آج کے بچّے کل کے گنجے۔۔۔۔


آج کے بچے کل کے گنجے۔ ہر بچے نے بڑا ہونا ہے۔ جوان ہونا ہے۔ اور پھر گنجا ہونا ہے۔ جیسے کچھ لوگ وقت سے پہلے بوڑھے ہو جاتے ہیں اسی طرح کچھ مرد وقت سے پہلے گنجے ہو جاتے ہیں۔ جوانی میں گنجے ہونے والے مرد جوانی میں ہونے والی بیوہ کی طرح ہوتے ہیں کہ لوگ ان میں پھر گنجے پن کے علاوہ عمر کے تعین میں دشواری محسوس کرتے ہیں۔ گنجے لڑکے کو عام طور پر لڑکا نہیں مرد سمجھا جاتا ہے جیسے جوان بیوہ کو لڑکی نہیں عورت۔ یورپ میں گنجے ہیٹ کا استعمال کرتے ہیں جو نہ صرف سردی سے بچاتا ہے بلکہ گنجے پن کو عیاں ہونے سے روکتا ہے۔ ہماری بدقسمتی۔ لنڈے سے ہیٹ خرید بھی لیں اور پھر اسے پہننے کی جرات کر بھی لیں تو بیوی کاٹھا انگریز ہونے کا طعنہ مارتی ہے۔ گھر سے باہر نکل جائیں تو محلے کے بچے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ ہیٹ کے ساتھ سیلفیاں بناتے ہیں۔ ظالم اسی پر اکتفا نہیں کرتے ہمارے بچوں کو سنیپ چیٹ پر طرح طرح کے سٹکر لگا کر بھیجتے ہیں۔

محاورہ ہے خدا گنجے کو ناخن نہ دے۔ یہ محاورہ بنانے والے یا والوں کی معصوم خواہش ہو سکتی ہے۔ کیونکہ جس شخص کو اپنے گنجا ہونے پر اختیار نہیں اسی طرح وہ اپنے ناخن بڑھنے سے بھی نہیں روک سکتے۔ گنجے اپنے ناخن خارش کرنے کے لئے استعمال کرتے ہوں گے۔ کئی گنجے اپنے ناخن کٹوا دیتے ہیں لیکن کیا کریں ان کے دوست اپنے ناخن ان کے سر پر آزمانا شروع کر دیتے ہیں۔

ہمیں گنجے پن سے شروع سے ہی یعنی بچپن سے نفرت ہے۔ اگرچہ اس وقت ہم گنجے نہیں بلکہ ٹینڈے تھے۔ ہم سکول کے علاوہ مدرسے میں بھی پڑھنے جاتے تھے۔ مدرسہ کا اصول تھا، ہر ہفتے ٹنڈ کراؤ ورنہ روز ڈنڈے کھاؤ۔ بات یہاں تک تو ٹھیک تھی لیکن سکول کے بھی اپنے اصول تھے۔ ہم جماعت ہمارے سر پر ہاتھ پھیرا کرتے کئی تو اپنے گندے گیلے ہاتھ سر پر پھیر کر بھاگ جاتے۔ جمعرات بہت بھاری پڑتی۔ جمعرات کو بچے ٹھینگے مارتے لہٰذا جمعرات کو ہم ٹوپی پہن کرجانے لگے۔

بہت سے لوگ گنجے پن کو ایک بیماری سمجھتے ہیں۔ اور یہ بیماری عام ہے۔ حالانکہ ہر آدمی کبھی نہ کبھی ضرور گنجا ہوتا ہے۔ گنجاپن بذات خود کسی تکلیف کا باعث بھی نہیں پھر بھی اکثر لوگ اس کی وجہ سے پریشان رہتے ہیں۔ اس مرض کی وجہ سے نہ سر درد ہوتا ہے نہ بخار چڑھتا ہے اور نہ قے آتی ہے۔ لیکن اکثر لوگ گنجے پن کو سر پر سوار کر لیتے ہیں۔ حالانکہ گنجا پن تو ہے ہی سر کی بیماری۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ گنجاپن قوت باہ کی زیادتی کی وجہ سے ہوتا ہے جبکہ کچھ لوگوں کے خیال میں دولت کی آمد گنجے پن کا باعث بنتی ہے۔ بہر حال گنجے پن کا فائدہ ہیر ڈریسر کو ہوتا ہے جو تھوڑے وقت میں اپنے کام سے فارغ ہو جاتا ہے۔ گنجے اپنی جیب میں کنگھی ضرور رکھتے ہیں۔ شاید سر پر خارش کے لئے استعمال کرتے ہوں گے۔

اکثر دیکھنے میں آیا ہے گنجے اپنی بیماری کی وجہ سے متفکّر رہتے ہیں۔ کچھ تو گنجا پن چھپانے کے لئے مصنوعی طریقے اختیار کرتے ہیں یعنی ٹوپی یا پگڑی پہنے رکھتے ہیں۔ کچھ فیشن کے مارے وگ لگوا لیتے ہیں۔ وگ کے بارے بھی طرح طرح کی افوہیں ہیں۔ اب ہیر ٹرانسپلانٹ کا زمانہ آگیا ہے لیکن یہ امیر گنجوں کے لئے ہے۔ غریب بیچارہ ہر جگہ پستا ہے لیکن ہمارے محلے کے مشہور حکیم گنجے پن کا مفت علاج کرتے ہیں۔ یہ علاج ان کے روحانی پیر عبدالکریم گجراتی صاحب نے ان کو تحفے میں عنائت فرمایا تھا۔

مزید تحقیق پر حکیم صاحب نے ایک دن بڑے رازدارانہ انداز میں فرمایا کہ ان کے پیر عبدالکریم گجراتی گنجے پن کے علاج کے لئے جب چلّا کاٹ رہے تھے تو خواب میں ایک بہت بڑے بزرگ نے یہ نسخہ ان کو بتایا تھا۔ حکیم صاحب اس نسخے کے کسی سے پیسے نہیں لیتے بلکہ بطور تبرّک بتا دیتے ہیں۔ ساتھ ساتھ وہ حکم بھی فرما دیتے ہیں کہ نسخے کا فائدہ تب ہوگا جب آپ اس با برکت نسخے کو مزید دس افراد تک پہنچائیں گے۔

نسخہ۔ کوئی سو مکھیاں ماریں۔ ان کو توے پر بھون کر پیس لیں اور تھوڑے زیتون اور شہد میں مکس کرکے روزانہ سر کی مالش کریں۔ ایک ماہ میں آفاقہ ہوگا۔ آفاقہ نہ ہوا تو گھر کی مکھیاں تو مر جائیں گی۔ صحت کے لئے بھی فائدہ مند ہے۔ اللہ توکلی کام ہے۔ آزمائش شرط ہے۔

نوٹ۔ یہ نسخہ مشہور زمانہ حکیم عبدالکریم گجراتی کی شہرہ آفاق تصنیف ”حکیم کا تھیلا“ سے نقل کیا گیا ہے۔ حکیم عبدالکریم گجراتی اس کتاب کی لاکھوں کاپیاں بسوں میں اسی طرح کے اور نسخے سنا سنا کر بیچ چکے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).