نوید، نانی کی ذیابیطس اور جال میں پھنسی چڑیا


ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شہر میں ایک لڑکا رہتا تھا جس کا نام تھا نوید۔ نوید کی ایک چھوٹی بہن تھی اور وہ اپنے امی ابو کے ساتھ رہتے تھے۔

نوید کی نانی کو ذیابیطس ہوگئی تھی اور وہ روزانہ اپنی دوا باقاعدگی سے لیتی تھیں۔ نوید نے دیکھا کہ وہ ہر صبح‌ ایک انجیکشن لگاتی تھیں‌ جس کا نام تھا وکٹوزا اور رات میں‌ ایک گولی کھاتی تھیں جس کا نام تھا گلوکوفاج۔

دوا لینے سے نانی کی شوگر نارمل رہتی۔ نوید کے ابو کا خیال تھا کہ جب نانی کی شوگر ٹھیک ہوتی ہے تو ان کا موڈ بھی اچھا ہوتا ہے۔ ایک دفعہ کیا ہوا کہ نانی خواہ مخواہ ناراض ہوگئیں، ان کو شدید غصہ آیا ہوا تھا اور پسینے بہہ رہے تھے۔ ان لوگوں‌ نے نانی کی بلڈ شوگر چیک کی تو وہ صرف 55 ملی گرام فی ڈیسی لٹر آئی۔ یہ دیکھ کر ابو نے نانی کو ایک کپ اورنج جوس پلایا اور ان سے کہا کہ آپ لنچ کرلیں۔ لنچ کرنے کے بعد نانی بالکل خوش خوش نظر آنے لگیں‌ اور بولیں‌ بیٹا امیتابھ بچن کی مووی تو لگا دو۔

نوید کو معلوم تھا کہ نانی کی دواؤں‌ سے دور رہنا چاہئیے کیونکہ اگر چھوٹے بچے یہ دوائیں‌ کھالیں‌ تو ان کی طبعیت بگڑ سکتی ہے۔ نانی کو ذیابیطس ہونے کی وجہ سے سب کو معلوم تھا کہ ان کے خاندان میں‌ یہ بیماری ہے اور سب لوگ اس کے خطرے میں‌ ہیں۔ اس لئیے نوید اپنی امی کے ساتھ روزانہ گھر کے سامنے والی جھیل کے گرد 3 یا 4 چکر لگاتا تھا۔ وہ کبھی آہستہ آہستہ چلتے اور کبھی ریس بھی لگاتے۔ پہلے امی جیت جاتی تھیں‌ کیونکہ نوید چھوٹا تھا لیکن جب وہ تھوڑا بڑا ہوگیا اور اپنی امی سے اس کا قد زیادہ ہوگیا تو پھر اس نے اپنی امی کو ریس میں‌ ہرانا شروع کیا۔ لیکن اس کی امی کو برا نہیں‌ لگتا تھا وہ ہنسنے لگتیں‌ کہ نوید نے ان کو ہرا دیا۔

نوید نے جب دیکھا کہ امی کا قد تو اس سے چھوٹا رہ گیا ہے تو ایک دن اس کو شرارت سوجھی، اس نے ایک بازو گردن کے پیچھے اور ایک گھٹنوں‌ کے پیچھے رکھا اور امی کو گود میں‌ اٹھا لیا جیسے وہ اس کو اٹھاتی تھیں۔ امی چلانے لگیں‌، نوید مجھے نیچے رکھ دو میں‌ گر جاؤں‌ گی۔ نوید نے امی کو دو تین مرتبہ گھمایا اور زمین پر کھڑا کر دیا اور ہنستے ہوئے بھاگ گیا اس سے پہلے کہ امی اس کو پکڑ لیتیں۔

نوید اپنی صحت پر دھیان دیتا تھا، وہ صرف پانی پیتا تھا اور زیادہ میٹھی چیزیں کھانے سے احتیاط کرتا تھا۔ اس کے پاس وزن کرنے والی مشین تھی اور وہ باقاعدگی سے اپنا وزن چیک کرتا تھا۔ اس کو معلوم تھا کہ بچپن سے ہی اچھی عادتیں‌ اختیار کرنے سے آگے چل کر وہ اپنی نانی کی طرح‌ ذیابیطس ہونے سے خود کو بچا سکے گا۔ نوید اپنے دوستوں‌ کے ساتھ باسکٹ بال کھیلتا تھا اور اپنی چھوٹی بہن اور ابو کے ساتھ ہفتے میں‌ تین بار باکسنگ کرنے بھی جاتا تھا۔

ایک دن کیا ہوا کہ نوید اور اس کی امی جھیل کے گرد چکر لگا رہے تھے۔ وہاں‌ کچھ کچھوئے کنارے پر دھوپ کھا رہے تھے اور جیسے ہی ان کو آتے دیکھتے تو پانی میں‌ ڈبکی مار دیتے۔ نوید نے دیکھا کہ کنارے پر ایک چڑیا مچھلی پکڑنے والے جال میں‌ پھنسی ہوئی پھڑپھڑا رہی ہے۔ نوید اور اس کی امی نے دیکھا کہ اس پر چونٹیاں‌ بھی چڑھنا شروع ہوگئی ہیں۔ انہوں‌ نے چڑیا پر سے چونٹیوں‌ کو ہٹایا اور اس کو جال میں‌ سے نکالنے کی کوشش کی لیکن وہ دونوں‌ پنجوں‌ اور پروں‌ کے درمیان بری طرح‌ جکڑ گیا تھا۔

نوید کی امی نے کہا کہ بیٹا گھر سے قینچی لے آؤ۔ نوید بھاگا بھاگا گیا اور گھر میں‌ سے پتلی قینچی لے آیا۔ پھر اس نے ایک پتے میں‌ جھیل میں‌ سے پانی لیکر چڑیا کو تھوڑا سا پلایا۔ چڑیا کو نوید کی امی نے ہتھیلی میں‌ لیا ۔ چڑیا نے ہلنا جلنا بند کردیا تھا جیسے وہ سمجھ گئی ہو کہ میری مدد کی جارہی ہے۔ نوید نے احتیاط سے چڑیا کے پروں‌ کو بچاتے ہوئے مچھلی پکڑنے والے جالے کو کاٹنا شروع کیا۔ انہوں‌ نے جال کو چڑیا سے الگ کرکے پلاسٹک ری سائکل کوڑے میں‌ پھینک دیا۔

نوید کو احساس تھا کہ پلاسٹک کا کوڑا دنیا میں‌ تیزی سے بڑھ رہا ہے جس سے دنیا میں‌ رہنے والے زمینی، ہوائی اور آبی جانوروں‌ کی زندگی پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ اس لئیے انسانوں‌ پر ایک بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ماحولیات پر توجہ دیں۔ اسی لئیے وہ سب پلاسٹک کی چیزیں جیسا کہ شیمپو کی خالی بوتلیں‌ یا پانی کی خالی بوتلیں ری سائیکل والے ڈبے میں‌ ڈالتا تھا تاکہ ان کو پگھلا کر دوبارہ استعمال کیا جاسکے اور وہ سمندروں‌ تک نہ پہنچیں جہاں‌ مچھلیاں‌ یہ پلاسٹک کا کوڑا کھا رہی ہیں۔ اس کو معلوم تھا کہ پھر یہی مچھلیاں‌ ہماری پلیٹ میں‌ پہنچ جاتی ہیں۔

پھر انہوں نے چڑیا کو واپس زمین پر رکھ دیا۔ چڑیا پہلے دو تین بار پھدکی جیسے اپنے پروں‌ کی طاقت چیک کر رہی ہو پھر اس نے ہوا میں‌ غوطہ لگایا اور سامنے والے مکان پر سے اڑ کر وسیع نیلے آسمان میں‌ غائب ہوگئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments