ان حقائق کا بہادری سے اعتراف کیجئے


وزیر اعظم صاحب کا پیر کی شام سات سے نو بجے تک ہمارے تمام ٹی وی چینلوں پر جو انٹرویو چلا ہے وہ صبح کے وقت ریکارڈ ہوا تھا۔ حکومت کے میڈیا منیجروں کے لئے ضروری تھا کہ وہ اس کے نشر ہونے سے قبل فائنل ٹھہرائے ورژن کو غور سے دیکھتے۔

ایسا ہوجاتاتو “Manifesto”والا فقرہ کئی ذہنوں میں وہ سوال اٹھانے کی گنجائش مہیانہ کرتا جسے ٹھنڈے دل سے جانچا جائے تو دل پریشان ہوجاتا ہے۔کسی بھی معاشرے میں سیاسی تقسیم کی اصل وجہ سیاسی جماعتوں کے منشور ہوتے ہیں۔بسااوقات اہم ترین قومی مفادات کے تناظر میں بھی یہ منشور یکساں نہیں بلکہ انتہائی مخالفانہ سوچ اور ترجیحات کے حامل ہوتے ہیں۔

سیاسی تقسیم سے بالاترٹھہرائے قومی اداروں کو کسی ایک سیاسی جماعت کے Manifestoکا مکمل حامی بناکر پیش کرنا ایک غیر مناسب رویہ ہے۔اس کے مضمرات طویل المدتی تناظر میں سنگین تر بھی ہوسکتے ہیں۔Manifestoوالے فقرے کی اہمیت کو اس تناظر میں لیکن وزیر اعظم کے میڈیا منیجروں میں سے کسی ایک نے بھی بروقت بھانپ لینے کی ہمت اور پیشہ وارانہ صلاحیت نہیں دکھائی۔

انگریزی والا Damageہوگیا۔حیران کن بات یہ بھی ہے کہ عمران خان صاحب کے انٹرنیٹ شیدائی اس فقرہ کی من پسند توجیحات پیش کرتے ہوئے ’قوم کو گمراہ کرنے والے‘‘ صحافیوں کو مسلسل لتاڑرہے ہیں۔

کھلے ذہن کے ساتھ اگرچہ یہ وضاحت کرتے ہوئے بھی کام چلایا جاسکتا تھا کہ وزیر اعظم صاحب شاید ہمارے ہاں بہت عرصے سے جاری One Pageوالی بحث کو ذہن میں رکھتے ہوئے Manifestoکا لفظ استعمال کرگئے۔ بے ساختگی میں دوتراکیب ایک دوسرے سے گڈمڈ ہوگئیں۔

Manifesto والے فقرے کو لہذا One Page پر ہونا شمار کیا جائے۔غلطی کا اعتراف مگر ہمارے انا پرست معاشرے کی روایت نہیں۔ اندھی نفرت اور عقیدت میں تقسیم ہوئی قوم ہیں۔ ’’میرا پیا‘‘ جوبھی کہے اس کا دل وجان سے ڈٹ کردفاع کرنا ضروری ہے ورنہ سبکی محسوس ہوتی ہے۔PTIکا Manifestoاب قومی ایجنڈا بنادیا گیا ہے۔

ہر پاکستانی کو وطن سے اپنی محبت کے اثبات کے لئے اس Manifestoپر عمل درآمد کو ہر صورت یقینی بنانا ہوگا۔ اس ضمن میں دکھائی ہچکچاہٹ غداری شمار ہوگی۔فرانس کے بادشاہ سوال کیا کرتے تھے کہ ’’ریاست‘‘ کیا ہے۔ دربار میں موجود کسی ایک فرد کی جانب سے جواب آنے سے پہلے ہی سینہ پھلاکروضاحت فرمادیتے کہ وہ (یعنی ریاست’’میں (LES MOI)‘‘ہوں۔

ہمارے وزیر اعظم اسی منطق کے مطابق اب ریاستِ پاکستان کی تجسیم بن چکے ہیں۔ریاستِ پاکستان کا انسانی صورت میں حتمی مظہر ٹھہرا یہ وزیر اعظم مگر مذکورہ انٹرویو ہی میں بہت سادگی سے یہ اعتراف کرتا ہے کہ انہیں ٹی وی کے ٹِکردیکھتے ہوئے خبر ملی کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے ایک نہیں دو بار روپے کی قدر کو امریکی ڈالر کے مقابلے میں ’’اچانک‘‘ اور اپنے ’’خودمختارانہ‘‘ اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے پریشان کن حد تک گرادیا۔

’’اداروں کی خودمختاری‘‘ کا مکمل احترام کرتے اور ذاتی طورپر انتہائی ایمان دار وزیر اعظم صاحب کو شاید یہ خبر بھی نہیں ہوگی کہ IMFسے جنوری کے وسط میں 6سے 8ارب ڈالر کا پیکیج مانگنے کے لئے مذاکرات سے قبل پاکستانی روپے کی قدر کو ایک اور جھٹکا لگایا جائے گا۔

یہ فیصلہ ریاستِ پاکستان کی مجسم علامت ٹھہرائے عمران خان صاحب کو پیشگی اطلاع دئیے بغیر کیا جائے گا۔’’اداروں کی خودمختاری‘‘ کا ذکر چلے تو فوراََ ذہن میں وہ خبریں آجاتی ہیں جن کے ذریعے ’’ذرائع‘‘ قوم کو تیار کرتے ہیں کہ بجلی،گیس اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہونے والا ہے۔

قیمتوں میں اضافوں کی سمریاں ’’خودمختار‘‘ ٹھہرائے نیپرا یا اوگرا کی جانب سے تیار کی جاتی ہیں۔ حکومتیں بہت مہارت سے قیمتوں میں ان اداروں کی جانب سے آئی اضافے کی تجویز والی خبروں کی تشہیر ہونے دیتی ہیں۔

بالآخر یہ خبر آتی ہے کہ عوام کی پریشانیوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے وزیر اعظم نے ان دو اداروں کی جانب سے تجویز کردہ اضافے کی منظوری دینے سے انکارکردیا۔ فرض کیا نیپرا بجلی کے ایک یونٹ کی قیمت میں دو روپے اضافے کی تجویز دے تو کابینہ کے اجلاس کے بعد اعلان ہوتا ہے کہ جی کڑاکرکے مثال کے طورپر فقط ایک روپے اور 60پیسے بڑھانے کی اجازت دی گئی ہے۔ قوم کو مزید 40پیسوں کے اضافی بوجھ سے مہربان وزیر اعظم نے بچالیا۔

ہم سادہ لوح شہری ’’اضافی بوجھ‘‘ سے محفوظ رہنے پر وزیر اعظم کے شکرگزار محسوس کرتے ہیں۔’’عوام کی پریشانی‘‘ کے بارے میں ہمہ وقت پریشان رہنے والے وزیر اعظم کے لئے ضروری تھا کہ وہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں پریشان کن گراوٹ کے ضمن میں بھی سٹیٹ بینک آف پاکستان کی مبینہ (اور میں یہ لفظ بہت سوچنے کے بعد استعمال کررہا ہوں)’’خودمختاری‘‘ کو بھی خاطر میں نہ لاتے۔

فون اٹھاکر سٹیٹ بینک کے گورنر سے ’’یہ کیا ہورہا ہے‘‘ والے سوالات اٹھاتے۔ ایسا مگر ہوگا نہیں۔وزیر اعظم صاحب کو ان کے معاشی معاونین نے طویل بریفنگوں کے بعد سمجھادیا ہے کہ IMFسے رجوع کئے بغیر پاکستانی معیشت کو سہارا دینے کا اور کوئی راستہ موجود نہیں۔IMFکوئی بیل آئوٹ پیکیج دینے سے پہلے پاکستانی روپے کی قدر اور بجلی ،گیس اور پیٹرول کی قیمتوں کے بارے میں جو تقاضے کرتا ہے اس کی بابت بھی وزیر اعظم اب کئی بریفنگوں کے بعد بہت باخبر ہوچکے ہیں۔

وہ اس ضمن میں باخبر نہ ہوتے تو ایک نہیں دو بار سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے دورے پر نہ جاتے۔ شاید ابھی ان کا چین میں پانچ دن گزارنے کا ارادہ بھی نہیں تھا۔وہ ان دوروں پر جانے کے لئے پاکستان کے معاشی حقائق کے بارے میں دی گئی تفصیلی بریفنگوں کے بعد ہی مجبور ہوئے۔

حکومتی ترجمانوں نے بہت محنت سے ہمارے ذہنوں میں یہ تصور بٹھانے کی کوشش کی ہے کہ وزیر اعظم دوست ممالک سے مدد مانگنے پر دل سے نہ چاہتے ہوئے بھی مجبورہوئے کیونکہ وہ عالمی سامراج کے بنائے مالیاتی نظام کی سب سے بڑی علامت IMF کے دروازے پر ہاتھ میں کشکول اٹھائے دستک نہیں دینا چاہتے۔

ہمیں یہ کہانی بیچتے ہوئے حکومتی ترجمان انتہائی رعونت سے یہ حقیقت نظر انداز کرتے پائے گئے کہ سعودی عرب اور یو اے ای عالمی سامراج کے بنائے مالیاتی نظام کے اہم ترین کردار نہیں بلکہ ستون ہیں۔چین بھی IMFکی فیصلہ سازی میں اپنا حصہ بقدرجثہ لینے کو بے قرار ہے۔

سعودی عرب اور چین کے دئیے ووٹ کے بغیر FATFپاکستان کو گرے لسٹ پر ڈال ہی نہیں سکتا تھا۔یہ ممالک ہمارے قریب ترین دوست ہونے کے باجود پاکستان کو وہ مالیاتی سرہانے(Financial Cushion)فراہم کرنے کو آمادہ نہیں جن کی بدولت ہم IMF سے رجوع کرنے کی ضرورت محسوس نہ کریں۔

ان دوست ممالک کی طرف سے بھی پیغام یہ ملا ہے کہ ’’ہم حاضر ہیں‘‘ مگر پاکستان IMFکو نظرانداز نہ کرے۔اس کی باتوں کو سنجیدگی سے لے۔سٹیٹ بینک کی ’’خودمختاری‘‘ کے باعث پاکستانی روپے کی قدر میں گراوٹ ان ممالک سے بات چیت کے بعد ہی انگڑائی لے کر حرکت میں آئی ہے۔ان حقائق کا بہادری سے اعتراف کیجئے۔

بشکریہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).