ایگزٹ ویسٹ پر تبصرہ


”جب ہم ہجرت کرتے ہیں تو ہم اپنی زندگیوں میں سے ان لوگوں کا قتل کردیتے ہیں جو ہم سے بہت پیچھے رہ چکے ہوتے ہیں۔ “

ہجرت کے ایک معانی زندگی سے سیکھے دوسرے محسن حامد کی کتاب سے۔ ایگزٹ ویسٹ ہجرت کا المیہ ہے مگر صرف ہمارے جیسے ہزاروں محفوظ مستقبل کی خاطر اپنی بنیادوں سے اکھڑ کر نئی جگہ پر جنم لینے والے تارکین وطن کا ہی نہیں، بلکہ اس سے کہیں آگے بڑھ کر ان لوگوں کا جن کی زمین کا دامن آگ پکڑ لے، آسمان پر ستاروں کی بجائے گولہ بارود چمکنے لگے، گلیوں میں موت رقص کرنے لگے، پاؤں زمین میں دھنسنے لگیں اور انسان کو صرف اور صرف زندگی کی خاطر اپنی زمین سے اکھڑنا پڑے۔ وہ اک بے نام محرومی اور کسک جو اک مہاجر کے قدموں میں ہر وقت بیٹری بنکر پڑی رہتی ہے تب کئی گنا بھاری اور خون آلود ہو جاتی ہے جب اس ہجرت کا مطلب ایک زمین سے اکھڑ کر دوسری زمیں پر اگنا نہیں بلکہ ہواؤں میں ٹوٹنا بکھرنا، گمشدہ ہو جانا، اور محض سانس کی تلاش میں ہر آنے والے دن کے لئے پہلے سے زیادہ بے حال ہو جانا ہو۔ یہی محسن حامد کی ایگزٹ ویسٹ کا موضوع ہے۔

ہمیں یوں لگتا ہے جیسے یہ کہیں بہت قریب کی کہانی ہو، پشاور سے لے کر افغانستان تک یہ کہیں کی بھی داستان ہو سکتی ہے مگر یہ کہاں کی ہے، یہ فیصلہ لکھنے والے نے آپ پر چھوڑ دیا ہے۔ چناچہ کسی انجان علاقے کے انجان شہر میں دو ایسے پریمیوں کی داستان جو موت اگلتی گلیوں میں اپنے پیاروں کو مرتے چھوڑ کر ہاتھ تھامے زندگی کی تلاش میں نکلتے ہیں ایسے کہ ہر پراسرار دروازے کے پیچھے پہلے سے بڑھ کر آزمائش ہے، سختی ہے، تکلیف اور اندھیرا ہے۔

نادیہ اور سعید کی محبت جو اس تکلیف دہ ہجرت کی ہر رگڑ اپنے وجود پر سہتی ہے، ٹوٹتی ہے، مرتی ہے اور زندگی اور موت کی جنگ کے بیچ، حال اور ماضی کے درمیاں اپنے وجود کو قائم رکھنے کی جستجو کرتی ہے مگر زندگی، ساتھ اور محبت بچانے کی جنگ میں سے صرف زندگی سانس بحال کر پاتی ہے محبت جاں بلب پہنچتی ہے اور ساتھ زندگی ہار بیٹھتا ہے۔

ایگزٹ ویسٹ ایک رومینٹک ناول ہے آپ کہہ سکتے ہیں اس لیے کہ اس کا اہم موضوع محبت بھی ہے۔ مگر یہ رومینٹک نہیں ہے چونکہ اس میں رات کے ستارے بھی ہے اور دل میں دھڑکتے گیت بھی، محبت کے سروں پر ناچتی رات بھی اور کاندھے پر رکھے سر بھی، مگر انہیں رسیلے گیتوں کے بیچ میں ہے گولیوں کی ترتراہٹ بھی، درختوں سے لٹکی زبح شدہ لاشیں بھی، بستیوں پر چھائی خوفزدہ تاریکی اور کیمپوں سے چھلکتی وحشت بھی، غریب الوطنی میں جاری بقا کی جنگ بھی اور مرو یا مار دو کا جھگڑا بھی، بارش کی دعا کرتی ابابیلیں بھی تو آبادیوں پر برستی کالی بارشیں بھی۔

ایگزٹ ویسٹ ایک المیہ کا کھلا اظہار ہے، وہ المیہ جو وزیراستان سے لے کر افغانستان تک، کشمیر سے میانمار تک فلسطین سے یمن اور شام تک پھیلا ہوا ہے۔ ان لوگوں کی کہانی جو خون خوار جوج ماجوج کی قوم سے جان بچانے نکلتے ہیں اور پھر ایسے اکھڑتے ہیں کہ عمر بھر گرم پتھروں پر ننگے پاؤں چلتے ہی رہتے ہیں۔ سعیداور نادیہ بھی ایسے ہی نکلے تھے اپنی زندگی کو ہاتھوں میں تھامے ایسی تپتی گلیوں سے اپنے تلوے زخمی کرتے۔

نادیہ، اک قدامت پرست معاشرے کی مضبوط لڑکی جو زندگی کے ہاتھوں سے اپنے لئے فیصلہ کرنے کا اختیار چھین سکتی ہے، جو اپنے فیصلوں اور نظریات پر کھڑے ہونے اور رشتے، خاندان اور سماج کے ہر دباؤ سے خود کو ماورا رکھنے پر قادر ہے۔ ، سعید اک عام سا شرمیلا اسیر دام مجنوں۔ جب ان کے بے نام شہر میں اسلامائزیشن کی یا دہشت گردی کی قوتیں جڑ پکڑنے لگتی ہیں اور ایک نظریے یا فلسفے کے نام پر خوف و وحشت کے سائے ان کی سروں پر ناچنے لگتے ہیں تو ہزاروں دوسرے افراد کی طرح وہ بھی ان پراسراریت سے بھرے دروازوں کی طرف لپکتے ہیں جن کے پیچھے خواب بھی ہو سکتے تھے اور عذاب بھی۔ ایک امید جو انہیں کھینچتی تھی کہ شاید ان دروازوں کے اندھیروں سے گزر کر ان کے قدم اس خون آلود شہر سے دور جا سکتے تھے جہاں پر زندگی کی سانسیں ڈوب رہی تھیں۔

مذہب اور سیکولرازم، شہر اور ملکوں کی حدوں سے بے نیاز، صحیح اور غلط کی بحث کے بغیر محسن حامد نے ہمیں بتایے ہیں ان انسانوں کے دکھ جن کے سروں پر وحشت اور بربریت نافذ ہو جاتی ہے پھر چاہے اس کا نام، نظریہ اور وجہ کوئی بھی ہو۔ کسی مقبوضہ شہر یا ریاست میں ایک ایک فرد کن کن مسائل اور تکلیف سے گزرتا ہے۔ دیواریں گرتی مکان ڈھاتے سب کو نظر آتے ہیں مگر ان کے اندر زندہ بچ جانے والے انسانوں پر کیا بیتی ہے یہی اس داستان کا عنواں ہے۔

اپنے شہر کی گلیوں سے جاں بچا کر نکلنے والے نادیہ اور سعید کو اپنی محبت اور وعدوں سمیت کس کس مشکل سے گزرنا پڑتا ہے، زندگی کی سختیاں ان پر ٹوٹ کر برستی ہیں۔ دو تعلیم یافتہ مہذب انساں اس ہجرت کی بھٹی میں کس طرح پستے ہیں کہ محض اک انسان نما زندگی گزارنے کی جدوجہد میں ایک عمر گزار دیتے ہیں، ایسے کہ کبھی پاوں پسار کر نیند نہیں ملتی تو کبھی جسم دھونے کو پانی نایاب ہو جاتا۔ سر پر چھت، پاؤں میں زمین تو بہت بڑی بڑی نعمتیں ہیں جن سے ان کے دامن خالی ہو چکے۔

ہر ہر قدم تکلیف دہ ہر ہر صبح تھکی ہوئی بے حال۔ جب انسان کے پاس جینے کے لئے سوائے ایک ادھوری امید کے یا اک یاسیت بھرے انتظار کے کچھ نہیں ہوتا، آنے والی اس صبح کا انتظار جو اکثر گھر کا رستہ بھول جاتی ہے۔ ہر رات جب احساس دلاتی ہے کہ زندگی میں رنگین خوابوں کے رنگوں سے بڑھ کر بھی مہلک رنگ ہوتے ہیں اذیت اور تنہائی کے دکھ میں رنگے، غریب الوطنی کے الم، زمیں سے پاؤں کا اکھڑ جانا، خلاوں میں بھٹک جانا، اور خود سے جدا ہو جانا۔

راتوں کو خواب دیکھنے اور صبح کی روشنی جینے والے ہم عام لوگ ان صبحوں کے اندھیروں کو نہیں جھانک پاتے جن کو اس کتاب میں محسن حامد نے صفحہ صفحہ کر کے ہمارے سامنے کھول کر رکھ دیا ہے۔ یہ کتاب ہے سروائیول کی اک داستان، جس کا ہر عنصر اپنے سروایہول میں مگن ہے۔ زندگی جی لینے کو بیقرار ہے، محبت پنپنے کو، وحشت نگل لینے کو کھڑی ہے تو بے زمینی پلٹ دینے کو، ایسے میں سعید اور نادیہ کو ہر صفحہ الٹ دینا پڑتا ہے اور ہر اس در سے گزر جانا پڑتا ہے جو ان کی راہ میں آیا۔

پھر چاہے وہ کسی ملک کی سرحد ہو کہ ہجر کی، کسی روایت کی یا رسم کی، کسی ڈر کی یا وحشت کی، در در بھٹکتے زندگی بھی ٹوٹتی ہے اور محبت بھی چلتے چلتے تھک جاتی ہے۔ بے وطنی، بے یقینی اور لا مکانی ان کے وجود کے ساتھ ان کے حوصلے بھی تھکا دیتی ہے۔ بقا کی جنگ میں ہر مٹھی کھول دینی پڑتی ہے پھر چاہے اس میں سے گھر کی دہلیز چھوٹے، والدین کا ساتھ نکلے، آنکھوں میں چمکتے خواب گر جائیں، دل میں لگی محبت مر جائے، بقا کی اس جنگ میں سب کچھ ہار جانا پڑتا ہے۔

بے زمینی کی سزا کاٹتا یہ جوڑا پھر خود کو ڈھونڈنا بھی چاہے تو ڈھونڈ نہیں پاتا۔ جب انساں کے پاس کوی گھر کوی ذمیں کوئی تعلق اور کوئی بھی آسرہ نہ رہے تو اسے اپنے رب کی طرف ہی لوٹنا ہی پڑتا ہے۔ کسی آسرے کسی تعلق کی خواہش سعید کو بھی عبادت کی طرف لے جاتی ہے۔ آندھیوں کے ساتھ اڑتا اس کا وجود کسی مضبوط تعلق یا حوالے کی بھوک بن جاتا ہے۔

ایک مشکل اسلوب اور گھمبیر زبان کے ساتھ گندھا یہ ناول بلاشبہ ایک بہترین منظرنامہ ہے آج کی دنیا کے بہت سے الجھے بدصورت چہروں اور حالات کا۔ طاقت کی لڑائیوں میں مصروف دنیا میں انسان اور انسانیت پر کیا کچھ بیت جاتا ہے اگرچہ اس کا مکمل احاطہ تو نہیں، مگر جتنا ہے گہرا اور تلخ ہے۔ اور زندگی کے ان دکھوں کو محسوس کرنے کے لئے، جو ہمارے خطے کا ایک بڑا حصہ سہہ رہا ہے، اور ان کا درد جان لینے کو ایک بہترین مطالعہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).