ڈیجیٹل ٹیکنالوجی پاکستانی ذرائع ابلاغ کا چہرہ بدل دے گی


ڈیجیٹل ٹیکنالوجی پاکستانی ذرائع ابلاغ کا چہرہ بدلنے کو تیار ہے۔ رواں دہائی میں ویب ٹی وی اور ڈائریکٹ ٹو ہوم ٹیکنالوجی پاکستان کی مارکیٹ پر چھا جائیگی۔ اینالوگ ٹیکنالوجی پر استوار موجودہ پاکستانی کیبل انڈسٹری کو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے خطرے کا سامنا ہے۔ چند سالوں میں اینالوگ کیبل انڈسٹری ختم ہوجائے گی۔ گلوبل انٹرنیٹ پروٹوکول ٹیلی وژن مارکیٹ ریسرچ رپورٹ 2018 میں نئی ٹیکنالوجی رحجانات کو زیر بحث لایا گیا ہے اور پیش گوئی کی گئی ہے کہ مستقبل ویب ٹی وی کا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی میں وقوع پذیر ہونے والے تغیرات بہت ہی تیز رفتار ہیں۔ کینیڈا، امریکہ، آسٹریلیا، سویڈن، کوریا، بھارت سمیت دیگر ممالک میں انٹرنیٹ پروٹوکول ٹیلی وژن (آئی پی ٹی وی) اور ڈی ٹی ایچ (ڈائریکٹ ٹو ہوم ) چینلز کام کررہے ہیں اور انکے صارفین کی تعداد کروڑوں سے تجاوز کرچکی ہے۔ ویب سائیٹ سٹیٹسٹا کے مطابق 2020 تک آئی پی ٹی وی کی بدولت امریکہ 9 ارب ڈالر، چین  2 ارب29 کروڑ ڈالر،جاپان سوا 2ارب ڈالر، فرانس1 ارب73 کروڑ ڈالر اور جنوبی کوریا1 ارب 28 کروڑ ڈالر کمائیں گے۔

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی جانب سے فور جی ٹیکنالوجی متعارف ہوجانے کےبعد حکومت اور پیمرا جدید ترین نشریاتی ٹیکنالوجی متعارف کروانے کی پالیسی پر کاربند ہیں۔ پاکستان میں بیشتر کیبل آپریٹرز اینا لاگ ٹیکنالوجی پر کام چلا رہے ہیں۔ پیمرا نے متعدد بار تمام کیبل آپریٹرز کو متنبہ کیا ہے کہ وہ جلد جلد از جلد ڈیجیٹل ٹیکنالوجی پر منتقل ہوجائیں اس ضمن میں کیبل آپریٹرز کو دی گئی پیمرا کی تمام ڈیڈلائنز ختم ہوچکی ہیں لیکن مہنگےانفراسٹرکچر اور تکنیکی وجوہات کی بنا پر کیبل آپریٹرز بدستور اینا لوگ ٹیکنالوجی پر کام کررہے ہیں۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے متعارف ہونے کے بعد پاکستان کی روایتی کیبل انڈسٹری نہ صرف متاثر ہوگی بلکہ خطرہ ہے کہ یہ بالکل ہی ختم ہو جائے گی کیونکہ پیمرا جلد ہی ڈی ٹی ایچ (ڈائریکٹ ٹو ہوم ) نشریات کے تین لائسنس بھی جاری کر د ے گا یہ معاملہ سیکیورٹی کلئیرنس سے مشروط ہے۔
مستقبل کا منظر نامہ کچھ یوں ہے کہ تیز رفتار پروسیسرز سے مزین موبائیل فون کی بدولت ناظرین کو ٹی وی کے سامنے بیٹھنے کی احتیاج نہ رہے گی۔ اس طرح ایل ای ڈی ٹیلی وژن انڈسٹری کا کاروبار بھی متاثر ہونے کا امکان ہے۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ٹی وی بالکل ہی معدوم ہو جائے گا تاہم ڈیجیٹل ٹی وی اسکی جگہ لے لے گا جس پرصارفین اپنی پسند کی دستاویزی فلمیں، پروگرامز وغیرہ اپنی پسند کے وقت پر دیکھ پائیں گے۔ گھریلو صارفین کو انٹرنیٹ کے ذریعے اور وائس اوور انٹرنیٹ پروٹوکول کے ذریعےآئی پی ٹی وی کی نشریات فراہم کی جائیں گی۔ بین الاقوامی ترقی کے تناظر میں پاکستان میں بھی پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) دو شعبوں اول ڈی ٹی ایچ (ڈائریکٹ ٹو ہوم) اور انٹرنیٹ پروٹوکول ٹیلی وژن(  آئی پی ٹی وی) پر کام کرہا ہے۔ پاکستان میں آئی پی ٹی وی لائسنس ہولڈرز کی تعداد چار ہوگئی ہے۔ جن چار کمپنیوں کو لائسنس جاری کئے گئے ہیں ان میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی ( پی ٹی سی ایل) کو پورے ملک ماسوائے گلگت بلتستان اور آزاد جموں کشمیر، میسرز آپٹکس پاکستان کو لاہور اور پشاور، اور میسرز سائبر انٹرنیٹ سروسز پرائیویٹ لمیٹڈ کراچی کو لاہور اورمیسرز فائبر لنک پرائیویٹ کو کراچی اور لاہور زون کیلئے لائسنس جاری کئے گئے ہیں۔ پی ٹی سی ایل تیزی سے فائبر آپٹکس بچھانے کا کام کر رہی ہے اور جن شہروں میں وہ کام کر چکی وہاں سمارٹ ٹی وی نشریات شروع ہیں جبکہ دیگر کمپنیاں انفراسٹرکچر بچھا رہی ہیں۔ آئی پی ٹی وی کو نیٹ ٹی وی یا ویب ٹی وی بھی کہا جاتا ہے۔ جہاں تک اسکی تاریخ کا سوال ہے وہ یہ ہے کہ 1995 میں پہلی بار جوڈتھ آسٹن اور بل کیری کو نے سافٹ وئیر پری سیپٹ میں آئی پی ٹی وی کی ٹرم استعمال کی اور انھوں نے انٹرنیٹ ویڈیو پراڈکٹ کا نام آئی پی ٹی وی رکھا۔ یہ سافٹ وئیر تین لوگوں نے تحریر کیا تھا۔ ستمبر 1999 میں برطانوی نشریاتی ادارے کنگسٹن کمیونیکیشن نے پہلی بار آئی پی ٹی وی نشریات شروع کیں تھیں۔ دنیا بھر میں آئی پی ٹی وی پر انٹرنیٹ کی بدولت سیٹلائٹ ڈش یا روایتی کیبل سسٹم کے بغیر ٹی وی نشریات کودیکھا جا رہا ہے۔ اس پرنشریاتی مواد بغیر کسی تعطل مسلسل دیکھا جا رہا ہےاسے سٹریمنگ میڈیا بھی کہا جاتا ہے۔ بڑے پیمانے پر سیٹ ٹاپ باکسز کے ذریعے بھی صارفین کو اس کی رسائی دی جاتی ہے۔ یہ جدید ترین ذریعہ ابلاغ ہےجس میں فائبر آپٹک کے ذریعےشاندار تصویر اور آواز دیکھنی ممکن ہو پاتی ہے۔ آئی پی ٹی وی کو تین کلاسز میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اول لائیو ٹی وی، دوم ٹائم شفٹڈ میڈیا (جس میں پہلے سے نشر کئے گئے پروگرام دو بارہ چلائے جاتے ہیں) سوم ویڈیو آن ڈیمانڈ (جس میں ویڈیو آرکائیو میں موجود پروگرام کو صارف دیکھ سکتا ہے)۔ دنیا کےبڑے نشریاتی ادارے آئی پی ٹی وی ٹیکنالوجی استعمال کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).