خاکستر بابری مسجد: ہندوستان کے ضمیر پر بھاری پتھر


26  سال پہلے 6 دسمبر کو ایودھیا میں بھارتیا جنتا پارٹی اور اس کے پریوار کی تنظیموں کے جنونیوں نے بابر کے دور کی چار سو ترانوے سال قدیم بابری مسجد کو مسمار کر کے ہندوستان کے سیکولر آئین کے سینہ میں جو گھاؤ لگایا تھا، وہ گذشتہ چوتھائی صدی میں بڑھ کر ناسور بن گیا ہے۔ کس قدر تاسف اور شرم کی بات ہے کہ بھارتیا جنتا پارٹی کے اعلی رہنماؤں اور ان کے ہم نوارہنماؤں نے آٹھ سال پہلے ایک سازش کے تحت، سیتا مڑھی سے ایودھیا تاک رام مندر کے لئے رتھ یاترا نکالی تھی اور ایودھیا میں کار سیوکوں بابری مسجد مسمار کرنے کے لئے بھڑکایا تھا جس کے بعد پورے ہندوستان میں جگہ جگہ خونریز فسادات کی آگ بھڑک اٹھی تھی جس میں تین ہزار افراد ہلاک ہوگئے تھے، ان رہنماؤں میں سے کسی کو اس جرم کی سزا نہیں دی گئی بلکہ بابری مسجد کی مسماری کے وقت اتر پردیش کے وزیر اعلی، کلیان سنگھ کو نریندر مودی نے راجھستان کا گورنر بنا کر انعام دیا ہے کہ انہوں نے مسجد کو شہید کرنے والوں کو تمام تر سہولیتں فراہم کیں اور انہیں روکنے کے لئے کوئی کارروائی نہیں کی۔

کلیان سنگھ بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ یہ ان کا اعزاز ہے کہ ان کی وزارت اعلی کے دور میں بابری مسجد مسمار ہوئی۔ بھارتیا جنتا پارٹی کے اعلی رہنماؤں لا ل کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی کے ساتھ اٹھارہ رہنماؤں کے خلاف جنہوں نے بابری مسجد کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کی سازش کی تھی پچھلے پچیس برس سے رائے بریلی اور لکھنو کی عدالتوں میں مقدمات زیر سماعت ہیں لیکن کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے ان ملزموں میں سے آٹھ اس دنیا سے چل بسے ہیں۔ اس دوران وفاقی تفتیشی ادارے، CBI نے جس نے پہلے لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی کے خلاف مجرمانہ سازش کا الزام لگایا تھا، پر اسرار طور پر یہ الزام ترک کر دیا اور الزا م دوفرقوں کے درمیان دشمنی بھڑکانے اور افواہیں پھیلانے تک محدود رکھا۔

پچھلے سال سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی مسماری کو ایک ایسا جرم قراردیا تھا جس کے نتیجے میں ہندوستان کے آئین کا سیکولر پارچہ تار تار ہوگیا۔ سپریم کورٹ نے CBI کو حکم دیا ہے کہ وہ بابری مسجد کی مسماری کے سلسلہ میں وشوا ہندو پریشد کی مبینہ مجرمانہ سازش کی تفتیش کرے۔ سپریم کوٹ نے حکم دیا ہے کہ کوئی نیا مقدمہ نہیں چلایا جائے گا اور جو جج اس مقدمہ کی سماعت کرے گا اس کا مقدمہ کی سماعت مکمل ہونے تک کہیں تبادلہ نہیں کیا جائے گا۔ اس وقت بابری مسجد کی مسماری کے معاملہ کو الجھانے کے لئے دو علحدہ مقدمات زیر سماعت ہیں، ایک لکھنو کی عدالت میں اور دوسرارائے بریلی کی خاص عدالت میں۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ دونوں مقدمات کو یک جا کر کے لکھنو کی عدالت میں اس مقدمہ کی سماعت کی جائے۔

بابری مسجد کی مسمار ی کے سلسلہ میں بھارتیا جنتا پارٹی اور اس کے پریوار کی تنظیم کا جو سیکولر آئین کی دھجیاں اڑانے کا جو رول رہا ہے وہ سب پر عیا ں ہے لیکن اپنے آپ کو سیکولر پارٹی کہلانے والی کانگریس نے بھی ماضی میں سیکولر آئین کی صریح خلاف ورزی کی ہے۔ 1986 میں جب وشوا ہندو پریشد بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے لئے تحریک چلارہی تھی تو اس وقت فیض آباد کے ضلعی جج نے حکم دیا کہ مسجد کے دروازوں کے قفل کھول کر ہندووں کو مسجد کے اندر پوجا کرنے کی اجازت دی جائے۔

 اس وقت کانگریس کے وزیر اعظم راجیو گاندھی نے سیاسی مفادات کے پیش نظر ضلعی جج کے فیصلہ کی حمایت پوری کی۔ کانگریس کا یہ اقدام سیکولر آئین کے منافی تھا کیونکہ حکومت کو کسی ایک فرقہ کی عبادت گاہ کو کھولنے یا بند کرنے کا حق نہیں۔ پھر راجیو گاندھی نے ایک بڑی غلطی یہ کی کہ بابری مسجد کے پورے علاقہ کو متنازعہ قرار دے کر وفاقی حکومت کی تحویل میں لے لیا۔ راجیو گاندھی کے ان متنازعہ اقدامات کی کانگریس کو 1989 کے عام انتخابات میں شکست کی صورت میں بھاری قیمت ادا کرنی پڑی جس کے بعد بھارتیا جنتا پارٹی کے سیاسی عروج کے دروازے کھل گئے۔

یہ بات ثابت کرنے کے لئے کہ بابری مسجد قدیم رام مندر کی جگہ تعمیر کی گئی تھی عجیب و غریب ڈرامے کھیلے گئے ہیں۔ دسمبر 1949 میں ہندو تنظیم اکھل بھارتیا راماینا مہا سبھا نے بابری مسجد کے سامنے نو روز تک پوجا کی کہ یہاں رام مندر تھا۔ بائیس اور تئیس دسمبر کی رات کو پچاس ساٹھ ہندو پجاری مسجد کے اندر گھس گئے اور وہاں رام اور سیتا کی مورتیاں رکھ دیں۔ صبح کو مہا سبھا کے لیڈروں نے لاوڈ اسپیکرز پر اعلان کیا کہ رات کو معجزہ ہو گیا اور مسجد کے اندر رام اور سیتا کی مورتیاں نمودار ہوگئیں۔ پورے ملک کے ہندووں کو دعوت دی گئی کہ وہ بابری مسجد آکر رام اور سیتا کی مورتیوں کے درشن کریں لہذا ملک بھر سے لاکھوں ہندووں نے رام اور سیتا کی مورتیوں کے درشن کے لئے بابری مسجد پر ہلہ بول دیا۔ کانگریس کی حکومت نے اس وقت بابری مسجد کو متنازعہ علاقہ قرار دے کر اسے مقفل کر دیا۔

پھر اسی دوران کچھ ہندووں نے اپنے آپ کو آثار قدیمہ کا ماہر ظاہر کر کے پھاوڑوں سے ایسے کھدائی شروع کر دی جیسے زمین میں دبی زمین میں کوئی چیز نکال رہے ہوں۔ انہوں نے ایک بڑا گڑھا کھود کر شور مچا دیا کہ انہیں اس گڑھے سے چند مورتیاں ملی ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہاں رام مندر تھا۔ یہ اتنا احمقانہ دعوی تھا کہ کسی نے اس پر یقین نہیں کیا۔

بابری مسجد کی مسماری کے فورا بعد وزارت داخلہ نے ریٹائرڈ جسٹس من موہن سنگھ لبر ہان کی سربراہی میں اس سانحہ کے بارے میں تحقیقات کے لئے ایک کمیشن مقرر کیا تھا۔ سولہ سال بعد 2009 میں اس کمیشن نے اپنی رپورٹ میں 68 افراد کو بابری مسجد کی مسماری کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔ جن میں زیادہ تر بھارتیا جنتا پارٹی کے رہنماؤں کے نام تھے۔ ان میں اٹل بہاری واجپائی، لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی وجے راجے سندھیا اور کلیان سنگھ سر فہرست ہیں۔ لبرہان کمیشن کی یہ رپورٹ بھی یکسر نظر انداز کر دی گئی ہے کیونکہ اس میں بھارتیا جنتا پارٹی کے سرکردہ رہنماؤں کو دوشی قرار دیا گیا ہے۔

اب جب کہ اگلے سال عام انتخابات ہونے والے ہیں، یہی افراد جو بابری مسجد کی مسماری کے ذمہ دار ہیں، پھر ایک بار پھر رام مندر کے معاملے کو ہوا دے رہے ہیں۔ پچھلے دنوں ایودھیا میں دھرم سبھا کے نام سے آر ایس ایس کے پریوار کی تنظیموں کا ایک بڑا اجتماع ہوا تھاجس میں حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ سپریم کورٹ اور دوسری عدالتوں کی پرواہکیے بغیر ایک آرڈیننس کے ذریعہ رام مند کی تعمیر کی تاریخ کا اعلان کرے۔ یہ واضح ہے کہ نریندر مودی کی اگلے عام انتخابات کی حکمت عملی کی بنیاد رام مندر کی تعمیر کے مسئلہ پر ہے۔ ممکن ہے کہ اسی مہینہ رام مندر کی تعمیر کے بارے میں اسی طرح سے رتھ یاترا شروع کی جائے جس طرح بابری مسجد کی مسماری سے پہلے لال کرشن اڈوانی نے رام مندر کے لئے رتھ یاترا نکالی تھی۔

رام مند ر کے مسئلہ پر شور مچانے کے پیچھے یہ حکمت عملی بھی پوشیدہ ہے کہ اس وقت ملک میں دشوار گذاراقتصادی صورت حال، سنگین بے روزگاری اور کسانوں کی حالت زار کے علاوہ حکومت کی اعلی سطح پر بدعنوانی کا بحران اتنا شدید ہے کہ عوام کو رام مندر کے مسئلہ میں الجھا کر ان کی توجہ ان مسائل سے ہٹائی جائے۔ خطرہ یہ ہے کہ رام مندر کے مسئلہ کو بھڑکانے سے ملک میں پھر ایک بار خون خرابہ ہو سکتا ہے جس سے بلا شبہ بھارتیا جنتا پارٹی کو فایدہ پہنچے گا۔ اس کا بھی امکان ہے کہ عوام رام مندر کے مسئلہ کو نظر انداز کر کے ان مسائل پر حکومت سے جواب طلب کریں جس میں بری طرح سے گھرے ہوئے ہیں۔

بہر حال جو بھی صورت حال اگلے عام انتخابات تک ابھرتی ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں کی چھبیس سال پہلے خاکستر ہونے والی بابری مسجد اب بھی ہندوستان کے ضمیر پر بھاری پتھر ہے جس سے نجات پانی فی الحال ممکن نہیں ہے۔

آصف جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

آصف جیلانی

آصف جیلانی لندن میں مقیم پاکستانی صحافی ہیں۔ انہوں نے اپنے صحافتی کرئیر کا آغاز امروز کراچی سے کیا۔ 1959ء سے 1965ء تک دہلی میں روزنامہ جنگ کے نمائندہ رہے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران انہیں دہلی کی تہاڑ جیل میں قید بھی کیا گیا۔ 1973ء سے 1983ء تک یہ روزنامہ جنگ لندن کے ایڈیٹر رہے۔ اس کے بعد بی بی سی اردو سے منسلک ہو گئے اور 2010ء تک وہاں بطور پروڈیوسر اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ اب یہ ریٹائرمنٹ کے بعد کالم نگاری کر رہے ہیں۔ آصف جیلانی کو International Who’s Who میں یوکے میں اردو صحافت کا رہبر اول قرار دیا گیا ہے۔

asif-jilani has 36 posts and counting.See all posts by asif-jilani