رات، سفر اور لڑکی


وہ پتا نہیں کس رو میں بہک کر کہتی چلی گئی۔ ”تم نے کبھی خرم کو تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی؟ میں نے رسان سے کہا۔
” کیا ضرورت ہے، اس کا نام خرم تھا، ناصر بھی ہو سکتا ہے، انور بھی شاہد، اختر، ساجد، کچھ بھی اور لٹنے والی سپنا، جینا، رمشا، بینا، نسرین کوئی بھی ہو سکتی ہے۔ سب ایک جیسے ہیں۔“ وہ تلخ ہو رہی تھی۔

” تم الزام لگا رہی ہو، پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔“
وہ ہنسنے لگی۔ ”باتیں بنانا تو کوئی تم سے سیکھے۔ مجھے بھی ایسا الجھایا کہ میں نے دل کھول کر رکھ دیا۔ اب زیادہ باتیں نہ بناؤ اور کہیں گاڑی روک کر اپنا کام کرو۔“

” گاڑی تو اب روکنی ہی پڑے گی۔“ میں نے معنی خیز لہجے میں کہا۔ سامنے قیام و طعام کا بورڈ نظر آرہا تھا۔ میں نے پارکنگ میں گاڑی روکی اور اس سے پوچھا۔
” کچھ کھاؤ گی؟ نہیں صرف چائے۔ اس نے مختصر جواب دیا۔ چائے پینے کے بعد سفر شروع ہوا تو اس نے مجھے باقاعدہ گھورتے ہوئے کندھے اچکائے اور بولی۔

” پتا نہیں تمہارا ارداہ کیا ہے، کتنی بار پوچھ چکی ہوں مگر جواب نہیں، دیکھو مجھے اپنی زندگی سے بہت پیار ہے۔ کوئی ایسی ویسی حرکت کی تو مجھ سے بُرا کوئی نہ ہوگا۔“

”فکر مت کرو، میرے ساتھ تم محفوظ ہو۔ رات گہری ہو چکی ہے۔ سفر طویل ہے۔ کچھ اور بتاؤ ناں اپنے بارے میں۔“ میں نے ہنستے ہوئے کہا اور ایک ڈبہ اس کی طرف بڑھا دیا۔ ”اس میں کھانے کے لئے بیکری سے کچھ خریدا تھا دل چاہے تو کھا لو، کچھ مجھے بھی دے دینا۔ اس نے ڈبہ لے لیا“ سچ میں تم بہت عجیب ہو۔ ”

وہ بولنے لگی۔ سوال و جواب کا سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔ جب صبح کی روشنی نمودار ہو رہی تھی اس وقت ہم لاہور کی حدود میں داخل ہو رہے تھے۔ وقت ضائع کیے بغیر میں نے ایک ہوٹل کی پارکنگ میں کار پارک کی۔ کمرے کی بات میں پہلے ہی ٹیلی فون پر کر چکا تھا۔ چناں چہ ریسیپشن سے چابی لی اور کمرے میں داخل ہوا سپنا میرے ساتھ تھی۔

بیڈ کو دیکھ کر دل کو چین آ گیا اس وقت صرف ایک بیڈ کی ہی ضرورت تھی۔ ”بے حد تھکن ہے۔ آؤ تم بھی کمر سیدھی کر لو۔“ میں نے بیڈ پر دراز ہوتے ہوئے کہا۔

سپنا شاید جھنجھلاتے ہوئے میرے قریب آئی۔ میں تو نیند کے خمار میں ڈوب رہا تھا۔ ایک نرم گرم وجود کا احساس ہوا پھر میں نیند کی وادی میں اتر گیا۔ شاید دو گھنٹے گزرے ہوں گے اچانک میری آنکھ کھلی۔ وقت دیکھا تو آٹھ بج رہے تھے۔ سپنا ابھی سو رہی تھی۔ ابھری ہوئی ریڈ شرٹ میں بلا کی کشش تھی۔ چہرے کی معصومیت دیکھ کر لگتا ہی نہیں تھا کہ وہ کس کاروبار سے وابستہ ہے یہ الگ بات ہے کہ اسے اس کام پر لانے والا ہرگز معصوم نہیں رہا ہو گا۔ مجھے اس اجنبی پر غصہ آنے لگا۔

وقت کم تھا میں تیار ہونے کے لئے واش روم میں گھس گیا۔ باہر نکلا تو وہ جاگ چکی تھی۔ میں ناشتہ منگوا رہا ہوں کیا کھاؤ گی؟ میں نے پوچھا۔ بس جو اپنے لئے منگا رہے ہو، میرے لئے بھی وہی منگا لو۔

اچھا تم جدی سے فریش ہو جاؤ۔ میں نے روم سروس سے نان اور پائے آرڈر کیے ۔ وہ واش روم سے نکلی تو کچھ اور بھی پیاری لگ رہی تھی۔ سادگی میں وہ حسن تھا جو میک اپ کی تہوں کا محتاج نہیں تھا۔ ناشتے کے بعد میں نے وقت دیکھا۔ نو بجنے میں بیس منٹ باقی تھے۔ ”سپنا میں نے سات بجے کا کہا تھا۔ دو گھنٹے ایکسٹرا ہیں۔“ میں نے نرمی سے کہا۔ ”کوئی بات نہیں، لیکن اس کے لئے اتنی دور آنے کی کیا ضرورت تھی۔“ اس نے مجھ سے لپٹتے ہوئے کہا۔ ”اوہو تم سمجھ نہیں رہی ہو۔ میں ایکسٹرا پیمنٹ کر دوں گا۔“ میں نے جلدی سے کہا۔

”ٹھیک ہے پہلے پیمنٹ پوری تو کر لو۔“ اس نے سپردگی کے عالم میں کہا۔ میں نے پیسے نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھے اور بولا۔ ”سپنا نو بجے میری بہت اہم میٹنگ ہے۔ میں اس کے لئے بے حد مصروف رہا۔ کل رات مجھے سفر کرنا تھا۔ اکیلا سفر کرتا تو راستے میں نیند آنے کے سو فیصد امکانات تھے۔ ایسے میں تم آ گئیں۔ مجھے ہمسفر کی ضرورت تھی اور تمہیں پیسے کی۔ دونوں کی ضرورت پوری ہو گئی۔ اب اگر تم برا نہ مانو تو بس سروس سے ابھی واپس چلی جاؤ اس کا کرایہ الگ سے دے رہا ہوں۔ یا پھر رک جاؤ شام کو مجھے واپس جانا ہے تمہیں وہیں چھوڑ دوں گا۔ میں نے کہا

” وہ پھٹ پڑی، مجھے برا لگ رہا ہے، بہت برا لگ رہا ہے۔ تم یہ ناٹک بند کرو۔ تمہاری وجہ سے میں اپنی رائے نہیں بدل سکتی۔ تم وہی کرو جو تمہیں کرنا چاہیے۔ میں اور سپنے برداشت نہیں کر سکتی میں مر جاؤں گی، مجھے جینے دو۔ وہ رو رہی تھی۔ اور مجھ سے لپٹ رہی تھی۔ میں نے اپنے آپ کو اتنا بے بس کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔ میں اس کی کیا مدد کرتا۔ میں بھی مجبور تھا۔ اسی معاشرے کا ایک مجبور شخص۔ نام نہاد مہذب معاشرے کا نام نہاد عزت دار شخص۔ اس کہانی میں میرا کردار صرف اتنا ہی تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2