ڈپریشن کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟


ہنستی مسکراتی پیلے رنگ کی ساڑھی میں ملبوس ایک خوبصورت اٹھارہ یا بیس سالہ لڑکی جب یہ لکھے کہ میں مر جاؤں تو بہار کے ان دنوں میں مجھے اسی ساڑھی میں یاد رکھنا اسی طرح مسکراتے ہوئے تو آپ سوچ سکتے ہیں کہ وہ اتنی سی عمر میں کتنی صدیوں کا سفر طے کر چکی ہوگی کس کس شخص اور واقعے نے ملا کر اسے اس نہج تک پہنچایا ہوگا جہاں پر اتنی کم عمر میں اس کے ذہن میں  ِ’موت خوبصورت ہے، موت ہی علاج ہے‘  جیسے خیالات لپکے ہوں گے، وہ خوبصورت لڑکی جس کی آنکھوں  کے نیچے ایک ستارہ رہتا تھا جو خود ایک ٹوٹتا ستارہ بن گئی۔

وجہ بھی بہت عام تصور کی جاتی ہے جو کسی کو بھی ہو سکتی ہے مجھے، آپ کو یا روبن ولیم جیسے عظیم انسان کو جو لوگوں کے چہرے پر فقط مسکراہٹیں بکھیرنا اور بانٹنا جانتا تھا لیکن اپنے لئے ایک مسکراہٹ ادھار تک نہ مل سکی اور سب غموں کا، تمام تکلیفوں کا مداوا خودکشی کی صورت میں مل گیا، مکتی پا گیا۔

دنیا بھی بہت ظالم، کم ظرف اور ناکام ہے، کم ظرفی کی حد دیکھیئے کہ جسمانی بیماری واقعی بیماری ہے لیکن دماغی سکون لازمی نہیں، کوئی بیماری ہو گئی ڈٓاکٹر کے پاس جاؤ، دم درود کراؤ، بیرون ملک چلے جاؤ کیونکہ سرجری کرانی ہے، آنکھ خراب ہے، بازو ناکارہ لیکن اگر ڈپریشن اور انگزائٹی ہے تو نکما نا کارہ اور پاگل ہے۔ ارے فضول سوچوں کو ذہن سے نکال کر تو دیکھو، اٹٓینشن سیکر مت بنو وغیرہـ مطلب جو نظر آئے وہ بیماری لیکن نہ دکھنے والی پریشانی اور ڈپریشن ایک ڈرامہ ہے کیونکہ محسوس تو احساس رکھنے والے کرتے ہیں۔ کسی کو درد بتایا کیسے جائے کہ لوگ یہی کہیں گے اس کا رونا ہی ختم نہیں ہوتا، بہت بڑی فلم ہے یہ تو، جب ایسے الفاظ اور جملے ہر طرف سے سننے کو ملیں کوئی سکون سے دو گھڑی بیٹھ کے بات کرنے والا نہ ہو تو ایسے حالات میں خودکشی سب سے آسان حل نظر آتا ہے۔ بےبسی کی زندگی سے بہتر روز روز کے مرنے سے اچھا ایک ہی بار کا لگتا ہے، ایسا کون ہے جو روزانہ کی بنیاد پر پاگل، سائیکو اور مینٹل کہلانا پسند کرے اور پھر یہ کہ اچھا ٹھیک ہو جاؤ گی۔ سب کو ہوتا ہے سکون رکھو لیکن اتنے ناکام ہیں ہم کہ ہم ان کو سمجھ نہیں پاتے اور کتنے پیاروں کو ایسے ہی کھو دیتے ہیں، لیکن کیا تھوڑا سا پیار کچھ ہمدردی کے بول کسی انسان کو تمام عمر کے کھو دینے سے بہتر نہیں ہیں؟

WHO ورلڈ ہیلتھ اورگنائزیشن کے ایک سروے کے مطابق دنیا میں ہر سال تقریباً آٹھ لاکھ لوگ  ڈپریشن کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور اس مرض میں مبتلا  مریضوں کی تعداد اوسطاً تیس کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے جسکا مطلب یہ ہوا کہ ہر چار میں سے ایک بندہ کسی نہ کسی حوالے سے ڈپریشن کا شکار ہے خواہ وہ ذاتی وجوہ کی بنیاد پر ہو یا معاشی، معاشرتی اور ثقافتی عوامل کی وجہ سے۔ WHO کے ہی ایک اور سروے کے مطابق سال 2020 تک دنیا بھر میں نوجوانوں میں اموات کی دوسری بڑی وجہ ڈپریشن یا پریشانی ہو گی جو کے ایک انتہائی خطرناک صورتحال ہے۔

ڈپریشن کی کئی اقسام ہیں اور ان کا سدباب کرنے کے مختلف طریقے بھی ہیں کیونکہ یہ پاگل پن سے مشروط نہیں ہے بلکہ آپ کو دل اور ذیابطیس جیسی بیماریوں کے ساتھ ساتھ معدہ کی بیماری اور السر جیسے تحائف بھی دیتی ہے، اسکے علاوہ موٹاپا، بھوک، نیند کی کمی اور زیادتی بھی اسی کی دین ہیں اور ڈپریشن کے مریض کو پہچاننے میں یہ عوامل کافی سودمند تصور کئیے جاتے ہیں

میجر ڈپریشن میں انسان بیک وقت ناامیدی اور دلیری کی ان متضاد کیفیات سے گزر رہا ہوتا ہے جہاں پر بسااوقات اسے اپنی جان لینا ایک کھیل لگتا ہے، ایسے ہی مختلف اقسام کی ڈپریشن میں قریباً ایک ہی جیسے مسائل ہوتے ہیں لیکن انکا علاج جو صرف تھراپیز، انٹی ڈپریسنٹ اور مسل ریلیکسنٹ تک محدود کر دینا درست نہیں، ڈپریشن کے مریض کو سب سے ضرورت توجہ، ہمدردی اور پیار کی ہوتی ہے اسے بیچارگی سے نفرت کے باوجود ایک کندھا لازماً درکار ہوتا ہے انحصار کرنے اور سننے کے لیے۔

اسکا شکار ہر ایک انسان زندگی میں ایک مرتبہ ہوتا ہی ہے اسکا تعلق مجھ سے آپ سے یا کسی سے بھی بن سکتا ہے سو اس کے سد باب اور روکنے کے لئے سب سے پہلے اس کو بھی باقی امراض کی طرح ایک مرض سمجھنا ضروری ہے، اگر آپ کو ہے تو زندگی کتنی خوبصورت ہے یہ دیکھیے۔ اس میں رنگ تلاش کیجئیے دوسروں کی پریشانیاں سمجھئیے اور ہمدردی پیار کی صفات پیدا کیجئیے، کہنا اگر مشکل ہے تو کرنا مشکل ترین لیکن یقین مانئیے ز ندگی خوبصورت ہے اور اگر گرد ونواح میں  کوئی اسکا شکار ہے اس میں مبتلا افراد کو اپنائیت کا احساس اور زندگی سے پیار ترس اور ہمدردی سے نہیں بلکہ رحمدلی اور نرمی سے، دوست بن کے دلانا نہایت ضروری ہے ، یہ بھی ضروری ہے کہ اس سے آگاہی کے لئے سکولوں، کالجوں اور ہونیورسٹیوں میں باقاعدہ پروگرامز اور سیشنز کا انعقاد کیا جائے، اگر کوئی پریشان ہے تو خدارا اسے سنیں اور محسوس کریں اٹینشن سیکر اور سٹنٹ میکر کہنے کے بجائے اسکے حالات و واقعات اور گزرنے والی چیزوں کو جاننے کی کوشش کریں۔ پیار کے دو لفظ اور ہمدردی کے دو بول بھی بسا اوقات زندگی طرف واپس لانے کا سبب بن سکتے ہیں۔

ورنہ ہم روزانہ نجانے کتنے روبن ولیمز، روشان فرخ، انعم تنولی اور چیسٹر بینگنٹن کھوتے رہیں گے جو کے اپنی بےبسی اور معاشرے کی بےحسی کی بھینٹ چڑھ گئے، اگر ان کا مرنا حرام ہے تو ہم جیسے بےحسی سے بھرپور لوگوں کی زندگی بھی کچھ خاص حلال نہیں۔۔۔

کوئی خود کشی کی طرف چل دیا

اداسی کی محنت ٹھکانے لگی۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).