استنبول میں فلسطین پر بین الاقوامی میڈیا کانفرنس


فلسطین اور کشمیرکے مسئلوں نے پچھلے 70 برسوں سے امت مسلمہ کو لہولہان تو کیا ہی تھا، کہ اب دیگر مسئلے یعنی یمن، شام، افغانستان و عالمی طاقتوں کی ایما پر ایران و سعودی عرب چپقلش اس کو مزید تار تار کر رہے ہیں ۔ سرد جنگ کے خاتمہ اور اسکے نتیجے میں مغربی ایشیا میں رونما ہونے والے واقعات خصوصاً عراق و کویت کے ایشو نے جہاں عالمی ترجیحات میں کشمیر کی درجہ بندی کو نقصان پہنچایا،وہیں نوآبادیاتی مخالف تحریکوں کے کمزور ہونے سے فلسطین بھی پس پشت چلا گیا۔

ناواستہ تحریک یعنی نان الائنڈ موومنٹ (نام) کا لیڈر ہونے کے ناطے سرکاری طور پر بھارت فلسطینی تحریک کا پرزور حمایتی ہوتا تھا۔ مگر اب وزارت خارجہ کے افسران علی الاعلان کہتے ہیں کہ اب فار ن پالیسی کا محور’ نظریہ‘ نہیں بلکہ’ نیشنل انٹریسٹ ‘ہے اور موجودہ دور میں مخففـ’’ نام‘‘ کا یہی خلاصہ ہے۔

دنیا کے سامنے فلسطینی عوام کی دشواریوں اور عالمی رائے عامہ کو ایک بار پھر ہموار کرنے کی غرض سے ترکی کے تاریخی شہر استنبول میںنومبر کے آخری عشرہ میں ایک عظیم الشان میڈیا کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں 65 ممالک کے 750 صحافیوں، دانشوروں، مصنفین اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے حصہ لیا۔

کا نفرنس کا اہتمام فلسطین انٹرنیشنل میڈیا فورم نے کیا تھا ۔حیرت کی بات تھی کہ جہاں بھارت سے انڈو ۔فلسطین فاونڈیشن کی ایما پر سات صحافیوں نے شرکت کی، حتیٰ کہ سری لنکا و مالدیپ سے بھی مندوبین استنبول آپہنچے تھے، مگر پاکستان کی صحافی برادری کی عدم نمائندگی کھٹک رہی تھی۔

افتتاحی اجلاس میں ہی کانفرنس کے منتظم اعلیٰ فلسطین انٹرنیشنل میڈیا فورم کے سیکریٹری جنرل ہشام قاسم اور یورپی کمیشن کی سابق نائب صدر نے دنیا بھر سے آئے صحافیوں کے سامنے واضح کر دیا کہ کس طرح فلسطین کی رپورٹنگ میں حقائق کو نظراندازکیا جا رہا ہے۔

فلسطین و مغربی ایشیا ء پر د ہائیوں سے رپورٹنگ کرنے والے صحافی و مصنفین باب وائٹ اورجونانتھن اسٹیل جیسے بڑے نام بھی پروگرام کا حصہ تھے۔ پروگرا م میں سعودی صحافی جمال خاشقجی بھی حصہ لینے والے تھے۔ منتظمین نے ان کی عدم موجودگی میں ان کے لئے مخصوص کرسی خالی رکھی تھی۔

کانفرنس ہال کے باہر ایک نمائش کا اہتمام کیا گیا تھا ، جس میں آزادی کی اس لڑائی میں قربان ہونے والے افراد کی تصویریں، خاکے اور کپڑے و ذاتی سازوسامان ایک جذباتی ماحول پیدا کر رہا تھا۔ وہیل چیئرپر فوٹو جرنلسٹ فیض مومن کے ساتھ تصویر لینے کے لیے ایک قطار لگی تھی۔ 2008ء میں غزہ کی ناکہ بندی کے دوران وہ جب راحت رسانی کے کام میں مصروف تھے کہ اسرائیلی فوج نے گرنیڈ داغا اور ان کے جسم کا نیچے کا حصہ بالکل ختم ہوگیا۔

عزیمت و استقلال کی مثال مومن آج بھی پوری طرح سرگرم ہے اور غزہ میںاسی حالت میں فوٹو جرنلسٹ کا کام کر رہے ہیں ۔ اس کانفرنس میں کئی مندوبین نے بار بار مہاتما گاندھی کے نومبر 1938ء کے اس خط کا تذکرہ کیا ، جس میں اسنے اسرائیل کے قیام کی مخالفت کی تھی اور لکھا تھا، کہ ’’ فلسطین پر عربوں کا حق بالکل اسی طرح ہے، جس طرح انگریزوں کا انگلینڈ پر اور فرانسیوں کا فرانس پر ہے‘‘۔

صدر پرناب مکھرجی نے 2015ء میں اردن اور فلسطین کے دورہ کے دوران گاندھی کے ہریجن اخبار میں چھپے اس خط کے اقتباسات کو اپنی تقریروں میں اور عرب لیڈروں کے ساتھ بات چیت کے دوران بھارت کی تاریخی قربت اور حمایت جتانے کیلئے خوب استعمال کیا۔

مگر شاید ان کو معلوم نہیں کہ بھارت کی ایک موخر سرکاری تھنک ٹینک کی کاوشوں سے حال ہی میں جواہر لال یونیورسٹی کے پرفیسر پی آر کمار سوامی کی تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ عالمی جنگ عظیم دوم کے بعد گاندھی کے اسرائیل اور صیہونیت کے تئیں اپنا نظریہ تبدیل کیا تھا۔

گاندھی اور دیگر کانگرسی لیڈروں نے صیہونیت کے ساتھ اپنی قربت صرف اسلئے چھپائی تھی کیونکہ وہ ایک طرف بھارت کی مسلم آبادی سے خائف تھے، دوسری طرف عربوں کو خوش رکھنا چاہتے تھے، جن سے بھارت کے وسیع تر اقتصادی اور انرجی مفادات منسلک تھے۔

1937ء کی ایک میٹنگ کا حوالہ دیکر پروفیسر کمار سوامی کہتے ہیں، کہ جنوبی افریقہ میں گاندھی کے دوست رہے ایک یہودی ہرمین کالینباچ 23سال بعد جب ان سے ملے تو ایک لمبی گفتگو کے بعد گاندھی نے صیہونیت کے بارے میں ایک بغیر دستخط شدہ بیان ان کے سپرد کیا۔

کالینباچ نے یہ بیان عالمی صیہونی آرگنائزیشن کے صدر چیم ویزمین کے حوالے اس ہدایت کے ساتھ کیا، کہ گاندھی اسکی تشہیر نہیں چاہتے ہیں۔ فلسطین ، ایک قومی آزاد ی کی تحریک اور مہاجرین کی باعزت واپسی کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کے مفادات سے بھی وابستہ ہے۔

اس مسئلہ کے حل کیلئے ان تینوں محرکات کو زیر نظر رکھنا لازمی ہے۔ فلسطینی عوام و مہاجرین کو صرف نظر کرتے ہوئے اسرائیل سے دوستی کی خاطر عرب ممالک سعودی عرب واردن یامصر یک طرفہ طور پر کوئی بھی حل فلسطینیوں پر تھو پ نہیں سکتے، وہیں القدس یا یروشلم کے مستقبل کے حوالے سے دنیا کے دیگر خطوں میں رہنے والے مسلمان بھی کوئی یک طرفہ حل قبول نہیں کرینگے۔

چند برس قبل جب میں حیفہ سے تل ابیب اور فلسطینی اتھارٹی کے دارلحکومت رملہ سے ہوتے ہوئے بذریعہ بس یروشلم آن پہنچا، خوش قسمتی سے یہ جمعہ تھا۔ میں نے میزبانوں کو پہلے ہی تاکید کی تھی کہ میں کسی اور پروگرام میں شرکت نہیں کروں گا اور جمعہ کی نماز مسجد اقصیٰ میں ادا کروں گا۔

مسجد کا حرم ایک وسیع احاطہ ہے، جس کے مرکز میں قبتہ الصخرہ یا Dome of Rock واقع ہے اور شمال میں چاندی کے گنبد والی مسجدہے۔ جمعہ کو احاطہ میں غیر مسلموں کا داخلہ ممنوع ہے۔ دیگر دنوں میں غیر مسلم سیاح احاطہ میں تو داخل ہوسکتے ہیں، مگر مسجد اور قبتہ الصخرہ کے اندر انکو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔

احاطہ کی مغربی دیوار یہودیوں کیلئے مخصوص ہے، اس کو دیوار گریہ کہتے ہیں (جاری ہے) گو کہ یروشلم شہر اسرائیلوں کے قبضہ میں ہے، مگر حرم کا انتظام و انصرام ا ردن کے اوقاف اور وہاں کی ہاشمی بادشاہت کے پاس ہے۔

بتایا گیا کہ مسجد میں داخلے کیلئے مجھے اپنے آپ کو مسلمان ثابت کروانا پڑے گا۔ گیٹ کے بار اسرائیلی سیکورٹی کا ہتھیار بند دستہ موجود تھا، بالکل سرینگر کی جامع مسجد کا سین لگ رہا تھا۔ ایک اہلکار نے مجھے روک کر پاسپورٹ طلب کیا۔ دوسرے اہلکار نے مجھے کوئی سور ۃ سنانے کیلئے کہا۔ اس امتحان کو پاس کرنے کے بعد اہلکار نے قرآن شریف اٹھا کر اس سے آیات پڑھنے کیلئے کہا۔ خیر تسلی و تشفی کرنے کے بعد مجھے گیٹ کی طرف جانے کی اجازت مل گئی۔

مگر ابھی فلسطینی سیکورٹی کا سامنا کرنا باقی تھا۔ گیٹ کے اندر فلسطینی اہلکاروں نے پاسپورٹ مانگا۔ میں نے دیکھا وہاں بھی قرآن شریف رکھا ہوا تھا اور شناخت کا مرحلہ کچھ زیادہ ہی سخت تھا۔ ملیشیا کے ایک زائر کا ایک طرح سے انٹروگیشن ہو رہا تھا۔ اب شاید میری باری تھی۔

میں نے پوری عربی صرف کرکے فلسطینی اہلکار کو بتایا کہ میں انڈین پاسپورٹ پر کشمیر سے تعلق رکھتا ہوں۔ پاسپورٹ میں میری جائے پیدائش دیکھ کر پلک جھپکتے ہی اس کا موڈ بد ل گیا۔ کرسی سے کھڑا ہوکر گلے لگا کر اسنے اپنے افسر کو آواز دی اور عربی میں شاید میرے کشمیر ی ہونے کا اعلان کیا۔

مقبوضہ علاقوں کا مکین ہونے کا کنکشن بھی کیا عجیب ہوتا ہے، یہ احساس اس کانفرنس کے دوران بھی ہوا اور فلسطینی علاقوں میں گھومنے کے دوران بھی اس کا قد م قدم پر احساس ہوا۔ افسر نے بھی مصافحہ اور معانقہ کرنے کے بعد حکم دیا کہ نماز ادا کرنے کے بعد اسکے کیبن میں حاضر ہوجائوں۔

میں جب صف میں جگہ بنا رہا تھا تو امام صاحب خطبہ دے رہے تھے۔ اس کا ایک ایک لفظ دل و دماغ کو جیسے جھنجھوڑ رہا تھا۔ مجھے یقین ہی نہیں آرہا تھا، کہ میں ملت اسلامیہ کی مظلومیت کی نشانی مسجد اقصیٰ کے اندر اللہ کے رو برو کھڑا ہوں۔ مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کرنے اور دعا مانگنے کا احساس لفظوں میں بیان کرنا ناممکن ہے۔

میں ایک کونے میں مسجد کی تاریخ کو کرید رہا تھا۔ بچپن میں سلاتے ہوئے دادی کی سنائی ہوئی پیغمبروں اور غازیوں کی کہانیاں دماغ میں گونج رہی تھی کہ فلسطینی سیکورٹی افسر مجھے تلاش کرتے ہوئے آپہنچا۔ مجھے رقت آمیز دیکھ کر وہ بھی آبدیدہ ہوگیا۔ خیر موجودہ عالمی تناظر میں عالمی برادری کی توجہ ان تنازعات کی طرف مبذول کرنے کیلئے نظریاتی پہلوئوں کے علاوہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔

1979ء میں جب ناروے کی سمندری حدود میں پیٹرولیم کے ذخائر نکالنے کا کام شروع ہوا ،تو ملک کے اندر اور یورپ و امریکہ کے متعدد عیسائی اور یہودی اداروں نے اوسلو حکومت پر دبائو ڈالا کہ یہ تیل اسرائیل کو ارزاں نرخ پر یا مفت مہیا کرایا جائے۔ ان کی دلیل تھی، چونکہ تیل کی دولت سے مالامال عرب ممالک اسرائیل کو تیل فراہم نہیں کرتے ہیں اور ایران میں مغرب نواز حکومت کا تختہ پلٹنے سے انرجی کی فراہمی اور زیادہ مشکل ہوگئی ہے، اسلئے ناروے کو اپنے وسائل یہودی ریاست کی بقا ء کیلئے وقف کردینے چاہئے۔

ناروے کی 150رکنی پارلیمان میں اسوقت 87اراکین فرینڈز آف اسرائیل تنظیم کے سرگرم رکن تھے۔مگر کوئی فیصلہ کرنے سے قبل ناروے کے وزیر اعظم اوڈوار نورڈلی نے فلسطین لیبریشن آرگنائزیشن یعنی پی ایل او کے راہنمائوں اور عرب ممالک کا موقف جاننے کی خواہش ظاہر کی۔

بیشتر عرب ممالک نے اسرائیل کو انرجی مہیا کروانے کی پر زور مخالفت کی ۔ ان کی دلیل تھی کہ اس کے بعد اسرائیل اور بھی زیادہ شیر ہو جائیگا اور امن مساعی مزید دشوار ہو جائیگی۔

مگر پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات نے ناروے کے وزیر اعظم کو بتایا کہ’’ چاہے آپ اسرائیل کو تیل فراہم کریں یا نہ کریں، وہ یہ تیل حاصل کرکے ہی رہیگا۔ براہ راست نہ سہی بالواسطہ دنیا میں کئی ملک اور افراد ہیں جو یہ خرید کر اسرائیل کو فراہم کریں گے۔ لہٰذا بہتر ہے کہ ناروے اسرائیل کے ساتھ اپنی خیر سگالی کا خاطر خواہ فائدہ اٹھا کر فلسطینی قیادت اور اسرائیل کے درمیان پس پردہ مذاکرات کا سلسلہ شروع کرواکے ثالث کا کردار نبھائے۔‘‘

14سال بعد ناروے کی کاوشوں کی صورت میں اوسلو اکارڈ وجود میں آیا۔ جس کی رو سے فریقین نے ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے دو ریاستی فارمولہ پر مہر لگائی ۔ یاسر عرفات کو فلسطینی اتھارٹی کا سربراہ تسلیم کیا گیا اور مغربی کنارہ اور غزہ کی پٹی ان کے حوالے کی گئی۔

بعد میں بد قسمتی سے اسرائیل نے مکمل فلسطینی ریاست کے قیام اور ریفوجیوں کی واپسی کے معاملے میں مسائل پیدا کردیئے، جس کی وجہ سے اوسلو اکارڈ کی روح ہی فنا ہوگئی اور قیام امن کے بجائے خطہ کا مستقبل مزید مخدوش ہو گیا ۔اس واقعہ کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ ممالک جو اسرائیل کی دوستی کا دم بھرتے ہیں، انکو ایران و خلیجی ممالک کے ذریعے بتایا جائے کہ نہ صرف انرجی کا حصول، بلکہ تمہاری اقتصادیات کی شہ رگ مسئلہ فلسطین کے حل میں پوشیدہ ہے۔

اسلئے کم از کم اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات بروئے کار لاکر فلسطینی عوام پر ظلم و ستم کے دریا بند کرو۔ ناروے کی طرح اگر بھارت بھی مغربی ایشیا میں پس پردہ امن بحالی کیلئے رول ادا کرتا ہے تویہ احسن قدم ہے۔

مگر کاش وزیر اعظم مودی اسی حکمت عملی سے کام لیکر پاکستان کے سا تھ بھی امن مساعی شروع کرواکے قضیہ کشمیر کا بھی دائمی اور حتمی حل ڈھونڈنے کا تہیہ کریں اور اپنے ملک میں بھی اقلیتوں کو تحفظ کا احساس کراوائیں۔ان کی اس پہل سے جنوبی ایشیا بھی چین کی سانس لیکرتعمیر و ترقی میں دنیا کی راہنمائی کرسکے گا۔

بشکریہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).