو انہیں مدینہ کی ریاست قائم کرنے کا اعلان کرنا پڑا۔ اس اعلان میں سب سے بڑی سہولت یہ ہے کہ اس بات پر مسلمانوں میں کبھی اتفاق نہیں ہو سکتا کہ مدینہ کی ریاست کیا تھی۔ اس لئے حکومت اور اس کے کارندے مدینہ ماڈل کے نام پر جو سیاسی معجون چاہیں، عوام کو فروخت کرسکتے ہیں۔

عمران خان نے اپنی حکومت کے سو دن پورے کرنے کے بعد کامیابیوں کے قصیدے عام کرنے کے لئے منتخب صحافیوں سے ملاقات کی اور دل کھول کر باتیں کیں۔ انہوں نے یہ نوید بھی دی ہے کہ ملک کے حالات اب سنبھل گئے ہیں اور بس اچھی خبروں کا انتظار کرنا شروع کردیں۔ ایک شاندار خبر انہوں نے یہ بھی سنائی ہے کہ امریکہ کے صدر ٹرمپ پر واضح ہو گیا ہے کہ پاکستان میں اب جھکنے والی نہیں بلکہ دبانے والی حکومت برسر اقتدار آچکی ہے۔ اس لئے انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کے نام ایک چٹھی میں یہ منت کی ہے کہ پاکستان، افغانستان میں امن قائم کرنے کے لئے امریکہ کی مدد کرے۔ وزیر اعظم نے کمال مہربانی سے اس درخواست کو قبول کرلیا ہے۔ اس طرح کل تک پاکستان کو دھوکے باز اور دھیلے کا کام نہ کرنے والا ملک قرار دے کر اس کی امداد بند کرنے کو درست فیصلہ قرار دینے والا امریکی صدر پاکستانی وزیر اعظم کی صاف گوئی اور دبنگ انداز حکومت کے سامنے بھیگی بلی بن چکا ہے۔

تاہم وزیر اعظم اور ان کے نمائیندے یہ بتانے کی زحمت نہیں کریں گے کہ امریکی صدر کے خط میں ایسی کون سی نئی بات ہے جس سے پاکستان کی قدر و منزلت میں چار چاند لگ چکے ہیں اور امریکی صدر اپنے کہے اورکیے پر پشیمان دکھائی دیتا ہے۔ افغانستان میں امن کے لئے امریکی صدر کا خط سفارتی معمول کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتا لیکن خود ستائی کے زعم میں مبتلا تحریک انصاف کی حکومت اور اس کا سربراہ اس روٹین معاملہ کو اپنی سفارت کاری کی عظیم فتح کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کررہا ہے۔

اسی طرح کی ایک فتح کا تسلسل سے اعلان کرتار پور راہداری کا سنگ بنیاد رکھنے کا معاملہ ہے۔ بلاشبہ حکومت کے پاس ایسے خیرخواہوں کی کوئی کمی نہیں ہے جو اس ایک واقعہ کو پاکستان کی سفارتی فتح اور نریندر مودی کی سب سے بڑی سفارتی اور سیاسی ناکامی قرار دینے کے لئے دلائل کے انبار لگا دیں گے۔ تاہم اس معاملہ میں بھی اگر خیر کا کوئی پہلو تھا تو وزیر اعظم خود اپنے ہی وزیر خارجہ کے ’گگلی کروانے‘ کے بیان کی وجہ سے دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں اور اسے کشمیر کے مسئلہ سے جوڑ کر یہ بتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ کرتار پور راہداری کے حوالے سے پاکستان نے بھارت کے ساتھ کوئی چالاکی نہیں کی ہے بلکہ یہ تو پاکستان کی طرف سے خیرسگالی کا پیغام ہے۔

آج صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ کرتار پور کے فیصلہ پر فوج پوری طرح ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ فوج کے ساتھ تعلقات کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے انہیں مثالی قرار دیا اور کہا ہے کہ ’تمام فیصلے میرے ہوتے ہیں اور ایک بھی ایسا فیصلہ نہیں ہوتا جس میں فوج ان کے ساتھ نہ کھڑی ہو‘ ۔ یہ صورت حال بیان کرنے کا دلچسپ انداز ہے کیوں کہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ فوج نے ملکی معاملات کو چلانے کا جو لے آؤٹ تیار کیا ہے تحریک انصاف کی حکومت پوری طرح اس پر عمل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

کرتارپور راہداری کے بارے میں فیصلہ کے مختلف پہلو ہی وزیر اعظم کی خوش فہمی کا پول کھولنے کے لئے کافی ہونے چاہئیں۔ اوّل تو پاکستان کی طرف سے یہ فیصلہ تحریک انصاف کی منتخب حکومت نے نہیں کیا۔ وزیراعظم سے لے کر وزیر خارجہ اور کابینہ کے دیگر ارکان تسلسل سے یہ گمراہ کن تاثر عام کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ فیصلہ جنرل قمر جاوید جاجوہ نے ذاتی حیثیت میں کیا تھا۔ اور اس کی پیش کش اگست میں عمران خان کے وزیر اعظم کے عہدہ کا حلف اٹھانے کی تقریب میں بھارت سے آئے ہوئے نجوت سنگھ سدھو کے ساتھ معانقہ کرتے ہوئے جنرل صاحب نے بنفس نفیس کی تھی۔ کہ پاکستان بابا گرونانک کی 550 برسی کے موقع پر کرتارپور میں گردوارہ دربار صاحب تک بھارت کے سکھوں کو رسائی دینے کے لئے سرحد کھولنے پر تیار ہے۔

یہ وعدہ کرتے ہوئے پاکستانی آرمی چیف نے کسی حکومت، وزیراعظم یا پارلیمنٹ سے اجازت لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔ باختیار وزیر اعظم ہونے کے گمان میں مبتلا عمران خان آرمی چیف کے اس وعدہ کو اپنی حکومت کی ’گگلی‘ سمجھ کر اسے پاکستان کی تاریخی سفارتی کامیابی قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ حالانکہ اگر وہ واقعی منتخب حکومت کے اختیار پر یقین رکھتے ہیں تو انہیں حلف اٹھانے کے بعد سب سے پہلے آرمی چیف سے یہ پوچھنا چاہیے تھا کہ انہوں نے کس حیثیت میں بھارت سے ذاتی حیثیت میں آئے ہوئے ایک کم درجہ سیاست دان نجوت سنگھ سدھو کو ایسی پیشکش کی ہے جس کا اختیار اصولی طور پر ملک کی پارلیمنٹ اور منتخب حکومت کو حاصل ہونا چاہیے تھا۔

عمران خان کا یہ دعوی غلط بیانی پر مبنی ہے کہ کرتار پور راہداری کا فیصلہ انہوں نے کیا ہے اور فوج اس معاملہ پر ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ صورت حال اس کے برعکس ہے۔ فوج نے ایک فیصلہ کیا اور اس کا باقاعدہ اعلان بھی کردیا گیا اور اب حکومت پورے جوش و خروش سے اس فیصلہ کو نہ صرف اپنا رہی ہے بلکہ اسے اپنی سفارت کاری کا ہنر بھی قرار دینے میں بخل سے کام نہیں لے رہی۔ اسی تصویر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ بھارت کی حکومت نے اگست میں کی گئی اس پیشکش کے بعد سے خاموشی اختیار کی ہوئی تھی۔

جس معاملہ کو پاکستان اپنی ’چال‘ یا سفارتی گگلی قرار دے رہا ہے، اس کا فیصلہ دو ہفتے قبل بھارت کی کابینہ نے کیا ہے۔ چار ماہ انتظار کرنے کے بعد بھارتی سرکار نے فیصلہ کیا کہ پاکستان کی طرف سے کرتار پور راہداری کی پیشکش کو قبول کرلیا جائے تاکہ بھارت کی سکھ کمیونٹی کو خوش کیا جاسکے۔ پاکستان کی فوج اور بھارتی کابینہ کے فیصلہ میں عمران خان اور ان کی حکومت کی حیثیت تو سہولت کار کی بھی نہیں ہے کجا کہ حکومت یہ دعویٰ کرے کہ یہ اس کی سوچی سمجھی سفارتی پیش قدمی ہے۔

پاکستان کی حکومت اور مثبت پہلو دیکھنے اور دکھانے والے تجزیہ نگاروں کو سمجھنا ہوگا کہ کرتار پور راہداری کا معاملہ اگرچہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے حوالہ سے خوشگوار باب کا آغاز ہو سکتا ہے لیکن اس معاملہ پر سیاست کرنے کے منفی اور مایوس کن نتائج بھی سامنے آسکتے ہیں۔ صرف کرتار پور کا راستہ کھول دینے سے بھارت کے ساتھ دہائیوں پر محیط غلط فہمیوں اور شکررنجیوں کا خاتمہ نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے لئے دیگر مثبت اقدام کرنے کی بھی ضرورت ہوگی۔

اسی طرح پاکستان کو اس غلط فہمی میں مبتلا ہو کر بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا کہ بھارت کے سکھوں کے دل جیت کر بھارتی حکومت کو دھوبی پٹرا دیا جا سکتا ہے یا کشمیر کے سوال پر کوئی نرم مؤقف اختیار کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ سکھ اسّی کی دہائی میں خالصتان کی ناکام تحریک چلا کر اپنی طاقت آزما چکے ہیں۔ اب وہ بھارت میں پاکستان کے ایجنڈے کے لئے پراکسی قوت کا کردار ادا کرنے پر تیار نہیں ہوں گے۔ اس طرح انہیں بھارت میں حاصل اپنی سیاسی قدر و قیمت سے بھی ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ اگر پھر بھی خوش فہمی سے نجات ملنا مشکل ہو تو پاکستانی لیڈروں اور مبصروں کو نجوت سنگھ سدھو کی خوش کلامی کے ساتھ بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ کی تلخ کلامی کو بھی سن لینا چاہیے۔

روپے کی قدر میں کمی کو اسٹیٹ بنک کا فیصلہ اور اس سے اپنی بے خبری کو اداروں کی خود مختاری قرار دینے والے وزیر اعظم کو اس سراب سے بھی باہر نکل آنا چاہیے کہ کسی بھی جمہوری یا غیر جمہوری حکومت میں ریاستی بنک حکومت کے مقرر کردہ معاشی اہداف کو پیش نظر رکھے بغیر کرنسی کی قدر میں کمی بیشی کے اقدام کرسکتا ہے۔ جن ملکوں کے نظام کا حوالہ دیا جاتا ہے وہاں کی حکومتیں خواہ اپنے سنٹرل بنک کے فیصلوں پر اثر انداز نہ ہو سکتی ہوں لیکن اوّل تو انہیں اس قسم کے اقدام سے باخبر رکھا جاتا ہے۔

دوئم سنٹرل بنک ان معاشی پالیسیوں کو عملی طور سے نافذ کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں جو حکومت طے کرتی ہے۔ عمران خان اگر روپے کی بے قدری سے بے خبر تھے تو اس کی وجہ اسٹیٹ بنک کی خود مختاری نہیں ہے بلکہ وزیر اعظم کا اپنا تساہل ہے یا ان کے وزیر خزانہ انہیں ایسے معاملات میں بروقت معلومات فراہم کرنا ضروری نہیں سمجھتے۔

اس لئے بہتر ہوگا کہ روپے کی قدر پر مزید گمراہ کن بیان داغنے سے پہلے عمران خان، اسد عمر سے پوچھ لیں کہ انہیں آئی ایم ایف سے معاملات طے کرنے کے لئے روپے کی قدر کو مزید کس حد تک کم کرنے کی ضرورت ہے۔ روپے کی قدر کو برقرار رکھنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ملک کی معیشت مضبوط و توانا ہوگئی ہے بلکہ غیر پیداواری معیشت میں ایسا اقدام حکومت کے وسائل پر بوجھ میں اضافہ کا سبب بنتا ہے۔ روپے کو مستحکم کرنے کے لئے ملکی معیشت کی پیدا واری صلاحیت میں اضافہ ضروری ہے۔ یہ اضافہ نعرے لگانے یا بیرون ملک سے لوٹ کا مال وصول ہونے کا انتظار کرنے سے نہیں ہوگا۔

وزیر اعظم کی باتوں سے البتہ ایک بات پھر واضح ہوگئی ہے کہ معیشت ہو سیاست ہویا سفارت، ان کی حکومت سمت کا تعینکیے بغیر منزل پر منزل مارنے کا اعلان کررہی ہے۔ ایسا سفر رائیگانی اور خسارے کے سوا کوئی دوسرا پیغام نہیں دیتا۔ اسی لئے عمران خان کی ہر بات کی تان کرپشن اور لوٹ مار کرنے والے سیاست دانوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا دعویٰ کرنے پر ٹوٹتی ہے۔ جب حکومت کے پاس کوئی ورکنگ ایجنڈا ہوگا تو وزیر اعظم کی گفتگو بھی نرگسیت سے بھرپور اور بے معنی نہیں رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali