برصغیر کا نوحہ یا قوالی کا قصیدہ


\"Suleman\"کسے کہ کشتہ نہ شد، از قبیلہ ما نیست

جو حرمت عشق کی راہ میں قتل نہ ہو اُسے ہمارے قبیلے سے نسبت نہیں ہے۔۔۔ (نذیری نیشاپوری)

پاکستان کا کلچر کیا ہے؟ کیا یہ برّصغیر ہند وپاک کے عوام کا ماضی سے چلا آرہا کلچر ہے یا ریاست پاکستان کا اپنا کوئی کلچر ہے؟

اگر پاکستان کا اپنا کوئی منفرد کلچر ہے تو اس میں قوّالی کی صنف کا کیا مقام ہے؟

آپ سات سو سال سے متنوّع صوفیانہ روایات کے زیر اثر رہی موسیقی کی روایت کو اس ماحول میں کیسے جگہ دے سکتے ہیں جو پندرہ سو سال سے در آنے والی \’بدعات\’ سے خود کو پاک کرنا چاہتا ہے۔ کیا آپ منصور حلّاج، سرمد کاشانی اور شہاب الدّین سہروردی کو آج کے پاکستانی سماج میں منوا سکتے ہیں؟ نہیں اور بالکل نہیں۔

امجد صابری قتل ہوگئے کیوں کہ قوّالی کی صنف اس تصوّر سے مطابقت نہیں رکھتی جس کا مظہر آج کا پاکستانی سماج ہے۔

صابری کا تعلق اسی قبیلے سے تھا جس کا تذکرہ نذیری نے کیا ہے۔ وہ قبیلہ جو روز بڑھتا جاتا ہے۔ یہ شیعہ، احمدی، مسیحی، صوفی، ہندو، لبرلز، ترقی پسند، کمیونسٹ، انسان دوست، عشّاق اور فن کاروں کا قبیلہ ہے۔ یہ اُن سب کا قبیلہ ہے جو ایک خارجیت پسند نظریے پر سوال اُٹھانے کی جرأت کرتے ہیں۔ یہ اختلاف کرنے والوں کا قبیلہ ہے، یہ عوام کا قبیلہ ہے۔

فن کے قتل کے ساتھ ساتھ ماضی کا قتل ہوتا ہے۔ اور بعینہ یہی پاکستان میں ہورہا ہے۔ تقسیم سے قبل کے ماضی سے پیچھا چھڑانے کی بے معنی کوشش نے وہ سب جو خوبصورت تھا، وہ سب جو ثقافت تھا اور وہ سب جو تاریخ تھا اسے کھودیا ہے۔

اب پاکستان میں اکثریت صوفی کے انحرافات، فن کار کے رندانہ تخیّلات اور شاعروں کے الفاظ کی سِحر گیری کو سمجھ ہی نہیں سکتی ہے، تحسین کیا کرپائے گی۔

اب ایک ایسی شہری مڈل کلاس نسل آ پہنچی ہے جسے شناخت کا حوالہ درکار ہے۔ مذہب ــــ ثقافت، تاریخ اور سماجی اظہار، ان سب سے بڑھ کر اب شناخت کا حوالہ ٹھہرا ہے۔ ظاہر پرستوں کے خُدا نے روایت پسندوں کے خُدا کی جگہ لے لی ہے، اس تبدیلی کے اثرات کو معاشرے کی مُختلف سطحوں پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔

ایک قوالی کسی کی موت کا جواز ٹھہرے یہ اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ ہم ایک خارجیت پسند طرز فکر کی حامل قوتوں کے مقابل کس حد تک پسپا ہوچکے ہیں۔ اور یہ پسپائی چند لمحوں میں عمل میں نہیں آئی بلکہ یہ درجہ بدرجہ اور مربوط طریقے سے عمل میں آئی ہے۔ اور اب کوئی آواز نہیں اٹھتی جس پر کفر کے ارتکاب کا الزام نہ لگے۔

لوگوں کے مجمع کو ‘من کُنتُ مولا’ کے الفاظ پر، جو امیر خُسرو نے کوئی سات سو سال قبل لکھےتھے، مسحور ہوتے اور وجد میں آتے دیکھ کر صابری برادران، غلام فرید صابری اور مقبول صابری مسکرا دیتے ہوں گے، کیوںکہ وہ جانتے تھے کہ صدیوں سے چلی آرہی روایت کے باعث لوگ اس سب کو بڑے ذاتی سےاور انتہائی مانوس سے تجربے سے خود کو جُڑتا ہوا پاتے تھے۔ اور پھر ‘تاجدار حرم’ کی قوالی کی گائیکی کے دوران وہ امیر خُسرو کے کچھ شعر لے آتے تھے۔

کہ تاب ہجراں نہ دارم اے جاں

نہ لے ہو کاہے لگائے چھتیاں

وہ انہیں اونچی لے میں گاتے، ہر لفظ اشکبار سامعین کے جذبات کو متلاطم کردیتا۔ وہ اسے اونچی لے میں گاتے کیوںکہ وہ جانتے تھے کہ وہ اس سے برّصغیر کے دل میں اُٹھنے والے درد کو آواز دے رہے ہیں۔

اب یہ روز بروز مشکل ہوتا جارہا ہے کہ آرٹ اور موسیقی کے ذریعے ماضی کو سامنے لایا جاسکے۔ حال کی ابتری میں جھانکا جاسکے، وہ حال جو کہ بے کیف بھی ہے اور عدم روادار بھی۔ یہ روز بروز مُشکل ہوتا جا رہا ہے کہ جو کچھ ہمارا رہا ہے اُسی کا جشن منایا جائے؛ اور یہ اور مُشکل ہے کہ صابری جیسے لوگ ان وقتوں میں زندہ رہ پائیں۔

____________________________

یہ بلاگ ڈان میں شایع ہوا جس کا ترجمہ علی ارقم صاحب نے کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments