وزیر خزانہ کی نامکمل اور خطرناک وضاحتیں


گیارہویں جنوبی ایشیائی اقتصادی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسد عمر نے دعویٰ کیا ہے کہ ملکی معیشت کو درپیش چیلنجز سے نمٹ لیا گیا ہے اور صورت حال اب حکومت کے کنٹرول میں ہے۔ انہوں دوست ملکوں کے تعاون کا ذکر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس امداد کی وجہ سے معیشت کو سہارا ملا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ مالی سال میں ادائیگیوں کے عدم توازن کا مسئلہ حل کرلیا گیا ہے اور جلد ہی حکومت کے متحرک مالی اقدامات کے نتائج سامنے آنے لگیں گے۔ انہوں نے بجا طور سے معیشت کے بارے میں افواہ سازی کو مسترد کرتے ہوئے اسے ملک کے لئے نقصان دہ قرار دیا۔ لیکن اس تقریر میں وزیر خزانہ کی طرف سے کی جانے والی باتوں سے افواہ سازوں ہی کی حوصلہ افزائی ہوگی کیوں کہ ان میں حکومت کے معاشی منصوبوں کے بارے میں سیاسی بلند آہنگی سے کام لینے کے باوجود یہ بتانے کی زحمت نہیں کی گئی کہ حکومت نے معاشی اصلاح کے لئے وہ کون سے ٹھوس اقدامات کئے ہیں جن کی وجہ سے اقتصادی بہتری کو حقیقت سمجھ لیا جائے۔

حکومت ابھی تک عالمی مالیاتی فنڈ سے پیکیج لینے کے معاملہ پر گومگو کا شکار ہے۔ وزیر خزانہ نے بھی معاشی امور پر اظہار خیال کرتے ہوئے اس بارے میں کوئی وضاحت کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ حالانکہ ان کی طرف سے اس بارے میں وضاحتی بیان قومی معیشت میں اعتماد پیدا کرنے کا سبب بن سکتا تھا۔ موجودہ حکومت ابھی تک یہ سمجھنے سے قاصر دکھائی دیتی ہے کہ معاشی استحکام کے لئے سب سے پہلا قدم تاجر اور سرمایہ دار طبقہ میں اعتماد پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اسی حوالے سے عالمی مالیاتی اداروں کو یہ یقین دلانا ہوتا ہے کہ ملکی مالی امور کو دیکھنے والے رہنما صورت حال کو سمجھتے ہیں اور اسے سنبھالنے کے لئے مناسب اقدامات کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت نے البتہ گزشتہ ساڑھے تین ماہ کے دوران بے یقینی پیدا کرنے کو ہی سب سے مؤثر ہتھکنڈا سمجھا ہؤا ہے۔

 آئی ایم ایف سے قرض لینے یا نہ لینے کا معاملہ اس حکمت عملی میں سر فہرست دکھائی دیتا ہے۔ وزیر خزانہ نے اس وزارت کا قلمدان سنبھالنے سے پہلے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ پاکستان کو موجودہ معاشی عدم توازن سے نجات دلانے کے لئے آئی ایم ایف سے 12 ارب ڈالر تک کا قرضہ لینا پڑے گا۔ انتخابات کے انعقاد کے لئے قائم ہونے والی عبوری حکومت نے بھی اسی طرف اشارہ کیا تھا اور تمام ماہرین معیشت بھی یہ توقع کررہے تھے کہ آئی ایم ایف سے رجوع کئے بغیر ملک کی معیشت کو سہارا نہیں دیا جا سکتا۔

تاہم اقتدار میں آنے کے بعد ایک طرف آئی ایم ایف سے قرض لینے کی بات کو مسترد کرنے کی کوششیں شروع ہو گئیں تو دوسری طرف سی پیک منصوبوں کے بارے میں بھی سوالات اٹھانے کا آغاز کردیا گیا۔ اس بارے میں بیجنگ کی شکایات اور تشویش کو رفع کرنے کے لئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو خود چین کا دورہ کرکے یقین دلوانا پڑا کہ نئی پاکستانی حکومت چین سے کئے ہوئے سب معاہدوں پر عمل کرے گی اور سی پیک کو پاکستان کی طرف سے کوئی اندیشہ لاحق نہیں ہے۔ تاہم اس بارے میں جو شبہات اور بے یقینی پیدا کی گئی تھی اس کے اثرات اس وقت تک ملک کی معاشی صورت حال پر محسوس کئے جا سکتے ہیں۔

 یہی معاملہ آئی ایم ایف سے پیکیج لینے کے معاملہ میں کیا گیا ہے۔ مبصرین یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے روپے کی قدر میں بتدریج کمی کے اقدامات دراصل آئی ایم ایف سے نیا پیکیج لینے کی تیاری ہی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ حکومت اگلے ماہ تک روپے کی قیمت میں مزید 5 سے7 فیصد کمی کا فیصلہ کرنے پر مجبور ہوگی۔ اسی طرح مختلف شعبوں میں دی جانے والی سبسڈیز میں کمی کرکے یا محاصل میں اضافہ کے ذریعے معاشی تحّرک پیدا کرنے کے بارے میں آئی ایم ایف کے تقاضوں کو پورا کیا جائے گا۔ ایک طرف یہ اقدامات ہو رہے ہیں تو دوسری طرف وزیر اعظم عمران خان نے کل اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے یہ کہہ کر ایک نیا تنازعہ اور مزید الجھن پیدا کردی ہے کہ انہیں تو روپے کی قدر میں کمی کا علم میڈیا پر خبروں سے ہؤا تھا ۔ البتہ اب انہوں نے اسٹیٹ بنک سے کہا ہے کہ وہ اس قسم کا فیصلہ کرنے سے پہلے ان سے مشورہ کرلیا کرے۔

اس اعلان کو اقتصادی حلقوں میں اسٹیٹ بنک پر حکومت کے کنٹرول کی خواہش قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ شبہ پیدا ہو گیا کہ وزیر اعظم نے اسٹیٹ بنک کو حکومت سے مشورہ کرنے کا پابند کرکے دراصل یہ اعلان کیا ہے کہ موجودہ حکومت کو اسٹیٹ بنک کی خود مختاری قبول نہیں ہے۔ ملک کے مالی معاملات کی نگرانی کرنے والے اس ادارے کی خود مختاری آئی ایم ایف کی بنیادی شرائط میں شامل ہوتی ہے۔ ماضی میں عالمی مالیاتی ادارے سے فنڈز لیتے ہوئے اسٹیٹ بنک کو خود مختار بنانے کے لئے اقدامات کئے گئے تھے۔ اس لئے اب فطری طور سے سوال کیا جا رہا ہے کہ ایک طرف روپے کی قدر میں کمی اور دیگر اقدامات کے ذریعے آئی ایم ایف کی ’شرائط‘ پوری کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تو دوسری طرف اسٹیٹ بنک کی خود مختاری کے بارے میں سوال اٹھا کر عالمی مالی نظام سے تعلق کی ایک اہم بنیاد کو مشکوک بنایا جا رہا ہے۔ وزیر خزانہ نے آج کی تقریر میں یہ یقین دلایا ہے کہ اسٹیٹ بنک کی خود مختاری برقرار رہے گی لیکن وہ بھی وزیر اعظم کی طرف سے روپے کی قدر میں کمی کے سوال پر لاعلمی کے اعلان کی کوئی وضاحت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ اب یہ اطلاعات بھی سامنے آرہی ہیں کہ اسٹیٹ بنک نے گزشتہ ہفتہ کے دوران روپے کی قدر میں کمی کا اقدام کرنے سے پہلے وزارت خزانہ اور وزیر خزانہ کو مطلع کیا تھا اور ان سے مشورہ کر لیا گیا تھا۔ لیکن وزارت خزانہ وزیر اعظم کو اس بارے میں باخبر رکھنے میں کامیاب نہیں رہی۔ اسی دوران وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والے ایک اجلاس کی رپورٹ بھی سامنے آئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ تحریک انصاف کے بعض زعما نے مالی معاملات کو مناسب طور سے طے نہ کرنے پر اسد عمر پر سخت نکتہ چینی کی تھی۔ جس کے جواب میں اسد عمر نے وزیر خزانہ کے عہدہ سے مستعفی ہونے کی پیش کش بھی کی تھی۔ اگرچہ وزیر خزانہ کے استعفی کی خبروں کی تردید کر دی گئی ہے لیکن اختلافات کو تسلیم کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس قسم کے اختلافات صحتمند سیاسی کلچر کا حصہ ہوتے ہیں۔ یہ بات اصولی طور سے درست ہونے کے باوجود کمزور معیشت اور بےمہار حکومتی پالیسیوں کے ہوتے معاشی طور سے وہ صحت مند ماحول پیدا کرنے کا سبب نہیں بن سکتی جو استحکام کے لئے ضروری ہوتا ہے۔

وزیر خزانہ اسد عمر نے حکومت کی مؤثر پالیسیوں کے نتیجہ میں درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافہ کا دعویٰ کیا ہے۔ موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد روپے کی قدر میں پندرہ فیصد کے لگ بھگ کمی کی وجہ سے برآمدات پر مثبت اور دیرپا اثرات مرتب ہونے چاہئیں۔ لیکن اس کے لئے ملکی صنعتوں کو بھی عالمی ضرورتوں کے مطابق مال فراہم کرنے کے قابل ہونا چاہئے۔ روپے کی کم مالیت کی وجہ سے برآمدات میں اضافہ کے بغیر روپے کے اعداد و شمار میں دس سے پندرہ فیصد اضافہ تو زرمبادلہ کی قیمت کے فرق کی وجہ سے ہی سامنے آ جائے گا۔ اسے حکومت کی درست پالیسیوں کا نتیجہ کہنا جائز نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح یہ تصور کرنا محال ہے کہ پاکستان کی درآمدات میں وسیع المدت بنیاد پر کمی کا کوئی واضح اشارہ سامنے آیا ہے۔ عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتیں بدستور بڑھ رہی ہیں۔ البتہ اگر وزیر خزانہ سعودی عرب سے ادھار تیل لینے کے معاہدہ کی وجہ اس مد میں کم ہونے والے اخراجات منہا کر کے درآمدات میں کمی کی نوید سنا رہے ہیں تو یہ بھی پوری تصویر نہ دکھانے والی بات ہو گی۔ درحقیقت نہ ملکی برآمدات میں اضافہ کے اشاریے سامنے آئے ہیں اور نہ ہی درآمدات میں کمی کی کوئی واضح وجہ موجود ہے۔ یہ بات اعداد و شمار کے پیچ و خم سے سیاسی فائدہ اٹھانے کے لئے ہی کہی جا سکتی ہے۔ معیشت کی وسیع المدت بحالی کے لئے حکومت اور وزیر خزانہ کو ایسی مجبوریوں سے اوپر اٹھ کر حالات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہوگی۔

اسد عمر کی آج کی تقریر کا محور بھارت کے ساتھ تعلقات تھا۔ وہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت بڑھانے کے معاشی فائدے گنواتے رہے۔ اسی حوالے سے انہوں نے اپنے طور پر کرتار پور راہداری کا ذکر بھی کیا ہے اور سارک میں بھارت کی ہٹ دھرمی پر بھی افسوس کا اظہار کیا۔ ان کا خیال ہے کہ اگر بھارتی حکومت ضد چھوڑ دے تو دونوں ملکوں میں تجارت کے فروغ سے برصغیر کی معیشت کو عام طور سے فائدہ ہوسکتا ہے۔ دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان تعلقات کی موجودہ نوعیت کی روشنی میں اس مؤقف کو فلسفیانہ خواہش سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاسکتی جس کے حقیقت میں بدلنے تک نہ جانے کتنی نسلوں کو انتظار کرنا پڑے گا۔ پاکستان کے وزیر خزانہ کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بھارت اپنے معاشی اہداف پورے کرنے کے لئے پاکستان کے تعاون کا محتاج نہیں ہے۔ پاکستان بھی ایسی خوش خیالی کو معاشی بحالی کے فوری اور ضروری منصوبہ کی بنیاد نہیں بنا سکتا۔

امید کی جاتی تھی کہ اسٹاک ایکسچینج اور روپے کی مالیت میں کمی اور وزیر اعظم کی پیدا کردہ بے یقینی کو دور کرنے کے لئے وزیر خزانہ حکومت کی طرف سے کوئی ٹھوس اور واضح پیغام دے سکیں گے جو معیشت پر شبہ اور بے یقینی کے سائے کو دور کر سکتا۔ اسد عمر یہ پیغام دینے میں ناکام رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali