گناہ پر ٹیکس کا سلگتا ہوا منصوبہ


وزیر صحت نے ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وہ سگریٹ پر گناہ کا ٹیکس لگائیں گے۔ لبرل پہلے ہنسیں گے مگر پھر روئیں گے کیونکہ وزیر صحت نے بتایا ہے کہ یہ ٹیکس سول سوسائٹی کے مطالبے پر لگایا جا رہا ہے۔ وزیر صحت نے بتایا کہ 45 ملکوں میں یہ ٹیکس لگایا جا چکا ہے۔ ہمیں ہالینڈ کا تو پتہ تھا کہ ادھر ایک کوچے میں باقاعدہ خواتین لائسنس لے کر گناہ کرواتی ہیں اور حکومت کو سروسز فیس میں سے حصہ دیتی ہیں لیکن باقی 44 کا علم نہیں تھا۔

بعض افراد پوچھیں گے کہ کیا سگریٹ نوشی واقعی گناہ ہے؟ فرائیڈ نے اس معاملے میں لمبی تحقیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ سگریٹ کو ہونٹوں میں دبانے کا جنسی خواہش سے گہرا تعلق ہے۔ اب جو شخص دن کی دو ڈبیاں پی جاتا ہو، اس کے اندر کتنی فحاشی بھری ہو گی؟ اسے بری بری باتیں سوچنے سے روکنے کا یہ ایک اچھا طریقہ ہے کہ اس کے جذبات کو اتنا مہنگا کر دیا جائے کہ وہ گناہ سے تائب ہونے کا سوچے۔

وزیر موصوف نے کہا ہے کہ ٹیکس تمباکو اور میٹھی چیزوں پر لگایا جائے گا اور اسے ”گناہ ٹیکس“ کا نام دیا جائے گا۔ ہمارے خیال میں سگریٹ پر گناہ ٹیکس لگے گا، نوجوانوں کے پسندیدہ شیشے پر گناہ صغیرہ ٹیکس اور بزرگوں کے گڑگڑ والے حقے پر گناہ کبیرہ ٹیکس۔ امکان ہے کہ ملنگوں کی چرس پر روحانی ٹیکس لگایا جائے گا۔ ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا اس گناہ کی بنیاد تمباکو ہے اور یہ نسوار پر بھی لگے گا؟ اگر ایسا ہوا تو اس کے خیبر پختونخوا کی سیاست پر نہایت دور رس اثرات پڑیں گے۔

کولا وغیرہ پر بھی گناہ کا ٹیکس لگانا سمجھ آتا ہے۔ کوک کی بوتل ہمیشہ سے ہی گناہ کی علامت رہی ہے۔ کسی حسینہ پر جب بھی بری نیت سے نظر ڈالی جاتی ہے تو یہی کہا جاتا ہے کہ بالکل کوک کی بوتل جیسی ہے۔ اسی سے آپ اندازہ لگا لیں کہ کوک پر گناہ ٹیکس بالکل جائز ہے۔

ہم جیسے کنفیوز تھے کہ ہمارے کون کون سے روزمرہ کے اعمال گناہ ہیں۔ شکر ہے کہ اب حکومت نے یہ واضح کر دیا ہے۔ اب کوئی اگر آپ سے اصرار کرے کہ منہ میٹھا کر لو تو یہ یاد رکھیں کہ وہ آپ کو دعوت گناہ دے رہا ہے۔ اس سے اجتناب کرنا چاہیے اور ایسے فاسق و فاجر کی صحبت سے احتراز کرنا بہتر ہے۔

دوسری طرف مساجد مذہبی اجتماعات اور جنازوں وغیرہ پر ایف بی آر کے ایجنٹ موجود ہوں گے۔ جیسے ہی مولوی صاحب دعا کراتے ہوئے یہ کہیں گے کہ ”ہم بہت گناہ گار ہیں اے اللہ ہمیں معاف کر“ تو جو جو آمین کہے گا ٹیکس والے فوراً اس اعتراف جرم کرنے والے سے گناہ کرنے کا ٹیکس وصول کر لیں گے۔

ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ پولیس والے اب ناکوں پر لوگوں کے منہ سونگھنا شروع کر دیں گے اور جس سے سگریٹ کی بو آئے گی اسے گنہگار جان کر حدود کیس میں دھر لیا جائے گا جس طرح ابھی شرابیوں کو پکڑا جاتا ہے۔ کسی کی جیب سے سگریٹ کی پوری ڈبی برآمد ہو گئی تو اس کی خیر نہیں۔ اگلے دن خبر چھپے گی کہ ایک نوجوان گناہ کی نیت سے عیاشی کا سامان جا رہا تھا کہ رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ دو چار دوست مل کر پی رہے ہوں تو خبر ہو گی کہ چار افراد سرعام گناہ کرتے ہوئے پکڑے گئے۔ بعید نہیں کہ سگریٹ فروش پکڑے جانے لگیں اور خبر لگے کی گناہوں کے اڈے پر چھاپہ، ایک شخص گناہوں کا دھندا کرواتے ہوئے پکڑا گیا۔

ریستوران میں کوئی جوڑا جائے گا تو ریسیپشن والی حسینہ پوچھے گی ”آپ گناہ کرنے والوں کے گوشے میں بیٹھنا پسند کریں گے یا گناہ سے نفرت کرنے والوں کے؟ “۔ اب اگر مرد نے گناہ کرنے کی نیت ظاہر کر دی اور ساتھی خاتون اس پر شدید اشتعال کی حالت میں حملہ کرے تو تعجب نہیں ہو گا۔

ہم نے وکی پیڈیا پر تحقیق کی ہے اور ہمیں پتہ چلا ہے کہ گناہ کا ٹیکس تمباکو، گولی ٹافی، منشیات، سافٹ ڈرنکس، فاسٹ فوڈ، کافی، میٹھی اشیا اور پورنوگرافی پر لگایا جاتا ہے۔ اب اس فہرست پر نظر ڈالیں تو دکھائی دیتا ہے کہ پوری قوم ہی ان گناہوں میں شدت سے مبتلا ہے۔ یہ ٹیکس لگانے کے بعد ہمارا بجٹ خسارے سے سرپلس میں چلا جائے گا۔

جس نے تماکو کھایا پیا وہ ٹیکس دے، جو گولی چوستا یا دیتا پکڑا گیا اس سے رقم دھروا لیں، کسی کونے کھدرے میں چار نشئی سر جوڑے بیٹھے ہوں تو چھاپہ مار کر ان سے قومی خزانہ بھروا لیا جائے، کوئی برگر پیزا کھانے کا گناہ کرے تو اس سے رقم نکلوا لیں، کوئی عیاش کافی پیتا پکڑا جائے تو پہلے اس سے توبہ کروائی جائے اور پھر جرمانہ ڈالا جائے اور جیسے ہی کسی نے بات پکی ہونے، شادی یا نومولود کی مٹھائی پیش کی ساتھ ہی اس سے ان گناہوں کا حساب لے لیا جائے۔

سب سے زیادہ کمائی تو پورنوگرافی پر گناہوں کا ٹیکس لگانے سے ہو گی۔ آزادی اظہار کے حامی گروپ الیکٹرانک فرنٹیئر فاؤنڈیشن کے مطابق اس سال 18 امریکی ریاستوں میں یہ قانون بنانے کی کوشش کی گئی کہ تمام نئے کمپیوٹرز اور موبائل فونوں پر فحش ویڈیوز اور تصاویر کی روک کے لیے فلٹر لگایا جائے گا جسے ہٹانے کے لیے ٹیکس دینا پڑے گا۔ ہماری حکومت بھی اس پر غور کرے۔ لیکن ایک مرتبہ فیس لینے کی بجائے فی منٹ چارج کیا جائے تو زیادہ کمائی کا امکان ہے۔ یا پھر عوام کو نیٹ فلکس وغیرہ کی طرح کے پیکیج دے دیے جائیں۔

حکومت اس معاملے میں بدنامی کی پروا مت کرے۔ فحاشی کے حامی اس پر طرح طرح سے حملے کریں گے۔ مثلاً یہی دیکھ لیں کہ جن امریکی قانون سازوں نے یہ بل پیش کیا تھا وہ اسے واپس لے رہے ہیں۔ اس قانون کے پیچھے کرس سیویر نامی شخص تھا جس نے ایک مرتبہ عدالت میں کیس کر دیا تھا کہ اسے اپنے لیپ ٹاپ (کمپیوٹر والا) سے شادی کرنے کی اجازت دی جائے۔ مقدمہ خارج کر دیا گیا اور اس کی ایک وجہ یہ بتائی گئی کہ لیپ ٹاپ کی عمر پندرہ برس نہیں تھی جو شادی کے لیے لازم ہے۔ کرس پورنوگرافی کے خلاف ہے اور ایپل کے خلاف کیس کر چکا ہے کہ اس نے ایسا کمپیوٹر کیوں بنایا جس کی وجہ سے اسے فحش فلموں کی لت پڑ گئی۔

امریکی تو بے وقوف ہیں جو ایسے ہیرے کو مٹی میں رول رہے ہیں، اگر ہماری حکومت کرس سیویر کو پاکستان بلا لے اور اس کا موبائل اور کمپیوٹر پر فحش فلمیں دیکھنے پر ٹیکس کا منصوبہ بروئے کار لے آئے تو گناہ کے اس ٹیکس سے اتنی زیادہ آمدنی ہو گی کہ حکومت سگریٹ نوشی کو گناہ سمجھنا چھوڑ دے گی۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar