استنبول میں فلسطین پر بین الاقوامی میڈیا کانفرنس…(2)


گو کہ یروشلم شہر اسرائیلوں کے قبضہ میں ہے، مگر حرم کا انتظام و انصرام ا ردن کے اوقاف اور وہاں کی ہاشمی بادشاہت کے پاس ہے۔ بتایا گیا کہ مسجد میں داخلے کیلئے مجھے اپنے آپ کو مسلمان ثابت کروانا پڑے گا۔ گیٹ کے بار اسرائیلی سیکورٹی کا ہتھیار بند دستہ موجود تھا، بالکل سرینگر کی جامع مسجد کا سین لگ رہا تھا۔

ایک اہلکار نے مجھے روک کر پاسپورٹ طلب کیا۔ دوسرے اہلکار نے مجھے کوئی سور ۃ سنانے کیلئے کہا۔ اس امتحان کو پاس کرنے کے بعد اہلکار نے قرآن شریف اٹھا کر اس سے آیات پڑھنے کیلئے کہا۔ خیر تسلی و تشفی کرنے کے بعد مجھے گیٹ کی طرف جانے کی اجازت مل گئی۔ مگر ابھی فلسطینی سیکورٹی کا سامنا کرنا باقی تھا۔

گیٹ کے اندر فلسطینی اہلکاروں نے پاسپورٹ مانگا۔ میں نے دیکھا وہاں بھی قرآن شریف رکھا ہوا تھا اور شناخت کا مرحلہ کچھ زیادہ ہی سخت تھا۔ ملیشیا کے ایک زائر کا ایک طرح سے انٹروگیشن ہو رہا تھا۔ اب شاید میری باری تھی۔ میں نے پوری عربی صرف کرکے فلسطینی اہلکار کو بتایا کہ میں انڈین پاسپورٹ پر کشمیر سے تعلق رکھتا ہوں۔ پاسپورٹ میں میری جائے پیدائش دیکھ کر پلک جھپکتے ہی اس کا موڈ بد ل گیا۔

کرسی سے کھڑا ہوکر گلے لگا کر اسنے اپنے افسر کو آواز دی اور عربی میں شاید میرے کشمیر ی ہونے کا اعلان کیا۔ مقبوضہ علاقوں کا مکین ہونے کا کنکشن بھی کیا عجیب ہوتا ہے، یہ احساس اس کانفرنس کے دوران بھی ہوا اور فلسطینی علاقوں میں گھومنے کے دوران بھی اس کا قد م قدم پر احساس ہوا۔ افسر نے بھی مصافحہ اور معانقہ کرنے کے بعد حکم دیا کہ نماز ادا کرنے کے بعد اسکے کیبن میں حاضر ہوجائوں۔

میں جب صف میں جگہ بنا رہا تھا تو امام صاحب خطبہ دے رہے تھے۔ اس کا ایک ایک لفظ دل و دماغ کو جیسے جھنجھوڑ رہا تھا۔ مجھے یقین ہی نہیں آرہا تھا، کہ میںملت اسلامیہ کی مظلومیت کی نشانی مسجد اقصیٰ کے اندر اللہ کے رو برو کھڑا ہوں۔ مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کرنے اور دعا مانگنے کا احساس لفظوں میں بیان کرنا ناممکن ہے۔

میں ایک کونے میں مسجد کی تاریخ کو کرید رہا تھا۔ بچپن میں سلاتے ہوئے دادی کی سنائی ہوئی پیغمبروں اور غازیوں کی کہانیاں دماغ میں گونج رہی تھی کہ فلسطینی سیکورٹی افسر مجھے تلاش کرتے ہوئے آپہنچا۔ مجھے رقت آمیز دیکھ کر وہ بھی آبدیدہ ہوگیا۔ خیر موجودہ عالمی تناظر میں عالمی برادری کی توجہ ان تنازعات کی طرف مبذول کرنے کیلئے نظریاتی پہلوئوں کے علاوہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔

1979ء میں جب ناروے کی سمندری حدود میں پیٹرولیم کے ذخائر نکالنے کا کام شروع ہوا ،تو ملک کے اندر اور یورپ و امریکہ کے متعدد عیسائی اور یہودی اداروں نے اوسلو حکومت پر دبائو ڈالا کہ یہ تیل اسرائیل کو ارزاں نرخ پر یا مفت مہیا کرایا جائے۔ ان کی دلیل تھی، چونکہ تیل کی دولت سے مالامال عرب ممالک اسرائیل کو تیل فراہم نہیں کرتے ہیں اور ایران میں مغرب نواز حکومت کا تختہ پلٹنے سے انرجی کی فراہمی اور زیادہ مشکل ہوگئی ہے، اسلئے ناروے کو اپنے وسائل یہودی ریاست کی بقا ء کیلئے وقف کردینے چاہئے۔

ناروے کی 150رکنی پارلیمان میں اسوقت 87اراکین فرینڈز آف اسرائیل تنظیم کے سرگرم رکن تھے۔مگر کوئی فیصلہ کرنے سے قبل ناروے کے وزیر اعظم اوڈوار نورڈلی نے فلسطین لیبریشن آرگنائزیشن یعنی پی ایل او کے راہنمائوں اور عرب ممالک کا موقف جاننے کی خواہش ظاہر کی۔

بیشتر عرب ممالک نے اسرائیل کو انرجی مہیا کروانے کی پر زور مخالفت کی ۔ ان کی دلیل تھی کہ اس کے بعد اسرائیل اور بھی زیادہ شیر ہو جائیگا اور امن مساعی مزید دشوار ہو جائیگی۔ مگر پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات نے ناروے کے وزیر اعظم کو بتایا کہ’’ چاہے آپ اسرائیل کو تیل فراہم کریں یا نہ کریں، وہ یہ تیل حاصل کرکے ہی رہیگا۔ براہ راست نہ سہی بالواسطہ دنیا میں کئی ملک اور افراد ہیں جو یہ خرید کر اسرائیل کو فراہم کریں گے۔

لہٰذا بہتر ہے کہ ناروے اسرائیل کے ساتھ اپنی خیر سگالی کا خاطر خواہ فائدہ اٹھا کر فلسطینی قیادت اور اسرائیل کے درمیان پس پردہ مذاکرات کا سلسلہ شروع کرواکے ثالث کا کردار نبھائے۔‘‘14سال بعد ناروے کی کاوشوں کی صورت میں اوسلو اکارڈ وجود میں آیا۔ جس کی رو سے فریقین نے ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے دو ریاستی فارمولہ پر مہر لگائی ۔

یاسر عرفات کو فلسطینی اتھارٹی کا سربراہ تسلیم کیا گیا اور مغربی کنارہ اور غزہ کی پٹی ان کے حوالے کی گئی۔بعد میں بد قسمتی سے اسرائیل نے مکمل فلسطینی ریاست کے قیام اور ریفوجیوں کی واپسی کے معاملے میں مسائل پیدا کردیئے، جس کی وجہ سے اوسلو اکارڈ کی روح ہی فنا ہوگئی اور قیام امن کے بجائے خطہ کا مستقبل مزید مخدوش ہو گیا ۔

اس واقعہ کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ ممالک جو اسرائیل کی دوستی کا دم بھرتے ہیں، انکو ایران و خلیجی ممالک کے ذریعے بتایا جائے کہ نہ صرف انرجی کا حصول، بلکہ تمہاری اقتصادیات کی شہ رگ مسئلہ فلسطین کے حل میں پوشیدہ ہے۔ اسلئے کم از کم اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات بروئے کار لاکر فلسطینی عوام پر ظلم و ستم کے دریا بند کرو۔

ناروے کی طرح اگر بھارت بھی مغربی ایشیا میں پس پردہ امن بحالی کیلئے رول ادا کرتا ہے تویہ احسن قدم ہے۔ مگر کاش وزیر اعظم مودی اسی حکمت عملی سے کام لیکر پاکستان کے سا تھ بھی امن مساعی شروع کرواکے قضیہ کشمیر کا بھی دائمی اور حتمی حل ڈھونڈنے کا تہیہ کریں اور اپنے ملک میں بھی اقلیتوں کو تحفظ کا احساس کراوائیں۔ان کی اس پہل سے جنوبی ایشیا بھی چین کی سانس لیکرتعمیر و ترقی میں دنیا کی راہنمائی کرسکے گا۔ (ختم شد)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).