برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی، اسباب اور فائدہ نقصان


\"zeeshanیورپی یونین باقاعدہ طور پر یکم نومبر 1993 میں Maastricht معاہدہ کے نتیجے میں قائم ہوئی۔ جب یورپی یونین کا قیام عمل میں لایا گیا تھا تو اس وقت اس موضوع پر خوب بحث ہوئی کہ اس کا معاشی طور پر فائدہ ہے بھی یا نہیں۔ میرا ذاتی خیال ہے جو میں نے یورپی تاریخ کے مطالعہ سے اخذ کیا ہے کہ یونین کا فیصلہ معاشی سے زیادہ سیاسی بنیادوں پر کیا گیا تھا، اس وقت بھی معیشت دانوں میں یہ تقسیم پائی جاتی تھی۔ کچھ معیشت دانوں کے نزدیک ایک مارکیٹ اور ایک یورپ کا معاشی طور پر بہت فائدہ ہے جبکہ اکثر معیشت دانوں کا اصرار تھا کہ اگر اس اس کا دائرۂ کار مانیٹری و فسکل پالیسیز تک پھیلا دیا جاتا ہے تو اس سے رکن ممالک کا نقصان ہے-

یورپی یونین اپنے ایک سیاسی مقصد میں تو خوب کامیاب ہوئی۔ اس نے پوسٹ فاشسٹ ممالک جیسے سپین پرتگال اور Greece کو خوبی سے جذب کیا اسی طرح پوسٹ سوویت ممالک بھی اس کا حصہ بن کر لبرل اداروں کے بندوبست میں آگئے۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ یورپی یونین نے جس سیاسی و معاشی فلسفہ کو اپنا رہنما بنایا وہ فلسفہ اپنی اصل میں عملی طور پر برطانیہ و امریکہ سے متاثر تھا اور کسی حد تک ان کی نقل تھا۔

انیس سو ننانوے میں یورپی یونین نے سنگل مارکیٹ سے سنگل کرنسی یعنی مانیٹری پالیسی کی طرف قدم اٹھایا اور یورو کرنسی کا اجراء ہوا۔ اس وقت یورو ممالک کی تعداد 19 ہے۔ میری ذاتی رائے میں یہ وہ فیصلہ تھا جس نے یورپی یونین میں معاشی مسائل کو جنم دیا۔ اب یورو پالیسی سب کی مشترکہ تھی مگر فسکل پالیسی کسی حد تک آزاد، نتیجہ ان کے درمیان ہم آہنگی کی کمی کی صورت میں نکلا اور مسائل پیدا ہونا شروع ہوئے۔ اس وقت وہ ممالک جن کی اپنی نیشنل کرنسی ہے وہاں بے روزگاری کی شرح یورو ممبر ممالک سے کم ہے۔

یہ بات درست ہے کہ سنگل مارکیٹ کا سب سے زیادہ فائدہ جرمنی اور فرانس کو ہوا ان کی معاشی طاقت میں اضافہ ہوا۔ اسی طرح نئے شامل ہونے والے پوسٹ کمیونسٹ ریاستوں نے بھی خوب فائدہ اٹھایا۔ خاص طور پر امیگریشن کی مد میں جہاں غریب ممبر ممالک کی افرادی قوت نے امیر ممبر ممالک کی طرف آزاد ہجرت کی۔ ثقافتی تبدیلیاں بھی ہمہ جہت رہیں۔ مگر کچھ ممالک جیسے اٹلی نے کافی معاشی نقصان اٹھایا۔

یورپی یونین کے داخلی مسائل کا اصل انکشاف یونانی بحران کے دوران ہوا۔ جب مارکیٹ میں بحران آیا اور یونانی حکومت فورا کوئی رسپانس نہ دے سکی اور نہ ہی یورپی یونین کی نتیجہ خیز حل پر اتفاق کر سکی، جس کی بڑی وجہ رکن ممالک کا پالیسیز پر اختلاف تھا۔ اس اختلاف کے حل میں جتنی دیر ہوئی اتنا ہی معاملہ بگڑتا گیا۔ اس وقت اٹلی و سپین بھی معاشی مسائل میں مبتلا ہیں مگر رکن ممالک کے درمیان عدم اتفاق رائے کی وجہ سے پیش رفت سست روی کا شکار ہے۔ یونان کو اکثر معیشت دانوں کا مشورہ تھا کہ وہ یورو کی رکنیت چھوڑ دے اپنے مسائل کو آزاد مانیٹری و فسکل پالیسی سے حل کرے اور جب صحت مند ہو جائے تو دوبارہ سے رجوع کر لے مگر عوامی ریفرنڈم یورپی یونین کے حق میں آیا۔

یورپی یونین کے داخلی بحران کا انکشاف دوسری بار مہاجرین کے مسئلہ پر ہوا۔ یورپی یونین متفقہ طور پر کوئی لائحہ عمل ترتیب نہ دے سکی اور رکن ممالک نے مشترکہ پالیسیوں کے بجائے اپنی اپنی داخلی سیاست کے تحت فیصلہ کیا۔ حالانکہ اس وقت معیشت دانوں میں تقریبا اتفاق رائے پایا جاتا تھا کہ امیگریشن یورپی یونین کے لئے بہت زیادہ فائدہ مند ہے۔

ان مسائل کا جو حل ماہرین تجویز کرتے ہیں وہ کافی کٹھن ہے۔ ان کے خیال میں معاشی و سیاسی طور پر جو سست روی اور عدم یکجہتی پائی جاتی ہے اس کا حل یورو زون ٹیکس، یورو زون کا مشترکہ خزانہ،یورو زون کا منتخب صدر، یورو زون کی طاقتور پارلیمنٹ، اور یورو زون سول سروسز جیسے ٹھوس اقدامات ہیں۔ ان میں اکثر چیزیں اب بھی موجود ہیں مگر ہنوز علاقائی سیاست سے مضبوط نہیں۔ یعنی اتحاد کے مسائل کا حل مضبوط اتحاد ہے۔ مگر یہ ناممکن العمل ہے کیونکہ تمام رکن ممالک کی سیاست و ثقافت ہنوز اپنی منفرد شناختوں پر اصرار کرتی ہے اور سیاسی خود کفالت کو ناگزیر سمجھتی ہے۔ اگر سیاست خودکفیل ہو گی تو ناممکن ہے کہ بجٹ پالیسیز میں خودکفالت نہ ہو۔ کیونکہ مالیات پر اثرورسوخ کے بغیر تو سیاست عوام کے لئے کم اہمیت کی چیز ہے۔

امریکہ برطانیه و یورپ کی سیاست اس وقت دو حصوں میں تقسیم ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو کم مہارتوں کے روزگار رکھتے ہیں اور یونیورسٹی کی ڈگری نہیں رکھتے۔ چونکہ وہ کم مہارت کے روزگار سے منسلک ہیں تو امیگریشن سے آنے والے نئے لوگ ان کے روزگار پر یوں اثرانداز ہوتے ہیں کہ وہی کام وہ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ کم تعلیم یافتہ اور کم مہارتوں کے مقامی لوگ انٹی امیگریشن سیاست کا حصہ ہیں اور سیاست میں فاشسٹ قسم کے رجحانات رکھتے ہیں، امریکہ میں ٹرمپ اس کی مثال ہے۔ جبکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور skilled روزگار کے افراد کو امیگریشن سے زیادہ مسئلہ نہیں سوائے اس کے کہ مہاجرین کی آمد سے تنخواہوں میں اضافہ کی شرح میں کمی بتائی جاتی ہے۔ ان تمام اعتراضات کو معیشت دان مسترد کرتے ہیں جن کے خیال میں مہاجرین معیشت میں پھیلاؤ کا سبب بنتے ہیں اور طویل مدت میں وہ روزگار پیدا کرتے ہیں نہ کہ روزگار چھینتے ہیں۔

آج سے دس سال پہلے برطانیہ میں مشکل سے دس کنزرویٹو ممبر پارلیمنٹ تھے جو انٹی یورپی یونین رجحانات رکھتے تھے جب کہ اب برطانیہ کی اکثریت یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دی چکی ہے۔ 48.1 نے یورپی یونین کے حق میں ووٹ دیا جبکہ باقی لوگوں نے اس سے علیحدگی کے حق میں۔ بحث اس موضوع پر جاری ہے کہ آیا اس سے برطانیه کا نقصان ہے یا فائدہ۔ معیشت دان اس موضوع پر تقسیم ہیں۔ کچھ کے نزدیک فائدہ ہے اور کچھ کے نزدیک نقصان۔ میری ذاتی رائے میں طویل مدت کے لئے اس میں نقصان نہیں۔ برطانیه پہلے بھی یورو ایریا سے باہر تھا، سوائے ایک مشترکہ مارکیٹ کے باقی بیشتر معاشی فیصلوں میں خود مختار تھا۔ سیاسی طور پر بھی یورپی پارلیمنٹ کا اس پر اثر کم تھا۔

جہاں تک موجودہ فنانشل سیکٹر میں فوری گراوٹ کا معاملہ ہے امکان ہے کہ مارکیٹ جلد ہی مومینٹم بحال کر لے گی۔ تجارتی معاملات کی بھی یہی صورت ہے۔ تجارت مشترکہ مارکیٹ کے بجائے نفع و نقصان کے معیار پر چلتی ہے اگر نفع ہوا تو کنٹریکٹ چلیں گے اور بنیں گے اور اگر نقصان ہوا تو ٹوٹ جائیں گے اور نئی پوزیشن لیں گے۔ مثال کے طور پر امریکہ چین کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ امریکہ سب سے زیادہ امپورٹ چین سے کرتا ہے۔ باوجود اس کے کہ دونوں کے درمیان مشترک مارکیٹ کا کوئی سمجھوتہ نہیں پھر بھی تجارت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دلچسپ یہ کہ ناگوار سیاسی تنازعات کے باوجود بھی معیشت متاثر نہیں ہوئی۔

برطانیہ یورپی یونین کے قیام سے بھی پہلے یورپ کے تمام ممالک سے بھی بڑی معیشت تھی اور اب بھی اس مقام کا حصول اس کے لئے کٹھن نہیں۔ دوسرا زیادہ امکان ہے کہ جلد ایک مشترک مارکیٹ کے بجائے برطانیه ناروے کی طرح کا فری ٹریڈ ایگریمنٹ یورپی یونین سے کر لے گا اور تجارتی معاملات دونوں کے درمیان اسی نوعیت کے ہوں گے جس طرح امریکہ و یورپی یونین یا امریکہ و برطانیہ کے درمیان ہیں جن میں تجارتی رکاوٹیں ٹیرف اور ڈیوٹیز کی شکل میں اتنہائی کم ہیں۔ یاد رہے کہ ناروے یورپی یونین سے مارکیٹ میں اشتراک نہیں کرتا بلکہ دونوں کے درمیان فری ٹریڈ ایگریمنٹ (آزاد تجارت کا معائدہ ) ہے۔ اسی طرح اگر اٹلی اور سپین وغیرہ بھی برطانیہ کے نقش قدم پر چلتے ہیں تب بھی یورپی رکن ممالک کے درمیان اشتراک و مفاہمت کے نئے طور طریقے سامنے آئیں گے۔ سیاست کا رجحان جتنا بھی انٹی یورپین ہے مگر معیشت کا رجحان مارکیٹ کو اور لوگوں کو جوڑ کر رکھنے کا ہے جیسا کہ چین و امریکہ کی مثال دی گئی کہ دونوں ممالک کی سیاست باہم جتنے بھی تنازعات میں جکڑی ہوئی ہے مگر معیشت ہنوز انہیں جوڑ رہی ہے۔

قصہ مختصر آزاد معیشت میں توازن کی خود تنظیمی صلاحیت ہوتی ہے اور وہ قوت برطانیه کی بھی مددگار رہے گی۔ یورپی ممالک کا اتحاد ایک نئی شکل میں سامنے آئے گا-

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments